الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
ابواب: صف بندی کے احکام ومسائل
Prayer (Tafarah Abwab As Safoof)
103. باب الرَّجُلِ يَرْكَعُ دُونَ الصَّفِّ
103. باب: آدمی صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لے تو اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: A Person Bows Outside Of The Row.
حدیث نمبر: 684
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، اخبرنا زياد الاعلم، عن الحسن، ان ابا بكرة جاء ورسول الله راكع فركع دون الصف ثم مشى إلى الصف، فلما قضى النبي صلى الله عليه وسلم صلاته، قال: ايكم الذي ركع دون الصف ثم مشى إلى الصف؟ فقال ابو بكرة: انا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" زادك الله حرصا ولا تعد"، قال ابو داود: زياد الاعلم زياد بن فلان بن قرة وهو ابن خالة يونس بن عبيد الله.
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا زِيَادٌ الْأَعْلَمُ، عَنْ الْحَسَنِ، أَنَّ أَبَا بَكْرَةَ جَاءَ وَرَسُولُ اللَّهِ رَاكِعٌ فَرَكَعَ دُونَ الصَّفِّ ثُمَّ مَشَى إِلَى الصَّفِّ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ، قَالَ: أَيُّكُمُ الَّذِي رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ ثُمَّ مَشَى إِلَى الصَّفِّ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرَةَ: أَنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: زِيَادٌ الْأَعْلَمُ زِيَادُ بْنُ فُلَانِ بْنِ قُرَّةَ وَهُوَ ابْنُ خَالَةِ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ الله.
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (مسجد میں) آئے اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، انہوں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چلے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، تو آپ نے پوچھا: تم میں سے کس نے صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کیا تھا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چل کر آیا؟، ابوبکرہ نے کہا: میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری نیکی کی حرص کو بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «زياد الأعلم» سے مراد زیاد بن فلاں بن قرہ ہیں، جو یونس بن عبید کے خالہ زاد بھائی ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11659) (صحیح)» ‏‏‏‏

Al-Hasan reported: Abu Bakrah came when the Messenger of Allah ﷺ was bowing. So he bowed without the row (before joining it). He then went to the row. When the prophet ﷺ finished his prayer, he said: which of your bowed without the row, and then went to the row? Abu Bakrah said; it was i. the prophet ﷺ said: May Allah increase your eagerness! but do not do it again.
USC-MSA web (English) Reference: Book 2 , Number 684


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
انظر الحديث السابق (683)
   صحيح البخاري783نفيع بن الحارثزادك الله حرصا ولا تعد
   سنن أبي داود684نفيع بن الحارثزادك الله حرصا ولا تعد
   سنن أبي داود683نفيع بن الحارثزادك الله حرصا ولا تعد
   سنن النسائى الصغرى872نفيع بن الحارثزادك الله حرصا ولا تعد
   سلسله احاديث صحيحه533نفيع بن الحارثزادك الله حرصا، ولا تعد
   بلوغ المرام333نفيع بن الحارث زادك الله حرصا ولا تعد
   المعجم الصغير للطبراني319نفيع بن الحارث دخل المسجد ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قائم فى الصلاة ، فركع دون الصف ، ثم مشى إلى الصف ، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم ، قال : زادك الله حرصا ، ولا تعد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 533  
´امام کو رکوع کی حالت میں پانے والا نمازی جماعت کے ساتھ کیسے ملے؟`
«. . . - زادك الله حرصا، ولا تعد . . .»
. . . جب سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں تھے، انہوں نے صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کر لیا اور چل کر صف میں داخل ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کی تو فرمایا: تم میں سے کس نے صف سے پہلے رکوع کیا اور پھر چل کر صف میں داخل ہو گیا؟ ابوبکرہ نے کہا: میں نے ایسے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تیری رغبت میں اضافہ کرے، دوبارہ ایسے نہ کرنا۔ . . . [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 533]

فوائد و مسائل
سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث [سلسله احاديث صحيحه حديث نمبر 532] میں صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے، جبکہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایسا کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ یہ دو احادیث مبارکہ ظاہری طور پر متعارض ہیں۔ چونکہ دونوں احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں، اس لیے کسی ایک کے حق میں ذاتی رائے دئیے بغیر دونوں پر عمل کرنے کے لیے جمع و تطبیق کی کوئی صورت پیش کرنی چاہئیے، وگرنہ نسخ یا ترجیح کی صورت پرغور کیا جائے۔

