الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
علم کا بیان
The Book of Knowledge
6. باب مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً أَوْ سَيِّئَةً وَمَنْ دَعَا إِلَى هُدًى أَوْ ضَلاَلَةٍ:
6. باب: جو شخص اچھی بات جاری کرے یا بری بات جاری کرے۔
حدیث نمبر: 6800
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا جرير بن عبد الحميد ، عن الاعمش ، عن موسى بن عبد الله بن يزيد ، عن عبد الرحمن بن هلال العبسي ، عن جرير بن عبد الله ، قال: جاء ناس من الاعراب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم الصوف، فراى سوء حالهم قد اصابتهم حاجة، فحث الناس على الصدقة، فابطئوا عنه حتى رئي ذلك في وجهه، قال: ثم إن رجلا من الانصار جاء بصرة من ورق، ثم جاء آخر، ثم تتابعوا حتى عرف السرور في وجهه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها، بعده كتب له مثل اجر من عمل بها، ولا ينقص من اجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها، بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها، ولا ينقص من اوزارهم شيء ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ الْعَبْسِيِّ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ الصُّوفُ، فَرَأَى سُوءَ حَالِهِمْ قَدْ أَصَابَتْهُمْ حَاجَةٌ، فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَأَبْطَئُوا عَنْهُ حَتَّى رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ جَاءَ بِصُرَّةٍ مِنْ وَرِقٍ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، ثُمَّ تَتَابَعُوا حَتَّى عُرِفَ السُّرُورُ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا، بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا، بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا، وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ ".
جریر بن عبدالحمید نے اعمش سے، انہوں نے موسیٰ بن عبداللہ بن یزید اور (مسلم) ابوضحیٰ سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہلال عبسی سے اور انہوں نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی حاضر ہوئے، انہوں نے اون کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آپ نے ان کی بدحالی دیکھی کہ وہ ضرورت مند اور محتاج ہو گئے تھے تو آپ نے لوگوں کو (ان کے لیے) صدقہ کرنے کی ترغیب دی لیکن لوگوں نے اس میں سستی سے کام لیا، حتی کہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور سے ظاہر ہونے لگی۔ کہا: پھر انصار میں سے ایک شخص چاندی (کے سکوں، درہموں) کی ایک تھیلی لے کر آ گیا، پھر دوسرا آیا، پھر لوگ ایک دوسرے کے پیچھے (صدقات لے کر) آنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کے چہرہ انور پر مسرت جھلکنے لگی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتدا کی اور اس کے بعد اس پر عمل ہوتا رہا، اس کے لیے (ہر) عمل کرنے والے (کے اجر) جتنا اجر لکھا جاتا رہے گا۔ اور ان کے گناہوں میں کسی چیز کی کمی نہ ہو گی۔"
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ جنگلی لوگ آئے جواونی کپڑے پہنے ہوئے تھے،چنانچہ آپ نے ان کی بد حالی اور ضرورت کو محسوس فر لیا تو آپ نے لوگوں کو صدقہ پر ابھارا سو لوگوں نے صدقہ دینے میں تاخیر کی، حتی کہ آپ کے چہرے پر کبیدگی کے آثار نمایاں ہو گئے،پھر ایک انصاری آدمی اور ہموں کی ایک تھیلی لایا پھر دوسرا آدمی صدقہ لایا، پھر لوگ مسلسل آنے لگے،حتی کہ آپ کے چہرے پر مسرت پیدا ہو گئی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جس نے اسلام کے اندر اچھا طریقے جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا اس کے لیے اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور دوسروں کے اجرو ثواب میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس نے اسلام میں غلط طریقہ جاری کیا اور اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس عمل کرنے والوں کے برابر گناہ رکھا جائے گا اور ان دوسروں کے بوجھ (گناہوں) میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔"
ترقیم فوادعبدالباقی: 1017
   سنن النسائى الصغرى2555جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها من غير أن ينقص من أجورهم شيئا ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعليه وزرها ووزر من عمل بها من غير أن ينقص من أوزارهم شيئا
   صحيح مسلم2351جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده من غير أن ينقص من أوزارهم شيء
   صحيح مسلم6800جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بها بعده كتب له مثل أجر من عمل بها ولا ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة فعمل بها بعده كتب عليه مثل وزر من عمل بها ولا ينقص من أوزارهم شيء
   جامع الترمذي2675جرير بن عبد اللهمن سن سنة خير فاتبع عليها فله أجره ومثل أجور من اتبعه غير منقوص من أجورهم شيئا ومن سن سنة شر فاتبع عليها كان عليه وزره ومثل أوزار من اتبعه غير منقوص من أوزارهم شيئا
   سنن ابن ماجه203جرير بن عبد اللهمن سن سنة حسنة فعمل بها كان له أجرها ومثل أجر من عمل بها لا ينقص من أجورهم شيئا ومن سن سنة سيئة فعمل بها كان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده لا ينقص من أوزارهم شيئا
   مشكوة المصابيح210جرير بن عبد اللهمن سن في الإسلام سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها من بعده من غير ان ينقص من اجورهم شيء
   مسندالحميدي824جرير بن عبد اللهمن سن سنة حسنة فعمل بها، كان له من الأجر مثل أجر من عمل بها لا ينقص ذلك من أجورهم شيئا، ومن سن سنة سيئة فعمل بها، كان عليه مثل وزر من عمل بها لا ينقص ذلك من أوزارهم شيئا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 210  
´کار خیر کی طرف رہنمائی کرنے والے کے لئے اجر و ثواب`
