الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
25. باب مَا جَاءَ فِي خَبَرِ مَكَّةَ
25. باب: فتح مکہ کا بیان۔
Chapter: The Conquest Of Makkah.
حدیث نمبر: 3022
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن عمرو الرازي، حدثنا سلمة يعني ابن الفضل، عن محمد بن إسحاق، عن العباس بن عبد الله بن معبد، عن بعض اهله، عن ابن عباس، قال: لما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم مر الظهران، قال العباس: قلت: والله لئن دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة عنوة قبل ان ياتوه فيستامنوه إنه لهلاك قريش، فجلست على بغلة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: لعلي اجد ذا حاجة ياتي اهل مكة فيخبرهم بمكان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخرجوا إليه فيستامنوه فإني لاسير إذ سمعت كلام ابي سفيان وبديل بن ورقاء، فقلت: يا ابا حنظلة، فعرف صوتي، فقال ابو الفضل: قلت: نعم قال: ما لك فداك ابي وامي، قلت: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، قال: فما الحيلة؟، قال: فركب خلفي ورجع صاحبه فلما اصبح غدوت به على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاسلم، قلت: يا رسول الله إن ابا سفيان رجل يحب هذا الفخر فاجعل له شيئا، قال:" نعم من دخل دار ابي سفيان فهو آمن ومن اغلق عليه داره فهو آمن ومن دخل المسجد فهو آمن"، قال: فتفرق الناس إلى دورهم وإلى المسجد.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ يَعْنِي ابْنَ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ، عَنْ بَعْضِ أَهْلِهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّهْرَانِ، قَالَ الْعَبَّاسُ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَئِنْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَنْوَةً قَبْلَ أَنْ يَأْتُوهُ فَيَسْتَأْمِنُوهُ إِنَّهُ لَهَلَاكُ قُرَيْشٍ، فَجَلَسْتُ عَلَى بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: لَعَلِّي أَجِدُ ذَا حَاجَةٍ يَأْتِي أَهْلَ مَكَّةَ فَيُخْبِرُهُمْ بِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَخْرُجُوا إِلَيْهِ فَيَسْتَأْمِنُوهُ فَإِنِّي لَأَسِيرُ إِذْ سَمِعْتُ كَلَامَ أَبِي سُفْيَانَ وَبُدَيْلِ بْنِ وَرْقَاءَ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا حَنْظَلَةَ، فَعَرَفَ صَوْتِي، فَقَالَ أَبُو الْفَضْلِ: قُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: مَا لَكَ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قُلْتُ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ، قَالَ: فَمَا الْحِيلَةُ؟، قَالَ: فَرَكِبَ خَلْفِي وَرَجَعَ صَاحِبُهُ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَوْتُ بِهِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ يُحِبُّ هَذَا الْفَخْرَ فَاجْعَلْ لَهُ شَيْئًا، قَالَ:" نَعَمْ مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ دَارَهُ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ"، قَالَ: فَتَفَرَّقَ النَّاسُ إِلَى دُورِهِمْ وَإِلَى الْمَسْجِدِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرالظہران میں (فتح مکہ کے لیے آنے والے مبارک لشکر کے ساتھ) پڑاؤ کیا، عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حاضر ہو کر امان حاصل نہ کر لی تو قریش تباہ ہو جائیں گے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر نکلا، میں نے (اپنے جی) میں کہا: شاید کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت سے مکہ جاتا ہوا مل جائے (تو میں اسے بتا دوں) اور وہ جا کر اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر کر دے (کہ آپ مع لشکر جرار تمہارے سر پر آ پہنچے ہیں) تاکہ وہ آپ کے حضور میں پہنچ کر آپ سے امان حاصل کر لیں۔ میں اسی خیال میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک ابوسفیان اور بدیل بن ورقاء کی آواز سنی، میں نے پکار کر کہا: اے ابوحنظلہ (ابوسفیان کی کنیت ہے) اس نے میری آواز پہچان لی، اس نے کہا: ابوفضل؟ (عباس کی کنیت ہے) میں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: کیا بات ہے، تم پر میرے ماں باپ فدا ہوں، میں نے کہا: دیکھ! یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ساتھ کے لوگ ہیں (سوچ لے) ابوسفیان نے کہا: پھر کیا تدبیر کروں؟ وہ کہتے ہیں: ابوسفیان میرے پیچھے (خچر پر) سوار ہوا، اور اس کا ساتھی (بدیل بن ورقاء) لوٹ گیا۔ پھر جب صبح ہوئی تو میں ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا (وہ مسلمان ہو گیا) میں نے کہا: اللہ کے رسول! ابوسفیان فخر کو پسند کرتا ہے، تو آپ اس کے لیے (اس طرح کی) کوئی چیز کر دیجئیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہاں (ایسی کیا بات ہے، لو کر دیا میں نے)، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لیے امن ہے (وہ قتل نہیں کیا جائے گا) اور جو اپنے گھر میں دروازہ بند کر کے بیٹھ رہے اس کے لیے امن ہے، اور جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے اس کو امن ہے، یہ سن کر لوگ اپنے اپنے گھروں میں اور مسجد میں بٹ گئے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5132) (حسن)» ‏‏‏‏ (پچھلی روایت سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ خود اس کی سند میں ایک مبہم (بعض أہلہ) راوی ہے)

