الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مشروبات کا بیان
The Book of Drinks
32. باب إِكْرَامِ الضَّيْفِ وَفَضْلِ إِيثَارِهِ:
32. باب: مہمان کی خاطرداری کرنا چاہئے۔
حدیث نمبر: 5366
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن المثنى ، حدثنا سالم بن نوح العطار ، عن الجريري ، عن ابي عثمان ، عن عبد الرحمن بن ابي بكر ، قال: نزل علينا اضياف لنا، قال: وكان ابي يتحدث إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل، قال: فانطلق، وقال: " يا عبد الرحمن، افرغ من اضيافك، قال: فلما امسيت جئنا بقراهم، قال: فابوا، فقالوا: حتى يجيء ابو منزلنا فيطعم معنا، قال: فقلت لهم: إنه رجل حديد، وإنكم إن لم تفعلوا خفت ان يصيبني منه اذى، قال: فابوا فلما جاء لم يبدا بشيء اول منهم، فقال: افرغتم من اضيافكم؟، قال: قالوا: لا والله ما فرغنا، قال: الم آمر عبد الرحمن؟ قال: وتنحيت عنه، فقال: يا عبد الرحمن قال: فتنحيت، قال: فقال: يا غنثر، اقسمت عليك إن كنت تسمع صوتي إلا جئت، قال: فجئت، فقلت: والله ما لي ذنب هؤلاء اضيافك، فسلهم قد اتيتهم بقراهم، فابوا ان يطعموا حتى تجيء، قال: فقال: ما لكم ان لا تقبلوا عنا قراكم؟، قال: فقال ابو بكر: فوالله لا اطعمه الليلة، قال: فقالوا: فوالله لا نطعمه حتى تطعمه، قال: فما رايت كالشر كالليلة قط، ويلكم ما لكم ان لا تقبلوا عنا قراكم؟، قال: ثم قال: اما الاولى فمن الشيطان هلموا قراكم، قال: فجيء بالطعام فسمى فاكل واكلوا، قال: فلما اصبح غدا على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، بروا وحنثت، قال: فاخبره، فقال: " بل انت ابرهم واخيرهم "، قال: ولم تبلغني كفارة.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ الْعَطَّارُ ، عَنْ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: نَزَلَ عَلَيْنَا أَضْيَافٌ لَنَا، قَالَ: وَكَانَ أَبِي يَتَحَدَّثُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ: فَانْطَلَقَ، وَقَالَ: " يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، افْرُغْ مِنْ أَضْيَافِكَ، قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَيْتُ جِئْنَا بِقِرَاهُمْ، قَالَ: فَأَبَوْا، فَقَالُوا: حَتَّى يَجِيءَ أَبُو مَنْزِلِنَا فَيَطْعَمَ مَعَنَا، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ: إِنَّهُ رَجُلٌ حَدِيدٌ، وَإِنَّكُمْ إِنْ لَمْ تَفْعَلُوا خِفْتُ أَنْ يُصِيبَنِي مِنْهُ أَذًى، قَالَ: فَأَبَوْا فَلَمَّا جَاءَ لَمْ يَبْدَأْ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنْهُمْ، فَقَالَ: أَفَرَغْتُمْ مِنْ أَضْيَافِكُمْ؟، قَالَ: قَالُوا: لَا وَاللَّهِ مَا فَرَغْنَا، قَالَ: أَلَمْ آمُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ؟ قَالَ: وَتَنَحَّيْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ: فَتَنَحَّيْتُ، قَالَ: فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ، أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي إِلَّا جِئْتَ، قَالَ: فَجِئْتُ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا لِي ذَنْبٌ هَؤُلَاءِ أَضْيَافُكَ، فَسَلْهُمْ قَدْ أَتَيْتُهُمْ بِقِرَاهُمْ، فَأَبَوْا أَنْ يَطْعَمُوا حَتَّى تَجِيءَ، قَالَ: فَقَالَ: مَا لَكُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ؟، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَوَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَقَالُوا: فَوَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّى تَطْعَمَهُ، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُ كَالشَّرِّ كَاللَّيْلَةِ قَطُّ، وَيْلَكُمْ مَا لَكُمْ أَنْ لَا تَقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ؟، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: أَمَّا الْأُولَى فَمِنَ الشَّيْطَانِ هَلُمُّوا قِرَاكُمْ، قَالَ: فَجِيءَ بِالطَّعَامِ فَسَمَّى فَأَكَلَ وَأَكَلُوا، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَرُّوا وَحَنِثْتُ، قَالَ: فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: " بَلْ أَنْتَ أَبَرُّهُمْ وَأَخْيَرُهُمْ "، قَالَ: وَلَمْ تَبْلُغْنِي كَفَّارَةٌ.
