الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
31. باب فِي الْمُزَارَعَةِ
31. باب: مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کا بیان۔
Chapter: Muzara’ah (Sharecropping).
حدیث نمبر: 3390
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا ابن علية. ح وحدثنا مسدد، حدثنا بشر المعنى، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن ابي عبيدة بن محمد بن عمار، عن الوليد بن ابي الوليد، عن عروة بن الزبير، قال: قال زيد بن ثابت: يغفر الله لرافع بن خديج، انا والله اعلم بالحديث منه، إنما اتاه رجلان، قال مسدد: من الانصار، ثم اتفقنا، قد اقتتلا، ثم اتفقا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن كان هذا شانكم، فلا تكروا المزارع". زاد مسدد، فسمع قوله:" لا تكروا المزارع".
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ الْمَعْنَى، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَا وَاللَّهِ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ مِنْهُ، إِنَّمَا أَتَاهُ رَجُلَانِ، قَالَ مُسَدَّدٌ: مِنِ الْأَنْصَارِ، ثُمَّ اتَّفَقَنا، قَدِ اقْتَتَلَا، ثُمَّ اتَّفَقَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنَكُمْ، فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ". زَادَ مُسَدَّدٌ، فَسَمِعَ قَوْلَهُ:" لَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ".
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے قسم اللہ کی میں اس حدیث کو ان سے زیادہ جانتا ہوں (واقعہ یہ ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کے دو آدمی آئے، پھر وہ دونوں جھگڑ بیٹھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو۔ مسدد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے آپ کی اتنی ہی بات سنی کہ زمین بٹائی پر نہ دیا کرو (موقع و محل اور انداز گفتگو پر دھیان نہیں دیا)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/ المزارعة 3 (3959)، سنن ابن ماجہ/الرھون 10 (2461)، (تحفة الأشراف: 3730)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182، 187) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابوعبیدہ اور ولید بن ابی الولید لین الحدیث ہیں) وضاحت: ابن ماجہ کی حدیث پر صحیح کا حکم ہے تفصیل مذکورہ حدیث نمبر پر ملاحظہ فرمائیں

Narrated Urwah bin al-Zubair: That Zayd ibn Thabit said: May Allah forgive Rafi ibn Khadij. I swear by Allah, I have more knowledge of Hadith than him. Two persons of the Ansar (according to the version of Musaddad) came to him who were disputing with each other. The Messenger of Allah ﷺ said: If this is your position, then do not lease the agricultural land. The version of Musaddad has: So he (Rafi ibn Khadij) heard his statement: Do not lease agricultural lands.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3384


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
أخرجه النسائي (3959 وسنده حسن) وابن ماجه (2461 وسنده حسن)
   سنن النسائى الصغرى3959زيد بن ثابتإن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع
   سنن أبي داود3390زيد بن ثابتلا تكروا المزارع
   سنن ابن ماجه2461زيد بن ثابتإن كان هذا شأنكم فلا تكروا المزارع

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 3390  
´زمین کا ٹھیکا`
«. . . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ كَانَ هَذَا شَأْنَكُمْ، فَلَا تُكْرُوا الْمَزَارِعَ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الْبُيُوعِ: 3390]

فقہ الحدیث
↰ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے تھے کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ زمین کے کرائے والی حدیث میں ممانعت کو مطلق سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز ہے، اسی لیے ان سے حدیث سن کر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ٹھیکے کو ترک کر دیا تھا، لیکن ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں کہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث کی ممانعت کو ظلم و زیادتی والی صورتوں کے ساتھ خاص سمجھتے تھے، نقدی کے عوض زمین کے ٹھیکے کو وہ بھی جائز سمجھتے تھے۔ معلوم ہوا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نزدیک بھی یہ حدیث مطلق نہیں اور ہر طرح کا ٹھیکہ ناجائز نہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث\صفحہ نمبر: 39   
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2327  
´سونا اور چاندی کے عوض زمین کا ٹھیکے`
«. . . ومما يصاب الارض ويسلم ذلك، فنهينا واما الذهب والورق فلم يكن يومئذ . . .»
. . . بعض دفعہ سارے کھیت کی پیداوار ماری جاتی اور یہ خاص حصہ بچ جاتا۔ اس لیے ہمیں اس طرح کے معاملہ کرنے سے روک دیا گیا اور سونا اور چاندی کے بدلہ ٹھیکہ دینے کا تو اس وقت رواج ہی نہ تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْمُزَارَعَةِ: 2327]

