الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
32. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ
32. باب: بٹائی کی ممانعت کا بیان۔
Chapter: Regarding The Stern Warning Concerning That.
حدیث نمبر: 3402
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا هارون بن عبد الله، حدثنا الفضل بن دكين، حدثنا بكير يعني ابن عامر، عن ابن ابي نعم، حدثني رافع بن خديج، انه زرع ارضا،" فمر به النبي صلى الله عليه وسلم وهو يسقيها، فساله، لمن الزرع، ولمن الارض؟، فقال: زرعي ببذري، وعملي لي الشطر، ولبني فلان الشطر، فقال: اربيتما، فرد الارض على اهلها وخذ نفقتك".
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا بُكَيْرٌ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، أَنَّهُ زَرَعَ أَرْضًا،" فَمَرَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَسْقِيهَا، فَسَأَلَهُ، لِمَنِ الزَّرْعُ، وَلِمَنِ الْأَرْضُ؟، فَقَالَ: زَرْعِي بِبَذْرِي، وَعَمَلِي لِي الشَّطْرُ، وَلِبَنِي فُلَانٍ الشَّطْرُ، فَقَالَ: أَرْبَيْتُمَا، فَرُدَّ الْأَرْضَ عَلَى أَهْلِهَا وَخُذْ نَفَقَتَكَ".
ابن ابی نعم سے روایت ہے کہ مجھ سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک زمین میں کھیتی کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا اور وہ اس میں پانی دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی؟ تو انہوں کہا: میری کھیتی میرے بیج سے ہے اور محنت بھی میری ہے نصف پیداوار مجھے ملے گی اور نصف پیداوار فلاں شخص کو (جو زمین کا مالک ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں نے ربا کیا (یعنی یہ عقد ناجائز ہے) زمین اس کے مالک کو لوٹا دو، اور تم اپنے خرچ اور اپنی محنت کی اجرت لے لو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3568) (ضعیف الإسناد)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی بکیر بن عامر ضعیف ہیں)

Narrated Rafi ibn Khadij: Rafi had cultivated a land. The Prophet ﷺ passed him when he was watering it. So he asked him: To whom does the crop belong, and to whom does the land belong? He replied: The crop is mine for my seed and labour. The half (of the crop) is mine and the half for so-and-so. He said: You conducted usurious transaction. Return the land to its owner and take your wages and cost.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3395


قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
بكير ضعيف
والحديث صححه الحاكم (41/2) فقال الذھبي: ”بكير ضعيف‘‘
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 122
   سنن النسائى الصغرى3920رافع بن خديجخذوا زرعكم وردوا إليه نفقته
   سنن أبي داود3402رافع بن خديجرد الأرض على أهلها وخذ نفقتك
   سنن أبي داود3399رافع بن خديجخذوا زرعكم وردوا عليه النفقة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3402  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
ابن ابی نعم سے روایت ہے کہ مجھ سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے ایک زمین میں کھیتی کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا اور وہ اس میں پانی دے رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی؟ تو انہوں کہا: میری کھیتی میرے بیج سے ہے اور محنت بھی میری ہے نصف پیداوار مجھے ملے گی اور نصف پیداوار فلاں شخص کو (جو زمین کا مالک ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں نے ربا کیا (یعنی یہ عقد ناجائز ہے) زمین اس کے مالک کو لوٹا دو، اور تم اپنے خرچ اور اپنی محنت کی اجرت لے لو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3402]
فوائد ومسائل:
یہ روایت سنداضعیف ہے۔
لیکن دوسری روایت کو ملاکر آپ ﷺ کے: فرمان تم دونوں نے سود کا معاملہ کیا۔
سے واضح ہوجاتا ہے کہ نالیوں آبی گزرگاہوں وغیرہ کا معاہدہ کرنے سے پیداوار میں چونکہ فریقین کے حصے متعین نہیں ہوتے۔
اور ربا کی طرح کوئی نہ کوئی فریق بغیر بدلے کے دوسرے کا حق لیتا ہے۔
اس لئے یہ منع ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3402   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3399  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
ابوجعفر خطمی کہتے ہیں میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک غلام کو سعید بن مسیب کے پاس بھیجا، تو ہم نے ان سے کہا: مزارعت کے سلسلے میں آپ کے واسطہ سے ہمیں ایک خبر ملی ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مزارعت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی تو وہ (براہ راست) ان کے پاس معلوم کرنے پہنچ گئے، رافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارثہ کے پاس آئے تو وہاں ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی، تو فرمایا: (ماشاء اللہ) ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے لوگوں نے کہا: یہ ظہیر کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3399]
فوائد ومسائل:
یہ زمین جس طرح حضرت رافع نے حدیث 3392 میں خود بیان کیا، اسی ایک مروجہ کے طریق کے مطابق دی گئی تھی۔
جس میں ناجائز شرطیں تھیں۔
فریقین کے حصے واضح اور متعین نہ تھے۔
اور لڑائی کا احتمال تھا۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ نےمزارعت کا یہ معاہدہ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3399   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.