الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
38. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي مُوسَى وَأَبِي عَامِرٍ الأَشْعَرِيَّيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:
38. باب: ابوموسیٰ اور ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہما کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6406
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن براد ابو عامر الاشعري ، وابو كريب محمد بن العلاء ، واللفظ لابي عامر، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابيه ، قال: " لما فرغ النبي صلى الله عليه وسلم من حنين بعث ابا عامر على جيش إلى اوطاس، فلقي دريد بن الصمة، فقتل دريد، وهزم الله اصحابه، فقال ابو موسى: وبعثني مع ابي عامر، قال: فرمي ابو عامر في ركبته رماه رجل من بني جشم بسهم، فاثبته في ركبته فانتهيت إليه، فقلت يا عم: من رماك؟ فاشار ابو عامر، إلى ابي موسى، فقال: إن ذاك قاتلي تراه ذلك الذي رماني، قال ابو موسى: فقصدت له فاعتمدته فلحقته، فلما رآني ولى عني ذاهبا فاتبعته وجعلت اقول له الا تستحيي، الست عربيا الا تثبت فكف، فالتقيت انا وهو فاختلفنا انا وهو ضربتين، فضربته بالسيف فقتلته، ثم رجعت إلى ابي عامر، فقلت: إن الله قد قتل صاحبك، قال: فانزع هذا السهم فنزعته، فنزا منه الماء، فقال يا ابن اخي: انطلق إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاقرئه مني السلام وقل له، يقول لك ابو عامر: استغفر لي، قال: واستعملني ابو عامر على الناس، ومكث يسيرا، ثم إنه مات، فلما رجعت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، دخلت عليه وهو في بيت على سرير مرمل وعليه فراش، وقد اثر رمال السرير بظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وجنبيه، فاخبرته بخبرنا وخبر ابي عامر، وقلت له: قال: قل له يستغفر لي، فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء، فتوضا منه ثم رفع يديه، ثم قال: اللهم اغفر لعبيد ابي عامر، حتى رايت بياض إبطيه، ثم قال: اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك او من الناس، فقلت: ولي يا رسول الله فاستغفر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اللهم اغفر لعبد الله بن قيس ذنبه، وادخله يوم القيامة مدخلا كريما، قال ابو بردة: إحداهما لابي عامر، والاخرى لابي موسى.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي عَامِرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حُنَيْنٍ بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ، فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ، فَقُتِلَ دُرَيْدٌ، وَهَزَمَ اللَّهُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ: فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي جُشَمٍ بِسَهْمٍ، فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ يَا عَمِّ: مَنْ رَمَاكَ؟ فَأَشَارَ أَبُو عَامِرٍ، إِلَى أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: إِنَّ ذَاكَ قَاتِلِي تَرَاهُ ذَلِكَ الَّذِي رَمَانِي، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَقَصَدْتُ لَهُ فَاعْتَمَدْتُهُ فَلَحِقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى عَنِّي ذَاهِبًا فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ أَلَا تَسْتَحْيِي، أَلَسْتَ عَرَبِيًّا أَلَا تَثْبُتُ فَكَفَّ، فَالْتَقَيْتُ أَنَا وَهُوَ فَاخْتَلَفْنَا أَنَا وَهُوَ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى أَبِي عَامِرٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ قَتَلَ صَاحِبَكَ، قَالَ: فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ فَنَزَعْتُهُ، فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ، فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ وَقُلْ لَهُ، يَقُولُ لَكَ أَبُو عَامِرٍ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَاسْتَعْمَلَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، وَمَكَثَ يَسِيرًا، ثُمَّ إِنَّهُ مَاتَ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلْتُ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي بَيْتٍ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ، وَقَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَنْبَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ، وَقُلْتُ لَهُ: قَالَ: قُلْ لَهُ يَسْتَغْفِرْ لِي، فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ، حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ أَوْ مِنَ النَّاسِ، فَقُلْتُ: وَلِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَاسْتَغْفِرْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: إِحَدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ، وَالْأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى.