«. . . وَعَن جرير قَالَ: (كُنَّا فِي صدر النهارعند رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ قَوْمٌ عُرَاةٌ مُجْتَابِي النِّمَارِ أَوِ الْعَبَاءِ مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ - [73] - فَتَمَعَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ وَأَقَامَ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: (يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ) ‏‏‏‏إِلَى آخَرِ الْآيَةِ (إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رقيبا) ‏‏‏‏وَالْآيَةُ الَّتِي فِي الْحَشْرِ (اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) ‏‏‏‏تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّى قَالَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ قَالَ فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجَزُ عَنْهَا بل قد عجزت قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْء» . رَوَاهُ مُسلم ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک روز دن کے ابتدائی حصے میں تھے کہ کچھ برہنہ لوگ آئے جو جسم پر کمبل یا عبا ڈالے ہوئے، گلے میں تلوار لٹکائے ہوئے تھے ان میں سے اکثر بلکہ سب ہی قبیلہ مضر کے لوگ تھے (یہ لوگ بھوکے پیاسے تھے) ان کے فاقے اور محتاجگی اور خستہ حالی کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا آپ گھر میں تشریف لے گئے (کہ کچھ کھانے کی لے آیئں مگر غالباً کوئی ایسی چیز نہیں ملی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر آ کر تشریف لا کر بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم اذان دو۔۔۔ چنانچہ اذان ہوئی جب سب جمع ہو گئے تو اقامت ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی نماز کے بعد خطبہ دیا اور تقریر فرمائی جس میں ان آیتوں کی تلاوت فرمائی۔ «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ» اے لوگو! تم اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے۔ (آخر تک کہ اللہ تمہارا نگہبان ہے) اور سورہ حشر کی آیت «اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ» اللہ سے ڈرو اور انسان کو دیکھنا چاہئے کل یعنی قیامت کے لیے کیا چیز آگے بھیجی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان کو چاہئے اپنے روپے پیسے کپڑے سے اور اپنے گیہوں کے پیمانہ اور جو کا پیمانہ میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ خیرات کرے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگرچہ کجھور کے ایک ٹکڑے میں سے ہی ہو۔ (حدیث کے راوی کا بیان ہے کہ یہ سن کر) ایک انصاری روپے پیسے سے بھری ہوئی صدقہ دینے کے لیے ایک تھیلی لے آئے جس کے بھاری وزن سے قریب تھا کہ اس کا ہاتھ تھک جائے بلکہ تھک ہی گیا تھا (پھر اس انصار ی کے دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی لانے لگے لگاتار لوگوں نے لا لا کر دینا شروع کیا یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ کپڑے اور غلے کی دو ڈھیریاں جمع ہو گئی ہیں (اس داد و دہش کے منظر کو دیکھ کر) آپ بہت خوش ہوئے حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی کی وجہ سے سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں جو شخص اچھا طریقہ ایجاد کر دے تو اس کو بھی ثواب ملے گا اور اس کے بعد جو اس پر عمل کرے گا تو اس کا ثواب بھی اسی ایجاد کرنے والے کو ملے گا، لیکن عمل کر نے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی (اس کو اپنے عمل کا ثواب عمل کرنے کی وجہ سے ملے گا عمل کرنے کی وجہ سے ملے گا لیکن بتانے والے کو بتانے کی وجہ سے ثواب ملے گا۔ تو گویا بتانے والے دوہرا ثواب ملا ایک عمل کی وجہ سے دوسرا اس نیک عمل کے ایجاد اور بتانے کی وجہ سے) اور جو اسلام میں برا راستہ ایجاد کرے اور برے طریقے کو رائج کرے تو اس رائج کرنے کی وجہ سے گناہ ہو گا اور اس کے بعد جو اس کے برے راستے پر چلے گا اس کا گناہ بھی اسی برے راستے کے رواج دینے والے کو ملے گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 210]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 2351]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث میں سنت جاری کرنے سے مراد وہ طریقہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہو، لیکن یاد رہے کہ اس سے مراد بدعت کا ایجاد کرنا نہیں ہے۔
➋ جو کام سنت سے ثابت ہے اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینا بڑے ثواب کا کام ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے رحمة للعالمين بنا کر بھیجا۔
➍ اگر شدید ضرورت ہو تو لوگوں کے سامنے تعاون کی اپیل کرنا جائز ہے۔
➎ اگر اسلحہ موجود ہو تو ہر وقت مسلح رہنا مسنون ہے۔
➏ مشکل کشا صرف ایک اللہ ہے۔
➐ خطبے میں لوگوں کو سمجھانے کے لئے آیات کی تلاوت کرنا سنت ہے۔
➑ کسی پریشان حال مسلمان کو دیکھ کر مضطرب ہونا اور اس کی راحت میں خوشی محسوس کرنا عین ایمان ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 210   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث203  
´(دین میں) اچھے یا برے طریقہ کے موجد کا انجام۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا اور اس پر لوگوں نے عمل کیا تو اسے اس کے (عمل) کا اجر و ثواب ملے گا، اور اس پر جو لوگ عمل کریں ان کے اجر کے برابر بھی اسے اجر ملتا رہے گا، اس سے ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہو گی، اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پر اور لوگوں نے عمل کیا تو اس کے اوپر اس کا گناہ ہو گا، اور اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اسی پر ہو گا، اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 203]
اردو حاشہ:
(1)
سنت کے لغوی معنی طریقے کے ہیں، اچھا ہو یا برا۔
اس حدیث میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی ہی میں استعمال ہوا ہے۔
علمِ حدیث اور اصولِ حدیث میں سنت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں، خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد (قولی حدیث)
ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل (فعلی حدیث)
یا ایسی چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علم ہونے کے بعد اس سے منع نہیں فرمایا یا اس کی تردید نہیں فرمائی۔ (تقریری حدیث)
فقہاء سنت سے مراد وہ اچھا کام لیتے ہیں جو فرض و واجب نہ ہو، اسے مستحب بھی کہا جاتا ہے، نیز سنت کا لفظ بدعت کے مقابلے میں بھی بولا جاتا ہے، یعنی وہ عقیدہ و عمل جس کا وجوب، استحباب یا جواز شریعت سے ثابت ہو اور بدعت سے مراد وہ عمل ہے جسے ثواب سمجھ کر کیا جائے، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہ ہو۔

