الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
15. باب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ عَلَيْهَا الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ:
15. باب: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6309
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني احمد بن حنبل ، اخبرنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن الوليد بن كثير ، حدثني محمد بن عمرو بن حلحلة الدؤلي ، ان ابن شهاب حدثه، ان علي بن الحسين حدثه،" انهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل الحسين بن علي رضي الله عنه، لقيه المسور بن مخرمة ، فقال له: هل لك إلي من حاجة تامرني بها؟ قال: فقلت له: لا، قال له: هل انت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فإني اخاف ان يغلبك القوم عليه، وايم الله لئن اعطيتنيه، لا يخلص إليه ابدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن ابي طالب خطب بنت ابي جهل على فاطمة، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا، وانا يومئذ محتلم، فقال: إن فاطمة مني، وإني اتخوف ان تفتن في دينها، قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فاثنى عليه في مصاهرته إياه، فاحسن، قال: حدثني فصدقني ووعدني، فاوفى لي، وإني لست احرم حلالا، ولا احل حراما، ولكن والله لا تجتمع بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبنت عدو الله مكانا واحدا ابدا".حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيُّ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ،" أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ ، فَقَالَ لَهُ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَا، قَالَ لَهُ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ، وَايْمُ اللَّهِ لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ، لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى تَبْلُغَ نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ بِنْتَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ مِنِّي، وَإِنِّي أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا، قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، فَأَحْسَنَ، قَالَ: حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي وَوَعَدَنِي، فَأَوْفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا، وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِنْتُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا".
محمد بن عمرو بن حلحلہ دؤلی نے کہا: ابن شہاب نے انھیں حدیث بیان کی، انھیں علی بن حسین (زین العابدین رضی اللہ عنہ) نے حدیث بیان کی کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب وہ یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور کہا: آپ کو مجھ سے کوئی بھی کا م ہو تو مجھے حکم کیجیے۔ (حضرت علی بن حسین نے) کہا: میں نے ان سے کہا: نہیں (کوئی کا م نہیں) حضرت مسور رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار (حفاظت کے لیے) مجھے عطا کریں گے، کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ لو گ اس (تلوار) کے معاملے میں آپ پرغالب آنے کی کو شش کریں گے اور اللہ کی قسم!اگر آپ نے یہ تلوار مجھے دے دی تو کوئی اس تک نہیں پہنچ سکے گا یہاں تک کہ میری جا ن اپنی منزل پر پہنچ جا ئے۔ (مجھے یا د ہے کہ) جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہو تے ہو ئے ابوجہل کی بیٹی کو نکا ح کا پیغام دیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبرپر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور میں ان دنوں بلوغت کو پہنچ چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "فاطمہ مجھ سے ہے (میرے جسم کا ٹکڑا ہے) اور مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے معاملے میں آزمائش میں ڈالا جا ئے گا۔کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس میں سے اپنے داماد (حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ) کا ذکر فرمایا اور اس کی اپنے ساتھ اس قرابت داری کی تعریف فرمائی اور اچھی طرح تعریف فر ما ئی۔آپ نے فرمایا: " اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچ کہا۔ میرے ساتھ وعدہ کیا تو پورا کیااور میں کسی حلال کا م کو حرام قرار نہیں دیتا اور کسی حرام کو حلال نہیں کرتا اور لیکن اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (ایک خاوندکے نکا ح میں) اکٹھی نہیں ہو ں گی۔"
ابن شہاب رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،انھیں علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نے بتایا کہ حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد جب وہ یزید بن معاویہ کے ہاں سے مدینہ منورہ آئے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے ملے اور کہا: آپ کو مجھ سے کو ئی بھی کا م ہو تو مجھے حکم کیجیے۔(حضرت علی بن حسین نے) کہا: میں نے ان سے کہا: نہیں (کو ئی کا م نہیں) حضرت مسور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار (حفاظت کے لیے) مجھے عطا کریں گے،کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ لو گ اس (تلوار) کے معاملے میں آپ پرغالب آنے کی کو شش کریں گے اور اللہ کی قسم!اگر آپ نے یہ تلوار مجھے دے دی تو کو ئی اس تک نہیں پہنچ سکے گا یہاں تک کہ میری جا ن اپنی منزل پر پہنچ جا ئے۔(مجھے یا د ہے کہ)جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہو تے ہو ئے ابوجہل کی بیٹی کو نکا ح کا پیغام دیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبرپر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے اور میں ان دنوں بلوغت کو پہنچ چکا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"فاطمہ مجھ سے ہے(میرے جسم کا ٹکڑا ہے) اور مجھے اندیشہ ہے کہ اسے دین کے معاملے میں آزمائش میں ڈالا جا ئے گا۔کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس میں سے اپنے داماد (حضرت ابو العاص بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کا ذکر فر یا اور اس کی اپنے ساتھ اس قرابت داری کی تعریف فرمائی اور اچھی طرح تعریف فر ئی۔آپ نے فر یا:" اس نے میرے ساتھ بات کی تو سچ کہا۔ میرے ساتھ وعدہ کیا تو پورا کیااور میں کسی حلال کا م کو حرام قرار نہیں دیتا اور کسی حرام کو حلال نہیں کرتا اور لیکن اللہ کی قسم!اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک جگہ (ایک خاوندکے نکا ح میں) اکٹھی نہیں ہو ں گی۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 2449
   صحيح البخاري5230مسور بن مخرمةاستأذنوا في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   صحيح البخاري3714مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح البخاري5278مسور بن مخرمةاستأذنوا في أن ينكح علي ابنتهم فلا آذن
   صحيح البخاري3729مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني أكره أن يسوءها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد
   صحيح البخاري3110مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله أبدا
   صحيح البخاري3767مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني من أغضبها أغضبني
   صحيح مسلم6309مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فأوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   صحيح مسلم6308مسور بن مخرمةفاطمة بضعة مني يؤذيني ما آذاها
   صحيح مسلم6310مسور بن مخرمةأنكحت أبا العاص بن الربيع فحدثني فصدقني فاطمة بنت محمد مضغة مني أكره أن يفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   صحيح مسلم6307مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يحب ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   جامع الترمذي3867مسور بن مخرمةاستأذنوني في أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داود2071مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم من علي بن أبي طالب فلا آذن ثم لا آذن إلا أن يريد ابن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم ابنتي بضعة مني يريبني ما أرابها ويؤذيني ما آذاها
   سنن أبي داود2069مسور بن مخرمةفاطمة مني أتخوف أن تفتن في دينها حدثني فصدقني ووعدني فوفى لي لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله مكانا واحدا أبدا
   سنن ابن ماجه1999مسور بن مخرمةفاطمة بنت محمد بضعة مني أكره أن تفتنوها لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد أبدا
   سنن ابن ماجه1998مسور بن مخرمةاستأذنوني أن ينكحوا ابنتهم علي بن أبي طالب فلا آذن لهم ثم لا آذن لهم إلا أن يريد علي بن أبي طالب أن يطلق ابنتي وينكح ابنتهم بضعة مني يريبني ما رابها ويؤذيني ما آذاها
   المعجم الصغير للطبراني491مسور بن مخرمة أن على بن أبى طالب ، خطب بنت أبى جهل ، فقال النبى صلى الله عليه وآله وسلم : إن كنت تزوجها ، فرد علينا ابنتنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5278  
´اسلام قبول کرنے والی مشرک عورتوں سے نکاح اور ان کی عدت کا بیان`
«. . . عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ بَنِي الْمُغِيرَةِ اسْتَأْذَنُوا فِي أَنْ يَنْكِحَ عَلِيٌّ ابْنَتَهُمْ، فَلَا آذَنُ . . .»
. . . مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ بنی مغیرہ نے اس کی اجازت مانگی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ سے وہ اپنی بیٹی کا نکاح کر لیں لیکن میں انہیں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5278]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5278 کا باب: «بَابُ نِكَاحِ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكَاتِ وَعِدَّتِهِنَّ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں میاں بیوی کے مابین ناچاکی اور نااتفاقی کے امور کی وضاحت فرمائی ہے , جبکہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں بظاہر کوئی ایسے الفاظ وارد نہیں ہیں جو باب سے مناسبت رکھتے ہوں۔