جریری نے ابو عثمان سے، انھوں نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہمارے ہاں ہمارے کچھ مہمان آئے، میرے والد رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے، وہ چلے گئے اور مجھ سے فرمایا: عبدالرحمان! تم اپنے مہمانوں کی سب خدمت بجا لانا۔جب شام ہوئی تو ہم نے (ان کے سامنے) کھانا پیش کیا، کہا: توانھوں نے انکار کردیا اور کہا: جب گھر کے مالک (بچوں کے والد) آئیں گے اور ہمارے ساتھ کھانا کھائیں گے (ہم اس وقت کھانا کھائیں گے۔) کہا: میں نے ان کو بتایا کہ وہ (میرے والد) تیز مزاج آدمی ہیں، اگرتم نے کھانا نہ کھایا تو مجھے خدشہ ہے کہ مجھے ان کی طرف سے سزا ملے گی۔کہا: لیکن وہ نہیں مانے، جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے تو ان (کے متعلق پوچھنے) سے پہلے انھوں نے کوئی (اور) بات شروع نہ کی۔انھوں نے کہا: مہمانوں (کی میزبانی) سے فارغ ہوگئے ہو؟گھر والوں نے کہا: واللہ! ابھی ہم فارغ نہیں ہوئے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا میں نے عبدالرحمان کو کہا نہیں تھا؟ (حضرت عبدالرحمان نے) کہا: میں ایک طرف ہٹ گیا انھوں نے آواز دی: عبدالرحمان! میں کھسک گیا۔پھر انہوں نے کہا: اے احمق!میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آوازسن رہا ہے تو آجا۔حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آگیا اور میں نے کہا: اللہ کی قسم! میرا کوئی قصور نہیں ہے۔یہ ہیں آپ کے مہمان ان سے پوچھ لیجئے، میں ان کاکھانا ان کے پاس لایاتھا، انہوں نے آپ کے آنے تک کھانے سے انکاور کردیا، (عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے) کہاتو انھوں (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ) نے (ان سے) کہا: کیا بات ہے؟تم نے ہمارا پیش کیا ہواکھانا کیوں قبول نہیں کیا؟ (عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم!میں آج رات یہ کھانا نہیں کھاؤں گا۔مہمانوں نے کہا اللہ کی قسم!ہم بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک آپ نہیں کھاتے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شر جیسا (شر)، اس رات جیسی (رات) میں نے کبھی نہیں دیکھی، تم لوگوں پر افسوس!تمھیں کیا ہے؟تم لوگوں نے ہماری دعوت قبول کیوں نہیں کی؟پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: (میری) پہلی بات (نہ کھانے کی قسم) شیطان کی طرف سے (ابھارنے پر) تھی۔چلو، اپنا میزبانی کا کھانا لاؤ۔حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر کھانالایا گیا، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا اور مہمانوں نے بھی کھایا صبح ہوئی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان لوگوں نے قسم پوری کرلی اور میں نے توڑدی (کہا) پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا واقعہ سنایا، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: نہیں، تم ان سے بڑھ کر قسم پوری کرنے والے ہو، ان سے بہتر ہو، " (حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھ تک کفارہ دینے کی بات نہیں پہنچی (مجھے معلوم نہیں کہ میرے والد نے کفارہ دیا یا کب دیا۔)
