الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
3. بَابُ الدُّخُولِ عَلَى الْمَيِّتِ بَعْدَ الْمَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي كَفَنِهِ:
3. باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا جا چکا ہو تو اس کے پاس جانا (جائز ہے)۔
(3) Chapter. Visiting the deceased person after he has been put in his shroud.
حدیث نمبر: 1241
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا بشر بن محمد، اخبرنا عبد الله , قال: اخبرني معمر ويونس , عن الزهري , قال: اخبرني ابو سلمة، ان عائشة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرته، قالت:" اقبل ابو بكر رضي الله عنه على فرسه من مسكنه بالسنح حتى نزل فدخل المسجد فلم يكلم الناس، حتى نزل فدخل على عائشة رضي الله عنها فتيمم النبي صلى الله عليه وسلم وهو مسجى ببرد حبرة، فكشف عن وجهه ثم اكب عليه فقبله، ثم بكى , فقال: بابي انت يا نبي الله، لا يجمع الله عليك موتتين، اما الموتة التي كتبت عليك فقد متها، قال ابو سلمة: فاخبرني ابن عباس رضي الله عنهما، ان ابا بكر رضي الله عنه خرج وعمر رضي الله عنه يكلم الناس , فقال: اجلس فابى، فقال: اجلس فابى، فتشهد ابو بكر رضي الله عنه فمال إليه الناس وتركوا عمر، فقال: اما بعد، فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، قال الله تعالى: وما محمد إلا رسول إلى الشاكرين سورة آل عمران آية 144 والله لكان الناس لم يكونوا يعلمون ان الله انزل الآية حتى تلاها ابو بكر رضي الله عنه فتلقاها منه الناس، فما يسمع بشر إلا يتلوها.حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ:" أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ، حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ، فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ، ثُمَّ بَكَى , فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ، أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ , فَقَالَ: اجْلِسْ فَأَبَى، فَقَالَ: اجْلِسْ فَأَبَى، فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ إلى الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144 وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ، فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا.
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے ابوسلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ (جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی) ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اترتے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں آئے (جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ (یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر) سے ڈھانک دیا گیا تھا۔ پھر آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرے گا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سو آپ وفات پا چکے۔ ابوسلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہو گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد! اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ باقی رہنے والا ہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں «الشاكرين» تک (آپ نے آیت تلاوت کی) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔

Narrated `Aisha: Abu Bakr came riding his horse from his dwelling place in As-Sunh. He got down from it, entered the Mosque and did not speak with anybody till he came to me and went direct to the Prophet, who was covered with a marked blanket. Abu Bakr uncovered his face. He knelt down and kissed him and then started weeping and said, "My father and my mother be sacrificed for you, O Allah's Prophet! Allah will not combine two deaths on you. You have died the death which was written for you." Narrated Abu Salama from Ibn `Abbas : Abu Bakr came out and `Umar , was addressing the people, and Abu Bakr told him to sit down but `Umar refused. Abu Bakr again told him to sit down but `Umar again refused. Then Abu Bakr recited the Tashah-hud (i.e. none has the right to be worshipped but Allah and Muhammad is Allah's Apostle) and the people attended to Abu Bakr and left `Umar. Abu Bakr said, "Amma ba'du, whoever amongst you worshipped Muhammad, then Muhammad is dead, but whoever worshipped Allah, Allah is alive and will never die. Allah said: 'Muhammad is no more than an Apostle and indeed (many) Apostles have passed away before him ..(up to the) grateful.' " (3.144) (The narrator added, "By Allah, it was as if the people never knew that Allah had revealed this verse before till Abu Bakr recited it and then whoever heard it, started reciting it.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 333

