الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
15. باب فَضَائِلِ فَاطِمَةَ بِنْتِ النَّبِيِّ عَلَيْهَا الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ:
15. باب: سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6313
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كامل الجحدري فضيل بن حسين ، حدثنا ابو عوانة ، عن فراس ، عن عامر ، عن مسروق ، عن عائشة ، قالت: " كن ازواج النبي صلى الله عليه وسلم عنده، لم يغادر منهن واحدة، فاقبلت فاطمة تمشي ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا، فلما رآها رحب بها، فقال: مرحبا بابنتي، ثم اجلسها عن يمينه، او عن شماله، ثم سارها، فبكت بكاء شديدا، فلما راى جزعها سارها الثانية فضحكت، فقلت لها: خصك رسول الله صلى الله عليه وسلم من بين نسائه بالسرار، ثم انت تبكين، فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم، سالتها: ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: ما كنت افشي على رسول الله صلى الله عليه وسلم سره، قالت: فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: عزمت عليك بما لي عليك من الحق لما حدثتني، ما قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقالت: اما الآن فنعم اما حين سارني في المرة الاولى فاخبرني، ان جبريل كان يعارضه القرآن في كل سنة مرة، او مرتين، وإنه عارضه الآن مرتين، وإني لا ارى الاجل إلا قد اقترب، فاتقي الله واصبري، فإنه نعم السلف انا لك، قالت: فبكيت بكائي الذي رايت، فلما راى جزعي سارني الثانية، فقال يا فاطمة: اما ترضي ان تكوني سيدة نساء المؤمنين، او سيدة نساء هذه الامة، قالت: فضحكت ضحكي الذي رايت ".حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ فِرَاسٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُنَّ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ، لَمْ يُغَادِرْ مِنْهُنَّ وَاحِدَةً، فَأَقْبَلَتْ فَاطِمَةُ تَمْشِي مَا تُخْطِئُ مِشْيَتُهَا مِنْ مِشْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَلَمَّا رَآهَا رَحَّبَ بِهَا، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنَتِي، ثُمَّ أَجْلَسَهَا عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ سَارَّهَا، فَبَكَتْ بُكَاءً شَدِيدًا، فَلَمَّا رَأَى جَزَعَهَا سَارَّهَا الثَّانِيَةَ فَضَحِكَتْ، فَقُلْتُ لَهَا: خَصَّكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ نِسَائِهِ بِالسِّرَارِ، ثُمَّ أَنْتِ تَبْكِينَ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلْتُهَا: مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: مَا كُنْتُ أُفْشِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَزَمْتُ عَلَيْكِ بِمَا لِي عَلَيْكِ مِنَ الْحَقِّ لَمَا حَدَّثْتِنِي، مَا قَالَ لَكِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: أَمَّا الْآنَ فَنَعَمْ أَمَّا حِينَ سَارَّنِي فِي الْمَرَّةِ الْأُولَى فَأَخْبَرَنِي، أَنَّ جِبْرِيلَ كَانَ يُعَارِضُهُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً، أَوْ مَرَّتَيْنِ، وَإِنَّهُ عَارَضَهُ الْآنَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنِّي لَا أُرَى الْأَجَلَ إِلَّا قَدِ اقْتَرَبَ، فَاتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي، فَإِنَّهُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ، قَالَتْ: فَبَكَيْتُ بُكَائِي الَّذِي رَأَيْتِ، فَلَمَّا رَأَى جَزَعِي سَارَّنِي الثَّانِيَةَ، فَقَالَ يَا فَاطِمَةُ: أَمَا تَرْضَيْ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، أَوْ سَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ، قَالَتْ: فَضَحِكْتُ ضَحِكِي الَّذِي رَأَيْتِ ".
ابو عوانہ نے فراس سے، انھوں نے عامر سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سب ازواج آپ کے پاس موجود تھیں، ان میں سے کوئی (وہاں سے) غیر حاضر نہیں ہوئی تھی، اتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا چلتی ہو ئی آئیں ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی۔جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فرمایا: "میری بیٹی کو خوش آمدید!" پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا یا، پھر رازی داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں۔جب آپ نے ان کی شدید نے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کا ن میں کوئی بات کہی تو ہنس پڑیں۔ (بعد میں) میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر خاص طور پر آپ سے راز داری کی بات کی، آپ روئیں (کیوں؟) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ سے) تشریف لے گئے تو میں نے ان سے پو چھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا کہا:؟ انھوں نے کہا: میں ایسی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کردوں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا: میرا آپ پر جو حق ہے میں اس کی بنا پر اصرار کرتی ہوں (اور یہ اصرار جاری رہے گا) الایہ کہ آپ مجھے بتا ئیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟انھوں نےکہا: اب (اگر آپ پوچھتی ہیں) تو ہاں، پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا: "جبریل علیہ السلام آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کادور کیا کرتے تھے اور ابھی انھوں نے ایک ساتھ دوبارہ دور کیا ہے اور مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل (مقررہ وقت) قریب آگیا ہے، اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا، میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا۔" (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا: "فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو یا (فرمایا:) اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟"کہا: تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،نبی اکرم کی تمام بیویاں آپ کے پاس تھیں،ان میں سے کوئی پیچھے نہیں رہ گئی تھی تواتنے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چلتی ہو ئی آئیں ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے ذرہ برابر مختلف نہ تھی۔جب آپ نے انھیں دیکھا تو ان کو خوش آمدید کہا اور فر یا:"میری بیٹی کو خوش آمدید!" پھر انہیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا یا،پھر رازی داری سے ان کے ساتھ بات کی تو وہ شدت سے رونے لگیں۔جب آپ نے ان کی شدید نے قراری دیکھی تو آپ نے دوبارہ ان کے کا ن میں کو ئی بات کہی تو ہنس پڑیں۔(بعد میں) میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کو چھوڑ کر خاص طور پر آپ سے راز داری کی بات کی، آپ روئیں (کیوں؟) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اس جگہ سے) تشریف لے گئے تو میں نے ان سے پو چھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا کہا:؟ انھوں نے کہا: میں ایسی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کردوں،پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تو میں نے ان سے کہا: میرا آپ پر جو حق ہے میں اس کی بنا پر اصرار کرتی ہوں (اور یہ اصرار جاری رہے گا) الایہ کہ آپ مجھے بتا ئیں کہ آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا تھا؟انھوں نےکہا:اب(اگر آپ پوچھتی ہیں)تو ہاں،پہلی بار جب آپ نے سرگوشی کی تو مجھے بتایا:"جبریل ؑ آپ کے ساتھ سال میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کادور کیا کرتے تھے اور ابھی انھوں نے ایک ساتھ دوبارہ دور کیا ہے اور مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا کہ اجل(مقررہ وقت) قریب آگیا ہے،اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے صبرکرنا،میں تمھارے لیے بہترین پیش رو ہوں گا۔"(حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) کہا:اس پر میں اس طرح روئی جیسا آپ نے دیکھا،پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شدید بے قراری دیکھی تو دوسری بار میرے کان میں بات کی اور فرمایا:"فاطمہ!کیا تم اس پرراضی نہیں ہوکہ تم ایماندار عورتوں کی سردار بنو یا(فرمایا:) اس امت کی عورتوں کی سردار بنو؟"کہا:تو اس پر میں اس طرح سے ہنس پڑی جیسے آپ نے دیکھا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2450
   صحيح البخاري4434عائشة بنت عبد اللهأنه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبكيت أني أول أهله يتبعه فضحكت
   صحيح البخاري3626عائشة بنت عبد اللهأخبرني أنه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبكيت أني أول أهل بيته أتبعه فضحكت
   صحيح البخاري3716عائشة بنت عبد اللهأنه يقبض في وجعه الذي توفي فيه فبكيت أني أول أهل بيته أتبعه فضحكت
   صحيح مسلم6312عائشة بنت عبد اللهأخبرني بموته فبكيت أني أول من يتبعه من أهله فضحكت
   صحيح مسلم6313عائشة بنت عبد اللهأما ترضي أن تكوني سيدة نساء المؤمنين قالت فضحكت ضحكي الذي رأيت
   جامع الترمذي3872عائشة بنت عبد اللهأخبرني أنه ميت من وجعه هذا فبكيت أني أسرع أهله لحوقا به فذاك حين ضحكت
   سنن ابن ماجه1621عائشة بنت عبد اللهألا ترضين أن تكوني سيدة نساء المؤمنين فضحكت لذلك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1621  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اکٹھا ہوئیں اور ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہی، اتنے میں فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں، ان کی چال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال کی طرح تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری بیٹی! خوش آمدید پھر انہیں اپنے بائیں طرف بٹھایا، اور چپکے سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر چپکے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے ان سے پوچھا کہ تم کیوں روئیں؟ تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ عل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1621]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے دوران میں پیش آیا جب تمام امہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے الرحیق المختوم میں اسے حیات مبارکہ کے آخری دن کا واقعہ قرا ردیا ہے۔
اور فرمایا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آخری دن نہیں بلکہ آخری ہفتے میں کسی دن پیش آیا تھا۔
واللہ أعلم، دیکھئے: (الرحیق المختوم اردو طبع مکتبہ سلفیہ ص: 628)
 اس حدیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شرف اور فضیلت کا اظہار ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ نے خاص راز عطا فرمایا۔