علامہ کرمانی رقمطراز ہیں:
«توخز مطابقة الترجمة من كون فاطمۃ ما كانت ترضيٰ بذالك، فكان الشقاق بينهما وبين على متوقعاً فاراد رضى الله عنه دفع وقوعه.» [شرح كرماني: 159/19]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس نکاح پر راضی نہ تھیں، اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نکاح کر لیتے تو دونوں کے مابین شقاق اور اختلافات کا خدشہ پیدا ہوتا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نکاح سے روک کر دونوں کے درمیان واقع ہونے والے شقاق و اختلاف کو روک دیا ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے مناسبت کا واضح پہلو اجاگر ہوتا ہے آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر علی رضی اللہ عنہ اس عورت سے نکاح کر لیتے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کے درمیان شدید اختلافات نمودار ہو جاتے، لہٰذا اس اختلافات کی وجہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب اس حدیث کو نقل فرمایا ہے، امام کرمانی کی تطبیق پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهي مناسبة جيدة.» [فتح الباري لابن حجر: 345/90]
یہ ایک بہترین مناسبت ہے۔
ابن التین میں ترجمۃ الباب پر اعتراض فرمایا ہے کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت موجود نہیں ہے، چنانچہ اس اعتراض کو دور کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہیں کہ:
«واعترضه ابن التين بأنه ليس فيه دلالة على ترجم به، ونقل ابن بطال قبله عن المهلب قال: انما حاول البخاري يايراده ان يجعل قول النبى صلى الله عليه وسلم فلا اذن» [فتح الباري لابن حجر: 340/10]

