الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
The Office of the Judge (Kitab Al-Aqdiyah)
2. باب فِي الْقَاضِي يُخْطِئُ
2. باب: قاضی (جج) سے فیصلہ میں غلطی ہو جائے تو کیسا ہے؟
Chapter: Regarding The Judge Who Is Mistaken.
حدیث نمبر: 3574
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، حدثنا عبد العزيز يعني ابن محمد، اخبرني يزيد بن عبد الله بن الهاد، عن محمد بن إبراهيم، عن بسر بن سعيد، عن ابي قيس مولى عمرو بن العاص، عن عمرو بن العاص، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا حكم الحاكم، فاجتهد فاصاب فله اجران وإذا حكم فاجتهد فاخطا فله اجر"، فحدثت به ابا بكر بن حزم، فقال: هكذا حدثني ابو سلمة، عن ابي هريرة.
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ، فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ"، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبَا بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة.
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور درستگی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے، اور جب قاضی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور خطا کر جائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر ہے ۱؎۔ راوی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسی طرح ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الاعتصام 21(7352)، صحیح مسلم/الأقضیة 6 (1716)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 3 (2314)، (تحفة الأشراف: 15437، 10748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/198، 204) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی جب حاکم یا قاضی نے فیصلہ کرنے میں غور و خوض کر کے قرآن و حدیث اور اجماع سے اس کا حکم نکالا تو اگر اس کا فیصلہ صحیح ہے تو اس کے لیے دوگنا اجر و ثواب ہے، اور اگر فیصلہ غلط ہے تب بھی اس پر اس کو ایک ثواب ہے، اور کوشش کے بعد غلطی اور چوک ہونے پر وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہے، اسی طرح وہ مسئلہ جو قرآن و حدیث اور اجماع امت میں صاف مذکور نہیں اگر اس کو کسی مجتہد عالم نے قرآن اور حدیث میں غور کر کے نکالا اور حکم صحیح ہوا تو وہ دوگنے اجر کا مستحق ہو گا، اور اگر مسئلہ میں غلطی ہوئی تو ایک اجر کا مستحق ہوا، لیکن شرط یہ ہے کہ اس عالم میں زیر نظر مسئلہ میں اجتہاد کی اہلیت و استعداد ہو۔

Narrated Buraidah: The Prophet ﷺ as saying: "Judges are of three types, one of who will go to Paradise and two to Hell. The one who will go to Paradise is a man who knows what is right and gives judgement accordingly; by a man who knows what is right and acts tyrannically in his judgement will go to Hell; and a man who gives judgement for people when he is ignorant will go to Hell. " Abu Dawud said: On this subject this is the soundest tradition, that is m the tradition of Ibn Buraidah: Judges are of three types.
USC-MSA web (English) Reference: Book 24 , Number 3567


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (7352) صحيح مسلم (1716)
   صحيح البخاري7352إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر
   صحيح مسلم4487إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر
   سنن أبي داود3574إذا حكم الحاكم فاجتهد فأصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد فأخطأ فله أجر
   سنن ابن ماجه2314إذا حكم الحاكم فاجتهد فأصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد فأخطأ فله أجر
   بلوغ المرام1191 إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2314  
´اجتہاد کر کے صحیح فیصلہ تک پہنچنے والے حاکم کے اجر و ثواب کا بیان۔`
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب حاکم فیصلہ اجتہاد سے کرے اور صحیح بات تک پہنچ جائے تو اس کو دہرا اجر ملے گا، اور جب فیصلہ کی کوشش کرے اور اجتہاد میں غلطی کرے، تو اس کو ایک اجر ملے گا۔‏‏‏‏ یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن عمرو بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: اسی طرح اس کو مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2314]
اردو حاشہ:
فوائد  و مسائل:

(1)
اجتہاد کے لفظی معنی کوشش کرنا ہیں۔
یہاں یہ مطلب ہے کہ دلائل وشواہد کی روشنی میں اخلاص کےساتھ پیش آمدہ مسئلے میں صحیح موقف تک پہنچنے کے لیے پوری توجہ اورکوشش سے سوچ بچار کی جائے اور یہ فیصلہ کرنے والے کا فرض ہے کہ اپنی طرف سے صحیح فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے۔

(2)
اس کوشش اور اجتہاد کے نتیجے میں صحیح بات سمجھ میں آ جانا اللہ کا فضل ہے جس کے نتیجے میں حق دار کو اس کا حق مل جاتا ہے یا مسئلہ پوچھنے والے کو صحیح مسئلہ معلوم ہو جاتا ہے۔
اور مسلمان کو فائدہ پہنچانا ایک نیکی ہے لہٰذا اجتہاد کرنے والے کو اس کا بھی ثواب ملتا ہے۔
یہ ثواب اللہ کی خاص رحمت ہے۔ (3)
  جس شخص سے اجتہاد میں غلطی ہو جائے اور اس کے نتیجے میں کسی کو غلط مسئلہ بتایا جائے یا حق دار اپنے حق سے محروم ہو جائے تو اجتہاد کرنے والے قاضی یا عالم کو گناہ نہیں ہو گا کیونکہ اس نے صحیح بات سمجھنےکی پوری کوشش کی ہے لہٰذا اسےاس کوشش کا ثواب بہر حال ملے گا۔

(4)
  اگر بعد میں آنے والوں کو معلوم ہو جائے کہ عالم سے مسئلہ معلوم کرنے میں غلطی ہوئی ہے توانہیں اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔
اور غلطی کرنے والے عالم کےبارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے کہ اس نے جان بوجھ کر غلط مسئلہ نہیں بتایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2314   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3574  
´قاضی (جج) سے فیصلہ میں غلطی ہو جائے تو کیسا ہے؟`
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور درستگی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے، اور جب قاضی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور خطا کر جائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر ہے ۱؎۔‏‏‏‏ راوی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسی طرح ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3574]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ خوش خبری اس قاضی کے لئے ہے۔
جو صاحب علم ہے اجتہاد کرتا ہے۔
اس منصب کی ذمہ داریوں سے خوب واقف ہے۔
اللہ سے ڈرتا ہے۔
اور اس عہدے کا طلب گار نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3574   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.