(2)
اچھا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک اچھے کام کی ضرورت تھی اور کوئی اسے نہیں کر رہا تھا۔
یا کسی سنت پر عمل متروک ہو چکا تھا، اس نے شروع کیا تو اسے دیکھ کر دوسروں نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔
یا کسی مشروع کام کو فروغ دینے کے لیے نیا طریقہ اختیار کیا محض اپنی رائے سے کسی کام کو اچھا قرار دے کر ایجاد کرنا بدعت ہے جس پر ثواب کی بجائے گناہ ہو گا۔

(3)
برا طریقہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جو برائی پہلے کسی معاشرے میں موجود نہیں تھی، ایک آدمی نے وہ کام کیا، اسے دیکھ کر دوسرے بھی وہ کام کرنے لگے۔
ارشاد نبوی ہے:
جو جان بھی ظلم سے قتل کی جاتی ہے، اس کے خون ناحق کا ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل)
کے سر ہوتا ہے کیونکہ وہی پہلا شخص ہے جس نے قتل (ناحق)
کا طریقہ جاری کیا۔ (صحيح بخاري، الاعتصام، باب اثم من دعا الي ضلالة، حديث: 7321، وصحيح مسلم، القسامة، باب اثم من سن القتل، حدیث: 1677)

(4)
اس کی وضاحت اس پس منظر سے بھی ہوتی ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا:
واقعہ یوں ہے کہ قبیلہ بنو مضر کے افراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کی ظاہری حالت قابل رحم تھی، انہیں مناسب لباس بھی دستیاب نہ تھا۔
اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو صدقہ دینے کی ترغیب دی، سب سے پہلے ایک انصاری صحابی درہم و دینار سے بھری ہوئی اتنی بھاری تھیلی لے کر حاضر ہوا کہ اس کے ہاتھ سے گری جا رہی تھی۔
اس کے بعد تو اتنی کثرت سے صدقات آئے کہ ایک طرف کھانے پینے کی چیزوں کا ڈھیر لگ گیا، دوسری طرف کپڑوں کا ڈھیر لگ گیا۔
اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا:
(صحيح مسلم، الزكاة، باب الحث علي الصدقة ولو بشق تمرة او كلمة طيبة...الخ، حديث: 1016)

