عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کی چیز بیچے، میں (طاؤس) نے کہا: شہری دیہاتی کی چیز نہ بیچے اس کا کیا مطلب ہے؟ تو ابن عباس نے فرمایا: (اس کا مطلب یہ ہے کہ) وہ اس کی دلالی نہ کرے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی بستی والا باہر سے آئے ہوئے تاجر کا دلال بن کر نہ تو اس کے ہاتھ کوئی چیز بیچے اور نہ ہی اس کے لئے کوئی چیز خریدے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں بستی والوں کا خسارہ ہے، جب کہ باہر سے آنے والا اگر خود خرید و فروخت کرتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت سے خرید و فروخت کرے گا۔
Narrated Ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ forbade a townsman to sell for a man from the desert. I asked: What do you mean by the selling of a townsman for a man from the desert ? He replied: He should not be a broker for him.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3432
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2158) صحيح مسلم (1521)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2177
´شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال (مہنگا کرنے کے ارادے سے) نہ بیچے۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا مال بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «حاضر لباد» کا کیا مفہوم ہے؟ تو انہوں نے کہا: بستی والا باہر والے کا دلال نہ بنے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2177]
اردو حاشہ: فائدہ: اس مسئلے کی تفصیل کے لیے حدیث: 2145 کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2177
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 674
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام` سیدنا طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو آگے جا کر نہ ملو اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے۔“ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا ”شہری دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے“ کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ شہری دیہاتی کا دلال نہ بنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 674»
تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب هل يبيع حاضر لباد، حديث:2158، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الحاضرة للبادي، حديث:1521.»
تشریح: راوئ حدیث: «حضرت طاوس رحمہ اللہ» ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے اور نسب یوں ہے: طاوس بن کیسان حمیری۔ حمیر قبیلہ والوں کے مولا ہیں۔ فارسی النسل ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ذکوان ہے اور طاوس ان کا لقب ہے۔ ثقہ ہیں۔ نہایت فاضل فقیہ ہیں اور تیسرے طبقے سے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے پچاس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے: ”میرا گمان ہے کہ طاوس جنتی ہے۔ “ عمروبن دینار کا قول ہے: ”میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ “ ۱۰۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 674