ابن التین نے ترجمۃ الباب پر یہ کہا کہ حدیث سے اس کی کوئی دلالت موجود نہیں ہے، اس کو ابن بطال اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ ابن مہلب نے فرمایا: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ارادے سے اس حدیث کو پیش فرمایا ہے تحت الترجمۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت اسی وجہ سے نہیں دے رہے تھے کہ آپ علیہ السلام کو ان میاں بیوی میں ناچاکی اور نااتفاقی کا اندیشہ تھا، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے۔
ابن الملقن رحمہ اللہ نے بھی یہی مناسب دی ہے۔ دیکھیے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 327/24]

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کا احتمال (ترجمۃ الباب سے) اس حدیث پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، «فلا أذن لهم» پس یہ اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے اس عورت سے شادی نہیں کر سکتے تھے۔ [المتوري: ص 299]

دراصل وہ حدیث جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب فرمایا ہے اس حدیث کا ٹکڑا ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب النکاح میں درج کیا ہے، حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول کی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع ہوں۔

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد اب تطبیق میں مزید اضافہ ہوا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کا ڈر اس چیز پر منحصر نہیں تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ دوسرا نکاح کر رہے تھے کیونکہ اس دور میں آدمی کا دوسری یا تیسری شادی کرنا ایک عام رجحان تھا لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناپسندیدگی کا اظہار اس عمل پر موقوف تھا کہ وہ لڑکی ابوجہل کی بیٹی تھی، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ تعالیٰ کے دوست کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں کس طرح سے جمع ہو سکتی تھیں؟
یہی وجہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 105   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1998  
´غیرت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پہ فرماتے سنا کہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے مجھ سے اجازت مانگی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کر دیں تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، تو میں انہیں کبھی اجازت نہیں دیتا، سوائے اس کے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی کرنا چاہیں، اس لیے کہ وہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، جو بات اس کو بری لگتی ہے وہ مجھ کو بھی بری لگتی ہے، اور جس بات سے اس کو تکلیف ہوتی ہے اس سے مجھے بھی تکلیف ہوتی ہے ۱؎ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1998]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
  نبئ اکرمﷺ کو کسی بھی انداز سے پریشان کرنا جائز نہیں، اگرچہ وہ کام اصل میں جائز ہی ہولیکن رسول اللہﷺ کو کسی خاص وجہ سے ناگوار محسوس ہورہا ہو۔

(2)
  رسول اللہﷺ نے حضرت علی کو ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے سے اس لیے منع کیا کہ اس سےحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوگی، اس وجہ سے رسول اللہﷺ کا بھی دل دکھے گا۔
اور حضرت علی کو نبیﷺ کو پریشان کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضی حاصل ہوگی۔
گویا اس ممانعت میں بھی حضرت علی پر شفقت ہے۔

(3)
منع کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا غیرت محسوس کریں گی جس کی وجہ سے شاید اپنے خاوند کے بارے میں محبت کے وہ جذبات قائم نہ رکھ سکیں جو مطلوب ہیں۔
اس طرح یہ رشتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ایک امتحان بن جائے گا۔
اوریہ کیفیت نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔

(4)
  اپنی اولاد کی تکلیف محسوس کرنا محبت اور شفقت کا ثبوت ہے۔
اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جائز حدود میں کوشش کرنا جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1998   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2069  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
علی بن حسین کا بیان ہے وہ لوگ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانے میں یزید بن معاویہ کے پاس سے مدینہ آئے تو ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے تو میں نے ان سے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ سے اسے چھین لیں گے، اللہ کی قسم! اگر آپ اسے مجھے دیدیں گے تو اس تک کوئی ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک کہ وہ میرے نفس تک نہ پہنچ جائے ۱؎۔ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2069]
فوائد ومسائل:
1: حضرت فاطمہ رضی اللہ کی اپنے گھر میں اذیت رسول ﷺ کے باعث اذیت ہوتی جو حضرت علی رضی اللہ کے لئے ہلاکت کا باعث ہوتی۔
اس لیے انہیں بطورخاص اس رشتے سے منع کر دیا گیا اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول ﷺکو کسی طرح سے بھی اذیت دینا حرام ہے خواہ وہ فعل اصل میں مباح ہی ہو۔
قرآن مجید میں ہے کہ (وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ) (الأحزاب:35) تمہیں کسی طرح جائز نہیں کہ اللہ کے رسول کو اذیت دو۔