   صحيح البخاري1241عائشةفكشف عن وجهه ثم اكب عليه فقبله
   بلوغ المرام432عائشةان ابا بكر الصديق رضي الله عنه قبل النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعد موته
   صحيح البخاري1242عائشة فكشف عن وجهه ثم اكب عليه فقبله
   صحيح البخاري3667عائشةفكشف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبله
   صحيح البخاري4452عائشةفكشف عن وجهه، ثم اكب عليه فقبله وبكى
   صحيح البخاري4455عائشةان ابا بكر رضي الله عنه قبل النبي صلى الله عليه وسلم بعد موته
   سنن النسائى الصغرى1840عائشةابا بكر قبل بين عيني النبي صلى الله عليه وسلم وهو ميت
   سنن النسائى الصغرى1841عائشةابا بكر قبل النبي صلى الله عليه وسلم وهو ميت
   سنن النسائى الصغرى1842عائشة فكشف عن وجهه , ثم اكب عليه فقبله فبكى
   سنن ابن ماجه1627عائشةابو بكر فكشف عن وجهه وقبل بين عينيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 432  
´وفات کے بعد میتکی پیشانی کا بوسہ لینا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی پیشانی) کا بوسہ لیا تھا۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 432]
لغوی تشریح:
«قَبَّل» ‏‏‏‏ تقبیل (باب تفعيل) سے ماخوذ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ میت کو تعظیم و تکریم کے نقطہ نظر سے بوسہ دینا جائز ہے کیونکہ کسی ایک صحابی سے بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس فعل کو ناپسندیدہ سمجھنا منقول نہیں، گویا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اجماع ہے۔ [نيل الاوطار، للشوكاني ]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 432   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1627  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور تدفین کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کے ساتھ جو کہ خارجہ کی بیٹی تھیں عوالی مدینہ میں تھے، لوگ کہنے لگے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا بلکہ وحی کے وقت جو حال آپ کا ہوا کرتا تھا ویسے ہی ہو گیا ہے، آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا، اور کہا: آپ اللہ کے نزدیک اس سے زیادہ معزز و محترم ہیں کہ آپ کو دو بار موت دے ۱؎، قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1627]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور مذید لکھا ہے کہ اس کی اصل الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری کی حدیث: 1241، 1242)
میں ہے۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح کہا ہے۔
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ مذکورہ روایت وحی کے ذکر کے بغیر صحیح ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 356، 355/41)
وصحیح سنن ابن ماجة للألبانی، رقم: 1329 وسنن ابن ماجة للدکتور بشار عواد، حدیث: 1627)
الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔

(2)
رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلسل حاضر خدمت رہے تھے۔
اور رسول اللہ ﷺ كی بیماری کے ایام میں نماز کی امامت کے فرائض انجام دیتے رہےتھے۔
حتیٰ کہ سوموار کے دن فجر کی نماز بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں ادا کی گئی۔
اس کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کام کے سے اپنے گھر تشریف لے گئے جو عوالی میں مقام سخ پر واقع تھا۔
وہیں انھیں رسول اللہﷺ کی رحلت کی خبر ملی
(3)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو موت نہیں آ سکتی۔
لیکن وہ حضرات اچانک صدمے کی وجہ سے اوسان کھوبیٹھے تھے۔
وفات نبویﷺ کا سانحہ ان کے لئے ناقابل برداشت تھا۔
اس ذہنی کیفیت میں بعض حضرات کی زبان سے اس قسم کی باتیں نکل گئیں۔

(4)
اس واقعے سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی علو شان اور عظیم مرتبے کا اظہار ہوتا ہے کہ اس عظیم سانحہ کے وقت انھوں نے امت کی قیادت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔
جس کے لئے ان حالات میں انتہائی قوت برداشت، صبر، حوصلے اورتدبیر کی ضرورت تھی۔

(5)
یہ بھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الجھنے کی بجائے ایک طرف ہوکر اپنی بات شروع کردی۔
جس سے حاضرین کی توجہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے ہٹ گئی۔
اور اس معاملے پرآسانی سے قابو پا لیا گیا۔