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں: ہمارے ہاں مہمان آئے اور میرے والد رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر گفتگو کیا کرتے تھے، اس لیے وہ چلے گئے اور مجھے کہہ گئے: اے عبدالرحمٰن! اپنے مہمانوں سے فارغ ہو جانا، یعنی ان کی ضیافت کرنا تو جب شام ہو گئی، ہم نے انہیں ان کی ضیافت پیش کی، انہوں نے (کھانے سے) انکار کر دیا، کہنے لگے: گھر کا مالک آ کر ہمارے ساتھ کھانا کھائے تو ہم تب کھائیں گے، میں نے ان سے کہا: وہ سخت گیر آدمی ہے اور اگر تم نے کھانا نہ کھایا تو مجھے خطرہ ہے کہ تو وہ مجھے سزا دیں گے، یعنی مجھے ان سے تکلیف برداشت کرنی پڑے گی، انہوں نے پھر بھی انکار کر دیا تو جب وہ آئے، ان کے بارے میں سوال کرنے سے پہلے کوئی گفتگو نہیں کی، پوچھا: کیا تم اپنے مہمانوں سے فارغ ہو گئے ہو؟ گھر والوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم فارغ نہیں ہوئے، انہوں نے کہا: کیا میں عبدالرحمٰن کو حکم دے کر نہیں گیا تھا؟ اور میں ان سے ایک طرف ہٹ گیا، انہوں نے کہا: اے عبدالرحمٰن! تو میں دور ہٹ گیا، انہوں نے کہا: اے احمق، کمینے، میں تمہیں قسم دیتا ہوں، اگر میری آواز سن رہے ہو تو آ جاؤ، تو میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا: اللہ کی قسم! میرا کوئی قصور نہیں، یہ آپ کے مہمان ہیں، ان سے پوچھ لیجئے، میں نے انہیں ان کی ضیافت پیش کی تھی، انہوں نے آپ کی آمد تک کھانے سے انکار کر دیا تو ابوبکر نے ان سے پوچھا: تم نے ہماری ضیافت قبول کرنے سے کیوں انکار کیا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آج رات میں کھانا نہیں کھاؤں گا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم بھی اسے نہیں کھائیں گے، جب تک آپ اسے نہیں کھاتے، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: آج کی رات جیسا شر کبھی نہیں دیکھا، تم پر افسوس! تمہیں کیا ہوا ہے، تم ہماری دعوت قبول نہیں کرتے ہو؟ پھر ابوبکر نے کہا: پہلی بات (قسم) تو شیطانی فعل ہے، اپنی ضیافت کی طرف بڑھو، کھانا لایا گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کر دیا اور وہ بھی کھانے لگے، جب صبح ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! مہمانوں نے قسم کو پورا کیا اور میں نے قسم توڑ ڈالی اور آپ کو پورا واقعہ سنایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ تو ان سے زیادہ وفادار اور اطاعت گزار ہے اور ان سے بہترین ہے۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، مجھے کفارہ کا علم نہیں ہو سکا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2057
   صحيح مسلم5366عبد الرحمن بن عبدبروا وحنثت قال بل أنت أبرهم وأخيرهم
   سنن أبي داود3270عبد الرحمن بن عبدبل أنت أبرهم وأصدقهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5366  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مہمانوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے احترام میں کھانا کھانے سے انکار کیا تھا کہ وہ آ جائیں تو ان کے ساتھ مل کر کھانا کھائیں گے،
لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے عذر کی بنا پر ضیافت کا کام بیٹے کے سپرد کر گئے اور اسے تاکید فرما گئے تھے کہ مہمانوں کی خدمت میں کوتاہی نہ کرنا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے انہیں اس سے آگاہ بھی کر دیا تھا،
اس لیے انہیں کھانا کھا لینا چاہیے تھا،
گھر والوں کو پریشان نہیں کرنا چاہیے تھا،
اس لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ناراضگی کا اظہار کیا،
لیکن پھر ضیافت کا حق ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی قسم توڑ دی اور شریعت کا یہی تقاضا ہے کہ اگر قسم توڑنا بہتر ہو تو اس کو توڑ کر کفارہ ادا کرنا چاہیے،
کفارہ سے ڈر کر قسم پر اصرار نہیں کرنا چاہیے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شریعت کے ضابطہ کے مطابق قسم توڑ دی اور ظاہر کفارہ بھی دیا ہو گا،
جس کا آپ کے بیٹے،
یا راوی کو علم نہیں ہو سکا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5366   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.