(3)
راز کے طور پر بتائی ہوئی بات ظاہر کرنا مناسب نہیں کیونکہ راز ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔
اور امانت میں خیانت کرنا حرام ہے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کا حضرت فاطمہ کو مستقبل کی خبر دینا اور واقعات کا اسی طرح پیش آنا آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کی دلیل ہے۔
رسول اللہﷺ نے جس قدر پیش گویئاں فرمائی ہیں۔
وہ سب کی سب اسی طرح بعینہ پوری ہویئں ہیں۔
جس طرح فرمائی گئی تھیں۔
جن پیش گویئوں کے ابھی پورا ہونے کاوقت نہیں آیا۔
ان کے بارے میں بھی ہمارا ایمان ہے کہ وہ ضرور پوری ہوں گی۔

(5)
حفاظ کرام کا آپس میں دور کرنا اور بالخصوص رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔

(6)
عمر کے آخری حصے میں نیکی کے کاموں کا اہتما م زیاہ ہونا چاہیے۔

(7)
دوست احباب اور اقارب کے لئے اگر کسی خوش کن خبر کا علم ہوتو انھیں خوش خبری دینی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1621   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3872  
´فاطمہ رضی الله عنہا کی فضیلت کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اٹھنے بیٹھنے کے طور و طریق اور عادت و خصلت میں فاطمہ ۱؎ رضی الله عنہ سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ کہتی ہیں: جب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے تو وہ اٹھ کر آپ کو بوسہ لیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں چنانچہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو فاطمہ آئیں اور آپ پر جھکیں اور آپ کو بوسہ لیا، پھر اپنا سر اٹھایا اور رونے لگیں پھر آپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3872]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی منقبت کئی طرح سے ثابت ہوتی ہے۔


فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ سے اخلاق وعادات میں بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔


فاطمہ آپﷺ کو اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ پیاری تھیں۔


آخرت میں آپﷺ سے شرف رفاقت سب سے پہلے فاطمہ کو حاصل ہوئی (رضی اللہ عنہا)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3872   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6313  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عروہ،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سرگوشی میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنی موت کی غم انگیز خبر دی تو وہ بے قرار ہو کر رو پڑی،
پھر آپ نے دوبارہ سرگوشی میں یہ غم انگیز خبر دی کہ جلد ہی میرے بعد تم فوت ہو جاؤ گی اور مجھے آ ملو گی تو موت کی خبر پر آپ سے ملاقات کی خبر غالب آ گئی تو وہ ہنس پڑیں،
لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسروق کی ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ نے پہلی دفعہ سرگوشی میں اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا،
تم اللہ سے ڈرنا اور صبر کرنا،
کیونکہ میں تمہارا بہترین پیش رو ہوں،
جو تمہارے استقبال کے لیے آگے جا رہا ہے تو وہ آپ کی موت کے صدمہ کی بنا پر رو پڑیں،
پھر دوبارہ سرگوشی کی تو انہیں امت کی عورتوں کی سرداری کی خوش خبری سنائی اور اس پر راضی ہونے کے لیے کہا تو ہنس پڑیں اور دوسری روایت میں یہ ہے کہ پہلی دفعہ اپنی موت کی خبر کے ساتھ حضرت فاطمہ کی موت کی خبر بھی دی،
اپنی موت کی خبر ہنسی اور گریہ دونوں کا سبب بن سکتی ہے،
موت کے اعتبار سے گریہ اور آپ کی ملاقات کا سبب ہونے کی بنا پر مسرت و شادمانی،
اس لیے جب اپنی موت کے ساتھ ہی،
ان کی موت کی خبر دے کر گریہ اور ہنسی دونوں کے حالات پیدا کر دئیے گئے،
گریہ پر ملاقات کی فرحت و مسرت غالب آ گئی تو پھر بیقراری تو دور ہو گئی،
دوبارہ سرگوشی کی کیا ضرورت رہی،
اس لیے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ دوسری سرگوشی میں حضرت فاطمہ کی موت کی خبر کے ساتھ انہیں سرداری کی خوش خبری بھی سنائی گئی تو انہیں مسرت ہوئی اور وہ ہنسنے لگیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6313   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.