◈ امام بغوی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«فيه دليل على جواز إجارة الأراضي، و ذهب عامة أهل العلم إلي جوازها بالدراهم و الدنانيز، و غيرها من صنوف الأموال، سواء كانت مما تنبت الأرض، أولا تنبت، إذا كان معلوما بالعيان، إو بالوصف، كما يجوز إجارة غير الأراضي من العبيد و الدواب و غيرها، و جملته إن ما جاز بيعه، جاز أن يجعل أجرة فى الإجازة۔»
اس حدیث میں زمین کو ٹھیکے پر لینے دینے کی دلیل ہے۔ اکثر اہل علم سونے، چاندی (نقدی) اور مال کی دوسری اقسام کے عوض زمین کے ٹھیکے کے جواز کے قائل ہیں، خواہ وہ چیز زمین سے اگتی ہو یا نہ اگتی ہو، بشرطیکہ اس کی مقدار اور کیفیت معلوم ہو۔ یہ (زمین کا کرایہ پر لینا دینا) اسی طرح جائز ہے، جیسے زمین کے علاوہ دوسری چیزیں، مثلا غلام، جانور وغیرہ کو کرائے پر لینا دینا جائز ہے۔ خلاصہ یہ کہ جس چیز کی خرید و فروخت جائز ہے، اس کو اجرت کے بدلے کرائے پر لینا دینا بھی جائز ہے۔۔۔ [شرح السنة للبغوي: 263/8]

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«و ذهب جميع فقهاء الحديث الجامعون لطرقه كلهم، كأحمد بن حنبل و أصحابه كلهم من المتقدمين، والمتأخرين، وإسحاق بن راهويه، وأبي بكر أبي شبية، وسليمان بن داود الهاشمي، و أبي خيثمة زهير بن حرب، و أكثر فقهاء الكوفيين، كسفيان الثوري، و محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلي، و أبي داوٗد، وجماهير فقهاء الحديث من المتأخرين: كابن المنذر، وابن خزيمة، والخطابي، وغيرهم، و أهل الظاهر، و أكثر أصحاب أبي حنيفة إلي جواز المزراعة والمؤعة و نحو ذلك اتباعا لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وسنة خلفائه و أصحابه و ما عليه السلف و عمل جمهور المسلمين»
سنت رسول، خلفائے راشدین اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل، سلف صالحین اور اکثر مسلمانوں کی روش کی پیروی میں اس حدیث کی ساری روایات کو جمع کرنے والے فقہائے حدیث، مثلا امام احمد بن حنبل، آپ رحمہ اللہ کے تمام متقدین و متاخرین اصحاب، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابوبکر بن ابی شیبہ، امام سلیمان بن داؤد ہاشمی، امام ابوخیثمہ زہیر بن حرب، اکثر فقہائے کوفہ، جیساکہ امام سفیان ثوری، محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلٰی، امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگرد ابویوسف و محمد، امام بخاری، امام ابوداؤد اور جمہور متاخرین فقہائے حدیث، مثلا امام ابن منذر، امام ابن خزیمہ، خطابی اور اہل ظاہر، امام ابوحنیفہ کے اکثر پیروکاروں کا مذہب ہے کہ مزارع اور ٹھیکہ وغیرہ جائزہ ہے۔۔۔۔ [مجموع الفتاوي لابن تيمية: 95-94/29، القواعد النوانية الفقهية: 163]