امام البانی رحمہ اللہ نے طویل بحث کرتے ہوئے ان دو احادیث مبارکہ میں یہ تطبیق دی ہے: دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ مختلف احادیث کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نماز کی طرف جلدی چل کر آنے سے منع کیا گیا، نہ کہ صف سے پہلے رکوع کر کے صف کے ساتھ ملنے سے کیونکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ کے جوتوں کی آواز سنی، وہ رکوع پانے کے لیے دوڑ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: کہ دوڑنے والا کون تھا؟ ... لہٰذا سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان کردہ صورت واقعی سنت ہے اور ابوبکرہ کہ حدیث میں اس سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ نماز کی طرف دوڑ کر آنے سے منع کیا گیا ہے۔ [مزید دیکھئے: صحیحہ: 230،229]
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث\صفحہ نمبر: 533   
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 783  
´جب صف تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی نے رکوع کر لیا`
«. . . أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ، فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ . . .»
. . . ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف (نماز پڑھنے کے لیے) گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 783]

اشکال:
مجوزین صحیح بخاری کی یہ حدیث اپنے دلائل میں پیش کرتے ہیں۔
فقہ الحدیث
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 3:
سیدنا ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«إنه انتهى إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: زادك الله حرضا ولا تعد.»
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ رکوع کی حالت میں تھے۔ انہوں نے صف کے ساتھ ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا (پھر چلتے چلتے صف میں مل گئے)، پھر اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری حرص کو مزید بڑھائے لیکن آئندہ ایسا مت کرنا۔ [صحيح البخاري: 783]
تجزیہ:
اس روایت سے بھی ویسا ہی باطل استدلال کیا گیا ہے جیسا کہ سابقہ روایت سے کیا گیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ روایت کے ذریعے امام کی بائیں جانب سے دائیں جانب آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا ثابت کرنے کی سعی کی گئی تھی اور اس روایت کے ذریعے رکوع کی حالت میں چل کر آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ بالکل واضح بات ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کی حالت میں دیکھ کر فوراً تعمیل کے جذبے کے تحت پچھلی صف سے ہی رکوع کی ہیئت میں منتقل ہو گئے اور پھر چل کر اگلی میں شامل ہو گئے، یعنی ان کا یہ چلنا صف میں شامل ہونے کے لیے تھا، نہ کہ اکیلے نماز پڑھنے کے لیے۔

اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی تو پھر بھی اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آئندہ کے لیے اس کام سے منع بھی فرما دیا تھا، یعنی اب بقول رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں:
«وهذا الخبر حجة عليهم لنا . . . . . فقد ثبت أن الركوع دون الصف، ثم دخول الصفت كذلك لا يحل .»
یہ حدیث تو ان لوگوں کے خلاف ہماری ہی دلیل بنتی ہے۔۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صف کے پیچھے رکوع کر کے صف میں شامل ہونا بھی جائز نہیں (چہ جائیکہ ایک دو رکعات یا پوری نماز ادا کرنا)۔ [المحلى لابن حزم: 58,57/4]

اب رہا یہ اعتراض کہ اگر یہ کام جائز نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو وہ رکعت دوبارہ پڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا جس میں انہوں نے رکوع صف کے پیچھے ہی کر لیا تھا؟ تو معترض پہلے یہ ثابت کرے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت اٹھ کر نہیں پڑھی تھی۔