(6)
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی تمہید کے اصل بات شروع کردی۔
کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔
ساتھ ہی قرآن مجید کی وہ آیت تلاوت کی جو اس موقعے کے لئے مناسب ترین تھی۔
علمائے کرام کو چاہیے کہ کسی بھی وقتی معاملے میں غور وفکر کے بعد صحیح رائے قائم کرنے کی کوشش کریں۔
اگرچہ وہ رائے عوام الناس کی سوچ کے خلاف ہواور اسے دلائل سے واضح کریں۔
علماء کا فرض عوام کی رہنمائی اور قیادت کرنا ہے۔
ان کے پیچھے چلنا نہیں۔

(7)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپنی جذباتی کیفیت کی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے فوراً صحیح بات کو قبول کرلیا۔
علماء کا صرف یہی فرض نہیں کہ حکام کی ہر صحیح اورغلط بات کی مخالفت کریں بلکہ صحیح بات کی تایئد کرنا اور اس پر عمل کے سلسلے میں ممکن عملی تعاون پیش کرنا بھی ضروری ہے۔

(8)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین معصوم عن الخطا نہیں تھے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا اثر تھا۔
کہ جب انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا تو فوراً اپنے موقف سے رجوع فرما لیتے تھے۔
مسلمانوں اور خصوصاً علمائے کرام کی بھی یہی عادت ہونی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1627   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1241  
1241. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا:اللہ کے نبی!(ﷺ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1241]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد ابو بکر ؓ نے آپ ﷺ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔
یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔
مگر بروقت حضرت صدیق اکبرؓ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کا سچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔
آپ ﷺ رسولوں کی جماعت کے ایک فرد فرید ہیں۔
اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاء اعلی سے جاملے۔
صلی اللہ علی حبیبه وبارك وسلم۔
بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت ﷺ دوبارہ زندہ ہوں گے۔
اسی لیے حضرت صدیق ؓ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارك وسلم۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1241   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1241  
1241. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ اپنے مقام سخ والے گھر سے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے اور سواری سے اتر کر مسجد میں داخل ہوئے، لوگوں سے کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس گئے اور نبی کریم ﷺ کا قصد کیا۔ آپ کو دھاری دار یمنی چادر میں لپیٹا گیا تھا۔ انھوں نے چادر ہٹا کر چہرہ کھولا اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا، پھر روپڑے اورفرمایا:اللہ کے نبی!(ﷺ) میرے ماں باپ آپ پر قربان!اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ بہرحال ایک دفعہ جو موت آپ کے مقدر میں تھی وہ تو آچکی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1241]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابوبکر ؓ مقام سخ میں رہائش پذیر تھے جو رسول اللہ ﷺ کے کاشانہ مبارک سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔
انہوں نے آتے ہی رسول اللہ ﷺ سے چادر کو ہٹایا اور دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی کو بوسہ دیا۔
امام بخاری ؒ نے صرف اس بات کو ثابت کرنے کے لیے مذکورہ حدیث پیش کی ہے کہ میت کو اگر کفن میں لپیٹ دیا جائے تو بھی کسی ضرورت کے پیش نظر اسے کھولا جا سکتا ہے۔
دراصل حضرت نخعی ؒ کا موقف ہے کہ مرنے کے بعد صرف غسل دینے والا ہی اسے دیکھ سکتا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔
(2)
حضرت عمر ؓ نبی اکرم ﷺ کی وفات کی وجہ سے زیادہ نڈھال تھے۔
آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب رسول اللہ ﷺ کو دوبارہ اٹھائے گا اور آپ لوگوں کے ساتھ پاؤں قطع کریں گے، یعنی شرعی حدود کا نفاذ کریں گے۔
اس بات کا لوگوں میں بھی چرچا ہونے لگا۔
چونکہ اس کا تعلق عقیدے سے تھا، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے اس کی تردید کو ضروری خیال کیا اور فرمایا کہ دنیا میں آپ کو دو موتوں سے دوچار نہیں ہونا بلکہ صرف ایک ہی موت آنی تھی جو آ چکی ہے۔
(فتح الباري: 148/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1241   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.