◈ شیخ اسلام ثانی، عالم ربانی، امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و قال ابن المنذر: قد جائت الأخبار عن رافع بعلل، تدل على أن النهي كان بتلك العلل»
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے آنے والی (ٹھیکے کی ممانعت والی) روایات میں کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹھیکے کی ممانعت انہی وجوہات کی وجہ سے تھی (مطلق طور پر ٹھیکے کا معاملہ حرام نہ تھا)۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داود: 186/9]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«المخابرة التى نهاهم عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم هي التى كانوا يفعلونها من المخابرة الظالمة الجائزة، و هي التى جائت مفسرة فى أحاديثهم» ۔
زمین کے جس معاملے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، وہ اس معاملے کی وہ صورتیں ہیں، جو ظلم و زیادتی پر منبی تھیں، ان کی وضاحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ احادیث میں آ گئی ہے۔۔ [حاشية ابن القيم على سنن ابي داوٗد: 193/9]

◈ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
«فيه دليل على جواز كراء الأرض بالذهب والورق، وقد جاءت أحاديث مطلقة فى النهي عن كرائها، وهذا مفسر لذلك الإطلاق»
اس حدیث میں زمین کو سونے، چاندی (نقدی) کے عوض ٹھیکے پر لینے کا جواز موجود ہے۔ کچھ مطلق احادیث زمین کے ٹھیکے سے ممانعت کے بارے میں آئی ہیں، یہ حدیث اس اطلاق کی تفسیر و تقیید کرتی ہے (یعنی بتاتی ہے کہ ٹھیکہ نا جائز نہیں)۔۔۔۔ [احكام الاحكام شرح عمدة الاحكام لابن دقيق العيد: ص 380]
↰ معلوم ہوا کہ ٹھیکے کی غلط صورتوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، نہ کہ مطلق ٹھیکے سے، کیونکہ خود راویٔ حدیث سیدنا رافع خدیج رضی اللہ عنہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ انصار ٹھیکے کے وقت جگہ مقرر کر لیتے تھے کہ زمین کے اس ٹکڑے کی پیدوار ٹھیکے والے کو اور اس ٹکڑے کی مالک کو ملے گی، یوں کبھی ٹھیکے والے کو نقصان ہو جاتا کبھی مالک کو۔ اسی طرح معاملہ یوں طے پاتا کہ زمین سے پیداوار کم ہو یا زیادہ، مالک نے مقررہ مقدار غلہ لینا ہے۔ اس صورت میں بھی ایک فریق کو نقصان کا خدشہ ہوتا تھا، اس لیے اسے بھی شریعت نے ممنوع ٹھہرایا۔ رہی نقدی کے عوض ٹھیکے کی صورت تو یہ اس دور میں تھی ہی نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، لہٰذا یہ ممنوع کیسے ہو سکتی ہے؟ فقہائے کرام اور محدثین عظام کا فہم بھی یہی ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 22، حدیث\صفحہ نمبر: 34   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3390  
´مزارعت یعنی بٹائی پر زمین دینے کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو معاف فرمائے قسم اللہ کی میں اس حدیث کو ان سے زیادہ جانتا ہوں (واقعہ یہ ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس انصار کے دو آدمی آئے، پھر وہ دونوں جھگڑ بیٹھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں ایسے ہی (یعنی لڑتے جھگڑتے) رہنا ہے تو کھیتوں کو بٹائی پر نہ دیا کرو۔‏‏‏‏ مسدد کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے آپ کی اتنی ہی بات سنی کہ زمین بٹائی پر نہ دیا کرو (موقع و محل اور انداز گفتگو پر دھیان نہیں دیا)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3390]
فوائد ومسائل:
یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی معاملے میں اخفا الجھائو۔
یا دھوکے اور ضرر کی کیفیت تنازع پیدا کرتی ہے۔
اس لئے اس سے بچنے کےلئے مزارعت میں معاملہ کھلا شفاف اور واضح اور شریعت کی شرائط کے مطابق ہونا چاہیے۔
یا پھر سرے سے یہ معاملہ کیا ہی نہ جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3390   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.