برید نے ابو بردہ سے اور انھوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا۔ پس درید بن الصمہ قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست سے ہمکنار کر دیا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے مجھے قتل کیا اور اسی شخص نے مجھے تیر مارا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ اے بےحیاء! کیا تو عرب نہیں ہے؟ ٹھہرتا نہیں ہے؟ پس وہ رک گیا۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا، آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابوعامر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو قتل کروا دیا۔ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا)۔ ابوعامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہنا کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجئے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے مجھے لوگوں کا سردار کر دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے، پھر فوت ہو گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کوٹھڑی میں بان کے ایک پلنگ پر تھے جس پر فرش تھا اور بان کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیا تھا۔ میں نے کہا کہ ابوعامر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لئے دعا کیجئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا کر وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ! عبید ابوعامر کو بخش دے (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور میرے لئے بھی بخشش کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔ ابوبردہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دعا ابوعامر کے لئے کی اور ایک دعا ابوموسیٰ کے لئے کی۔ رضی اللہ عنہما۔
حضرت ابوبردہ رحمۃ ا للہ علیہ اپنے باپ(ابوموسیٰ) سےبیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کی لڑائی سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوعامر ؓ کو لشکر دے کر اوطاس پر بھیجا تو ان کا مقابلہ درید بن الصمہ سے ہوا۔ پس درید بن الصمہ قتل کر دیا گیا اور اس کے ساتھ والوں کو اللہ تعالیٰ نے شکست سے ہمکنار کر دیا۔ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ مجھے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعامر ؓ کے ساتھ بھیجا تھا۔ پھر بنی جشم کے ایک شخص کا ایک تیر سیدنا ابوعامر ؓ کو گھٹنے میں لگا اور وہ ان کے گھٹنے میں جم گیا۔ میں ان کے پاس گیا اور پوچھا کہ اے چچا! تمہیں یہ تیر کس نے مارا؟ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے مجھے قتل کیا اور اسی شخص نے مجھے تیر مارا ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ میں نے اس شخص کا پیچھا کیا اور اس سے جا ملا۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو پیٹھ موڑ کر بھاگ کھڑا ہو۔ میں اس کے پیچھے ہوا اور میں نے کہنا شروع کیا کہ اے بےحیاء! کیا تو عرب نہیں ہے؟ ٹھہرتا نہیں ہے؟ پس وہ رک گیا۔ پھر میرا اس کا مقابلہ ہوا، اس نے بھی وار کیا اور میں نے بھی وار کیا، آخر میں نے اس کو تلوار سے مار ڈالا۔ پھر لوٹ کر ابوعامر ؓ کے پاس آیا اور کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو قتل کروا دیا۔ ابوعامر ؓ نے کہا کہ اب یہ تیر نکال لے میں نے اس کو نکالا تو تیر کی جگہ سے پانی نکلا (خون نہ نکلا شاید وہ تیر زہر آلود تھا)۔ ابوعامر نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر میری طرف سے سلام کہہ اور یہ کہنا کہ ابوعامر کی بخشش کی دعا کیجئے۔ سیدنا ابوموسیٰ ؓ نے کہا کہ ابوعامر ؓ نے مجھے لوگوں کا سردار کر دیا اور وہ تھوڑی دیر زندہ رہے، پھر فوت ہو گئے۔ جب میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کوٹھڑی میں بان کے ایک پلنگ پر تھے جس پر فرش تھا اور بان کا نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ اور پہلوؤں پر بن گیا تھا۔ میں نے کہا کہ ابوعامر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی تھی کہ میرے لئے دعا کیجئے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا کر وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ اے اللہ! عبید ابوعامر کو بخش دے (عبید بن سلیم ان کا نام تھا) یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ! ابوعامر کو قیامت کے دن بہت سے لوگوں کا سردار کرنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور میرے لئے بھی بخشش کی دعا فرمائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ بھی بخش دے اور قیامت کے دن اس کو عزت کے مکان میں لے جا۔ ابوبردہ ؓ نے کہا کہ ایک دعا ابوعامر کے لئے کی اور ایک دعا ابوموسیٰ کے لئے کی۔ ؓ۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2498
   صحيح البخاري2884عبد الله بن قيساللهم اغفر لعبيد أبي عامر
   صحيح البخاري6383عبد الله بن قيساللهم اغفر لعبيد أبي عامر ورأيت بياض إبطيه فقال اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس
   صحيح البخاري4323عبد الله بن قيساللهم اغفر لعبيد أبي عامر ورأيت بياض إبطيه ثم قال اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك من الناس اللهم اغفر لعبد الله بن قيس ذنبه وأدخله يوم القيامة مدخلا كريما
   صحيح مسلم6406عبد الله بن قيسبعث أبا عامر على جيش إلى أوطاس فلقي دريد بن الصمة فقتل دريد وهزم الله أصحابه اللهم اغفر لعبيد أبي عامر حتى رأيت بياض إبطيه ثم قال اللهم اجعله يوم القيامة فوق كثير من خلقك اللهم اغفر لعبد الله بن قيس ذنبه وأدخله يوم القيامة مدخلا كريما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6406  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فاعتمدته:
میں نے اس پر اپنی نظریں گاڑ لیں۔
(2)
نزامنه الماء:
تیر نکالنے سے،
خون بہہ گیا اور پانی نکل آیا،
مرمل:
رمال کھجور کے بان سے بنی ہوئی،
قاضی عیاض وغیرہ کا خیال ہے،
چارپائی پر بستر نہیں تھا،
حدیث سے لفظ ما گر گیا ہے،
کیونکہ بستر کی صورت میں نشان نہ پڑتے۔
فوائد ومسائل:
جنگ حنین میں بنو ہوازن شکست کھا کر مختلف جوانب کی طرف بھاگ نکلے،
کچھ نے طائف کی راہ لی،
کچھ بجیلہ کی طرف چل پڑے اور کچھ نے اوطاس کا رخ کیا،
آپ نے اوطاس کی طرف جانے والوں کی طرف ایک لشکر بھیجا اور ان کا امیر ابو عامر عبید بن سلیم اشعری کو بنایا اور انہوں نے مرتے وقت اپنے بھتیجے،
ابو موسیٰ اشعری کے واسطہ سے آپ سے بخشش کی دعا کی درخواست کی اور آپ نے باوضو ہو کر،
ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی،
جس سے معلوم ہوا،
آداب دعا میں یہ بھی داخل ہے کہ انسان باوضو ہو اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔
اور یہاں دعا میت کے گھر ماتم کدہ پر نہیں کی گئی بلکہ ایک دوسرے گھر میں لواحقین کی درخواست پر کی گئی ہے اس لیے اس سے یہ استدلال کرنا کہ ماتم کدہ پر حاضر ہونے والا بیٹھنے والوں سے دعا کی درخواست کر سکتا ہے،
غلط ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6406   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.