Narrated Abdullah Ibn Abbas: When the Prophet ﷺ alighted at Marr az-Zahran, al-Abbas said: I thought, I swear by Allah, if the Messenger of Allah ﷺ enters Makkah with the army by force before the Quraysh come to him and seek protection from him, it will be their total ruin. So I rode on the mule of the Messenger of Allah ﷺ and thought, Perhaps I may find a man coming for his needs who will to the people of Makkah and inform them of the position of the Messenger of Allah ﷺ, so that they may come to him and seek protection from him. While I was on my way, I heard Abu Sufyan and Budayl ibn Warqa' speaking. I said: O AbuHanzalah! He recognized my voice and said: AbulFadl? I replied: Yes. He said: who is with you, may my parents be a sacrifice for you? I said: Here are the Messenger of Allah ﷺ and his people (with him). He asked: Which is the way out? He said: He rode behind me, and his companion returned. When the morning came, I brought him to the Messenger of Allah ﷺ and he embraced Islam. I said: Messenger of Allah, Abu Sufyan is a man who likes this pride, do something for him. He said: Yes, he who enters the house of Abu Sufyan is safe; he who closes the door upon him is safe; and he who enters the mosque is safe. The people scattered to their houses and in the mosque.
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 3016


قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
بعض أھله مجھول
والحديث السابق (الأصل: 3021) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 110
   سنن أبي داود3022عبد الله بن عباسمن دخل دار أبي سفيان فهو آمن ومن أغلق عليه داره فهو آمن ومن دخل المسجد فهو آمن قال فتفرق الناس إلى دورهم وإلى المسجد
   سنن أبي داود3021عبد الله بن عباسمن دخل دار أبي سفيان فهو آمن ومن أغلق عليه بابه فهو آمن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3022  
´فتح مکہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرالظہران میں (فتح مکہ کے لیے آنے والے مبارک لشکر کے ساتھ) پڑاؤ کیا، عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بزور مکہ میں داخل ہوئے اور قریش نے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے حاضر ہو کر امان حاصل نہ کر لی تو قریش تباہ ہو جائیں گے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر نکلا، میں نے (اپنے جی) میں کہا: شاید کوئی ضرورت مند اپنی ضرورت سے مکہ جاتا ہوا مل جائے (تو میں اسے بتا دوں) اور وہ جا کر اہل مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3022]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وسعت ظرف بلند نگاہی اور اشاعت اسلام کے عظیم مقصد کے پیش نظر ابو سفیان کی گزشتہ تمام زیادتیاں فراموش کردیں۔
بلکہ ان کا اسلام قبول فرمایا بلکہ اعزاز بھی دیا۔
قائد وہی کامیاب ہے جو اپنے لوگوں سے ان کے مزاج کے مطابق مشن کی تکمیل کےلئے کام لے۔


اسلامی تعلیمات میں عمومی طور پر تواضع انکساری۔
اور گمنامی کی مدح اور ترغیب ہے۔
مگر کچھ طبیعتیں ا س کے بالمقابل دوسری صفات کی حامل ہوتی ہیں جو اگر اسلام اور مسلمانوں کےلئے استعمال ہوں تو بہت خوب ہے۔
چنانچہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ صفات اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت مفید ثابت ہویئں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3022   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3021  
´فتح مکہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال ۱؎ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ ابوسفیان بن حرب کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ مرالظہران ۲؎ میں مسلمان ہو گئے، اس وقت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسفیان ایک ایسے شخص ہیں جو فخر اور نمود و نمائش کو پسند کرتے ہیں، تو آپ اگر ان کے لیے کوئی چیز کر دیتے (جس سے ان کے اس جذبہ کو تسکین ہوتی تو اچھا ہوتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (یعنی ٹھیک ہے میں ایسا کر دیتا ہوں) جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے تو وہ مامون ہے، اور جو شخص اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3021]
فوائد ومسائل:
ذوالقعدہ 6 ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان یہ معاہدہ ہوا تھا۔
کہ دس سال تک فریقین جنگ بند رکھیں گے۔
اس عرصے میں لوگ ہرطرح سے امن میں رہیں گے۔
اور کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھائے گا۔
مگر بنوبکر (حلیف قریش) نے بنو خزاعہ (حلیف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر حملہ کیا۔
جس میں قریشیوں نے در پردہ اپنے حلیفوں کی بھر پور مدد کی اور مسلمانوں کے حلیف قبیلہ کو قتل کیا گیا۔
اور کئی آدمی تو حرم کے اندرقتل کئے گئے۔
اس طرح یہ معاہدہ ٹوٹ گیا۔
تب مسلمانوں نے بہت اچھی حکمت عملی اپنا کر مکہ فتح کرلیا۔
اور پھر پورے جزیرۃ العرب پر اسلام کا پھریرا لہرانے لگا۔
یہ واقعہ 8 ہجری کا ہے۔
(جس کی تفصیل الرحیق المختوم علامہ صفی الرحمٰن مبارک پوری اور سیرت کی دیگر کتب میں دقت نظر سے مطالعہ کا لائق ہے۔
)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3021   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.