2:عترت رسول ﷺکو کسی طرح سے دکھ دینا اور ان کی ہتک کرنا، رسول ﷺکی ناراضی کا باعث ہے جو کہ اللہ تعالی کی ناراضی کو مستلزم ہے۔
مگر لازمی شرط ہے کہ آل رسول کہلانے والے اس کی شریعت کے حامل بھی ہوں۔

3: حضرت فاطمہ رضی اللہ رسول ﷺکی محبوب ترین صاحبزادی تھیں اور وہ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں۔

4: جائز ہے کہ انسان اپنی بیٹی کی وجہ سے غیرت اور غصے میں آئے لیکن اگر کوئی شخص اپنے آپ کو رسول ﷺاور حضرت فاطمہ پر قیاس کرنے لگے تو یہ ایک لغوقیاس ہے۔

5: صاحب فضل داماد کی مدح وتوصیف کی جاسکتی ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2069   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6309  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
هل انت معطي سيف رسول الله:
کیا آپ مجھے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار ذوالفقار عنایت کریں گے،
جو آپ کے پاس ہے۔
(2)
اني اخاف ان يغلبك القوم عليه:
مجھے اندیشہ ہے بنو امیہ کے لوگ اس کو آپ سے چھین لیں گے،
یہ مسور کا اپنا خیال ہے،
اگر انہوں نے چھینی ہوتی تو مسور درمیان میں حائل نہیں ہو سکتا تھا،
اگر مجھے دے دو گے تو جب تک میرے جسم میں جان ہے،
کوئی اس تک پہنچ نہیں سکے گا،
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی اور طیب خاطر کا بہت لحاظ رکھتے تھے،
جیسا کہ آپ نے حضرت علی کے ابو جہل کی بیٹی سے شادی کے پیغام پر اس کا اظہار فرمایا،
اس طرح میں آپ کی دلجوئی اور طیب خاطر چاہتا ہوں کہ آپ کو اس تلوار کے سلسلہ میں کسی پریشانی سے دوچار نہ ہونا پڑے،
اس پریشانی کو میں برداشت کروں،
اس لیے مجھے دے دیں،
میں آپ کی خاطر اس کی حفاظت کروں گا۔
(3)
ذكر صهرا له من عبد شمس:
اس سے مراد حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند حضرت ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس ہیں،
اس نے کافر ہونے کے دور میں بھی حضرت زینب کو چھوڑنا گوارا نہیں کیا اور اس سلسلہ میں ہر قسم کی لالچ کو ٹھکرا دیا اور پھر ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ آ جانے پر بھی کسی اور عورت سے شادی نہیں کی،
اسلام لانے کے بعد،
حضرت زینب ہی اسی کے ہاں گئیں۔
(4)
وعدني فاوفي لي:
جب جنگ بدر میں،
ابو العاص جو اس وقت کافر تھا،
قید میں آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شرط پر چھوڑ دیا تھا کہ میں حضرت زینب کو آپ کے پاس بھیج دوں گا،
اس سلسلہ میں اس نے آپ سے سچا وعدہ کیا اور پھر اس کو پورا کیا،
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو آپ کے پاس بھیج دیا اور یہ بھی ممکن ہے،
اس نے اور شادی نہ کرنے کا وعدہ کیا ہو۔
(5)
انی لست احرم حلالا ولا احل حراما:
حرام کو حلال ٹھہرانا اور حلال کو حرام ٹھہرانا،
میرے بس میں نہیں ہے،
حلت و حرمت اللہ کے ہاتھ میں ہے،
اس لیے میں نہیں کہتا کہ حضرت علی کے لیے اور شادی کرنا حرام ہے،
لیکن بات یہ ہے،
لا تجتمع بنت رسول اللہ بنت عدو اللہ مکانا واحداً،
اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی یکجا اکٹھی نہیں ہو سکتیں،
کیونکہ سوکنیں طبعی طور پر ایک دوسرے سے الرجک ہوتی ہیں،
اور ایک دوسری سے حسد و کینہ رکھتی ہیں،
اس لیے یہ رشتہ دونوں کے خاوندوں کو متاثر کرتا ہے،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضی اور تکلیف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اذیت و تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں اور کسی مسلمان کے لیے اس کا سبب بننا مناسب نہیں ہے،
اس لیے اس شادی کی اجازت نہیں ہو سکتی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6309   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.