عدم ذکر، عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتا۔ ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل میں صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز دوہرانے کا صریح حکم ثابت ہے۔ صریح کو چھوڑ کر مبہم کو دلیل بنانا انصاف نہیں۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
صف کے پیچھے اکیلے کی نماز مفصل مضمون پڑھنے کے لیے سنن ترمذی حدیث نمبر 230 کے فوائد و مسائل دیکھئیے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 40، حدیث\صفحہ نمبر: 48   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 683  
´آدمی صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ مسجد میں آئے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) فرمایا: اللہ تمہارے شوق کو بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 683]
683۔ اردو حاشیہ:
آیندہ ایسے نہ کرنا۔ کا مطلب ہے کہ یہ دیکھ کر کہ جماعت ہو رہی ہے اور امام رکوع میں چلا گیا ہے، تو تم تیزی سے دوڑتے ہوئے آؤ، اور پھر دروازے ہی سے رکوع کر لو اور حالت رکوع ہی میں چلتے ہوئے صف میں شامل ہو۔ آئندہ اس طرح نہ کرنا، بلکہ اطمینان اور وقار سے آ کر صف میں شامل ہو۔ باقی رہا مسئلہ کہ اس رکعت کو شمار کیا گیا یا نہیں کیا گیا؟ اس حدیث میں اس امر کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ لیکن ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «اذا اتيت الصلاة فاتها بوقار وسكنينة فصل ما ادركت واقض ما فاتك» [الصحيحه، حديث: 1198، بحواله الاوسط، للطبراني]
جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور آرام سے آؤ، پس جو (جماعت کے ساتھ) پالو، پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے، اسے پور ا کر لو۔ ظاہر بات ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قیام اور سورۃ فاتحہ رہ گئی، تو انہوں نے یہ رکعت دہرائی ہو گی، جس کا ذکر گو حدیث میں نہیں ہے، لیکن فرمان نبوی کی رُو سے انہوں نے یقیناًً ایسا کیا ہو گا، اگر اسی طرح رکعت کا اثبات یا جواز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ نہ کہتے کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔ بعض لوگ «لا تَعُدْ» ( «عاد»، «يعود»، «عَوُد» سے) کو «لا تُعِدْ» پڑھتے ہیں اور اسے «اَعَادَ»، «يُعيد» سے بتلاتے ہیں اور معنی کرتے ہیں۔ اس رکعت کو نہ لوٹانا۔ اور یوں مدرک رکوع کے لیے رکعت کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن اس کا اِعَادَہ سے ہونا سیاق کلام سے میل نہیں کھاتا۔ اس طرح بعض لوگ اسے «عَدّ»، «يَعُدُّ» شمار کرنا سے قرار دے کر «لا تَعُدّ» پڑھتے ہیں، یعنی اس رکعت کو شمار نہ کرنا۔ اس طرح گویا لفظ میں متعدد احتمالات پائے جاتے ہیں۔ لیکن سیاق کے اعتبار سے اس کے پہلے معنی ہی اس رکعت کو شمار نہ کرنا۔ اس طرح گویا لفظ میں متعدد احتمالات پائے جاتے ہیں، لیکن سیاق کے اعتبار سے اس کے پہلے معنی ہی صحیح ہیں اور اس سے مدرک رکوع کے لیے رکعت کا اثبات نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں دیگر دلائل بھی اسی موقف کے موئد ہیں، اس لیے یہی راجح اور قوی ہے۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 683   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 684  
´آدمی صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (مسجد میں) آئے اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، انہوں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چلے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، تو آپ نے پوچھا: تم میں سے کس نے صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کیا تھا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چل کر آیا؟، ابوبکرہ نے کہا: میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری نیکی کی حرص کو بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: «زياد الأعلم» سے مراد زیاد بن فلاں بن قرہ ہیں، جو یونس بن عبید کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 684]
684۔ اردو حاشیہ:
➊ نیکی کرنے میں اگر کسی سے کوئی خطا ہو جائے تو پہلے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے پھر صحیح طریقہ بتانا یا سکھانا چاہیے۔
➋ نمازی کو پہلے اطمینان سے صف میں پہنچنا چاہیے، اس کے بعد سکون سے تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 684   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 872  
´صف میں ملے بغیر رکوع کرنے کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، تو انہوں نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ آپ کی حرص میں اضافہ فرمائے، پھر ایسا نہ کرنا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 872]
872 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے اس طرح کرنے میں نماز کے اندر چلنا پڑتا ہے جو نماز کے منافی ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں۔
➋ اس روایت سے رکوع کی رکعت پر استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو خدشہ تھا کہ اگر رکوع ختم ہو گیا تو میں رکعت نہ پاس کوں گا، تبھی انہوں نے یہ انداز اختیارکیا۔ مگر یہ استدلال اتنا قوی نہیں ہے، نیز کوئی صراحت نہیں کہ انہوں نے اٹھ کر وہ رکعت پڑھی تھی یا نہیں۔ اس مسئلے میں یہ روایت مبہم ہے۔ استدلال واضح ہونا چاہیے۔ فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ «صلِّ ما أدركتَ واقضِ ما سبَقَك» جو مل جائے پڑھو اور جو نکل جائے اسے پورا کرو۔ [فتح الباري: 2؍348، شرح حدیث: 783]
حدیث کا مذکورہ قطعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی آتا ہے۔ دیکھیے: [صحيح مسلم، المساجد، حديث: 602]
اور ظاہر ہے کہ انہیں صرف رکوع ہی ملا تھا، قیام تو ان سے رہ گیا تھا۔ اس پس منظر میں اس حکم کا صاف مقصد یہ ہے کہ صرف رکوع ملے تو وہ رکعت شمار نہ ہو گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 872   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.