(5)
دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کو احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ وہ ضعیف اور موضوع احادیث کو دیکھ کر کسی ایسے کام کی دعوت دینا شروع نہ کر دیں جو صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ورنہ نہ صرف محنت ضائع ہو جائے گی بلکہ وہ بہت بڑے گناہ کا بوجھ اٹھا لیں گے۔

(6)
جب کسی کو گناہ کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو شیطان عموماً یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ یہ گناہ کر لینے میں ہمارا کوئی نقصان نہیں، گناہ تو اس کو ہو گا جس نے ہمیں گناہ کی طرف بلایا ہے، یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
غلط کام کا ارتکاب کرنے والا اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا، البتہ اسے گناہ کی طرف بلانے والے کا گناہ زیادہ شدید ہے، اس لیے وہ بھی اس مجرم کے جرم میں برابر کا شریک سمجھا جائے گا اور سزا کا مستحق ہو گا۔

(7)
اس حدیث میں نیکی کی تبلیغ کرنے والوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔
ایک آدمی کی محنت سے جتنے آدمی کسی نیکی کو اختیار کریں گے، ان کے ثواب کے برابر اس کے نامہ اعمال میں ثواب خود بخود درج ہوتا چلا جائے گا۔

(8)
ثواب اور گناہ، دعوت دینے والے کے حساب میں جمع ہونا خود بخود ہوتا ہے، اس میں عمل کرنے والے کے قصد یا نیت کا کوئی دخل نہیں، لہذا اس حدیث سے ایصال ثواب کے مروجہ تصور پر استدلال درست نہیں، ورنہ ایصال ثواب کی طرح ایصال گناہ کا تصور بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 203   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2675  
´ہدایت اور گمراہی کی طرف بلانے والوں کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا (کوئی اچھی سنت قائم کی) اور اس اچھے طریقہ کی پیروی کی گئی تو اسے (ایک تو) اسے اپنے عمل کا اجر ملے گا اور (دوسرے) جو اس کی پیروی کریں گے ان کے اجر و ثواب میں کسی طرح کی کمی کیے گئے بغیر ان کے اجر و ثواب کے برابر بھی اسے ثواب ملے گا، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا اور اس برے طریقے کی پیروی کی گئی تو ایک تو اس پر اپنے عمل کا بوجھ (گناہ) ہو گا اور (دوسرے) جو لوگ اس کی پیروی کریں گے ان کے گناہوں کے برابر بھی اسی پر گناہ ہو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب العلم/حدیث: 2675]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہدایت یعنی ایمان،
توحید اور اتباع سنت کی طرف بلانے اور اسے پھیلانے کا اجر وثواب اتنا ہے کہ اسے اس کے اس عمل کا ثواب تو ملے گا ہی ساتھ ہی قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کے ثواب کے برابر مزید اسے ثواب سے نوازا جائے گا،
اسی طرح شروفساد اورقتل وغارت گری اور بدعات و خرافات کے ایجاد کرنے والوں کو اپنے اس کرتوت کا گناہ تو ملے گا ہی ساتھ ہی اس پر عمل کرنے والوں کے گناہ کا وبال بھی اس پر ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2675   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6800  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا،
ایک نیک عمل اور اچھے کام پر جو سب سے پہلے عمل کرتا ہے اور دوسروں کے لیے اس پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے،
یا ان کے لیے تحریک کا باعث بنتا ہے تو اس کے بعد اس کی دیکھا دیکھی،
عمل کرنے والوں کی طرح اس کو بھی ثواب ملے گا،
لیکن اس کا خیر اور صالح عمل ہونا،
قرآن و سنت سے ثابت ہونا ضروری ہے،
جیسا کہ یہاں صدقہ ایک اچھا اور نیک عمل تھا،
لوگوں نے اس پر عمل کرنے میں تاخیر کر دی،
جب ایک صحابی نے اس کا آغاز کر دیا تو دوسروں میں بھی اس کا داعیہ پیدا ہو گیا اور صدقہ لانے والوں کا تانتا بندھ گیا،
اس پر آپ نے یہ بات فرمائی،
اس لیے اس حدیث کو بنیاد بنا کر اپنی طرف سے کوئی عمل ایجاد کر لینا،
جبکہ قرآن و سنت میں اس کا وجود نہیں ہے،
وہ اس حدیث کا مصداق نہیں ہے،
بلکہ دوسری حدیث کا مصداق ہے،
جس میں آپ نے فرمایا ہے،
" من عمل عملا ليس عليه عملنا فهو رد " جس نے ایسا کام کیا،
جو ہم نے نہیں کیا،
وہ مردود ہے،
اس لیے،
اس حدیث کی آڑ میں میلاد،
عرس،
سوئم اور چہلم وغیرہ کو سند جواز دینا،
حدیث کے مفہوم سے بے خبری کی دلیل ہے۔
اس حدیث کی مزید وضاحت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی آگے آنے والی حدیث کو رہی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 6800   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.