الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
26. باب فِي بَيْعِ الْمُضْطَرِّ
26. باب: لاچار و مجبور ہو کر بیع کرنا کیسا ہے؟
Chapter: Regarding Forced Sales.
حدیث نمبر: 3382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا هشيم، اخبرنا صالح ابو عامر، قال ابو داود: كذا، قال محمد، حدثنا شيخ من بني تميم، قال: خطبنا علي بن ابي طالب، او قال: قال علي: قال ابن عيسى: هكذا حدثنا هشيم، قال:" سياتي على الناس زمان عضوض يعض الموسر على ما في يديه، ولم يؤمر بذلك، قال الله تعالى ولا تنسوا الفضل بينكم سورة البقرة آية 237 ويبايع المضطرون، وقد نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع المضطر، وبيع الغرر، وبيع الثمرة، قبل ان تدرك".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا صَالِحُ أَبُو عَامِرٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَذَا، قَالَ مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا شَيْخٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أَوْ قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ ابْنُ عِيسَى: هَكَذَا حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ:" سَيَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ عَضُوضٌ يَعَضُّ الْمُوسِرُ عَلَى مَا فِي يَدَيْهِ، وَلَمْ يُؤْمَرْ بِذَلِكَ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ سورة البقرة آية 237 وَيُبَايِعُ الْمُضْطَرُّونَ، وَقَدْ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُضْطَرِّ، وَبَيْعِ الْغَرَرِ، وَبَيْعِ الثَّمَرَةِ، قَبْلَ أَنْ تُدْرِكَ".
بنو تمیم کے ایک شیخ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا، یا فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جو کاٹ کھانے والا ہو گا، مالدار اپنے مال کو دانتوں سے پکڑے رہے گا (کسی کو نہ دے گا) حالانکہ اسے ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «ولا تنسوا الفضل بينكم» اللہ کے فضل بخشش و انعام کو نہ بھولو یعنی مال کو خرچ کرو (سورۃ البقرہ: ۲۳۸) مجبور و پریشاں حال اپنا مال بیچیں گے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاچار و مجبور کا مال خریدنے سے اور دھوکے کی بیع سے روکا ہے، اور پھل کے پکنے سے پہلے اسے بیچنے سے روکا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 10335)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/116) (ضعیف) (اس کے راوی '' شیخ من بنی تمیم '' مبہم ہیں)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی ضرورت مند کے مال کو سستا خریدنے سے یا زبردستی کسی کا مال خریدنے سے اور دھوکہ کی بیع سے اور پختگی سے پہلے پھل بیچنے سے منع کیا ہے۔

Narrated Ali ibn Abu Talib: A time is certainly coming to mankind when people will bite each other and a rich man will hold fast, what he has in his possession (i. e. his property), though he was not commanded for that. Allah, Most High, said: "And do not forget liberality between yourselves. " The men who are forced will contract sale while the Prophet ﷺ forbade forced contract, one which involves some uncertainty, and the sale of fruit before it is ripe.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3376


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
”شيخ من بني تميم“ مجهول كما قال المنذري (انظر عون المعبود264/3) والحديث ضعفه البغوي (شرح السنة: 2104)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 121
   سنن أبي داود3382علي بن أبي طالببيع المضطر وبيع الغرر وبيع الثمرة قبل أن تدرك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3382  
´لاچار و مجبور ہو کر بیع کرنا کیسا ہے؟`
بنو تمیم کے ایک شیخ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے ہمیں خطبہ دیا، یا فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا، جو کاٹ کھانے والا ہو گا، مالدار اپنے مال کو دانتوں سے پکڑے رہے گا (کسی کو نہ دے گا) حالانکہ اسے ایسا حکم نہیں دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «ولا تنسوا الفضل بينكم» اللہ کے فضل بخشش و انعام کو نہ بھولو یعنی مال کو خرچ کرو (سورۃ البقرہ: ۲۳۸) مجبور و پریشاں حال اپنا مال بیچیں گے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاچار و مجبور کا مال خریدنے سے اور دھوکے کی بیع سے روکا ہے، اور پھل کے پکنے س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3382]
فوائد ومسائل:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
تاہم مجبوری کی بیع دو طرح سے ہے۔
کوئی ظالم کسی کو جبر واکراہ سے اپنی چیز فروخت کرنے پرمجبور کردے تو یہ بیع فاسد ہے۔
انسان مقروض ہو اورقرضے کی ادایئگی کےلئے مجبور اپنی لازمی ضرورت کی چیزیں اونے پونے داموں فروخت کرنے لگے۔
یہ بیع ہوتوجاتی ہے۔
مگر یہ بات آداب اسلامی کے خلاف ہے کہ اونے پونے ایسی چیزیں خریدی جایئں۔
مقروض کو مہلت دی جانی چاہیے۔
اور اس کے ساتھ حتیٰ الامکان تعاون کیا جانا چاہے۔
جیسےکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 237 میں آیا ہے۔
البتہ مقروض زائد ضرورت چیزوں کوفروخت کردے تو کوئی حرج نیں اسی طرح حربی لوگوں کو بھی علی الاطلاق اپنی اشیاء بیچنے پرمجبور کرنا جائز نہیں تاہم اگر انہیں سزا دینا مقصود ہو تو سزا کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے۔
کہ انہیں اپنی چیزیں بیچ کر نکل جانے کا حکم دے دیا جائے جس طرح بنو نضیر کے معاملے میں کیا گیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3382   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.