حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابي غفار، حدثنا ابو تميمة الهجيمي وابو تميمة اسمه طريف بن مجالد، عن ابي جري جابر بن سليم، قال:" رايت رجلا يصدر الناس عن رايه لا يقول شيئا إلا صدروا عنه، قلت: من هذا؟ قالوا: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: عليك السلام يا رسول الله مرتين، قال: لا تقل عليك السلام فإن عليك السلام تحية الميت، قل السلام عليك، قال: قلت انت رسول الله، قال: انا رسول الله الذي إذا اصابك ضر فدعوته كشفه عنك، وإن اصابك عام سنة فدعوته انبتها لك، وإذا كنت بارض قفراء او فلاة فضلت راحلتك فدعوته ردها عليك، قال: قلت اعهد إلي، قال: لا تسبن احدا، قال: فما سببت بعده حرا ولا عبدا ولا بعيرا ولا شاة، قال: ولا تحقرن شيئا من المعروف، وان تكلم اخاك وانت منبسط إليه وجهك إن ذلك من المعروف، وارفع إزارك إلى نصف الساق فإن ابيت فإلى الكعبين، وإياك وإسبال الإزار فإنها من المخيلة، وإن الله لا يحب المخيلة، وإن امرؤ شتمك وعيرك بما يعلم فيك فلا تعيره بما تعلم فيه فإنما وبال ذلك عليه". حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي غِفَارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِي وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدُّ، عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ، قَالَ:" رَأَيْتُ رَجُلًا يَصْدُرُ النَّاسُ عَنْ رَأْيِهِ لَا يَقُولُ شَيْئًا إِلَّا صَدَرُوا عَنْهُ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ: لَا تَقُلْ عَلَيْكَ السَّلَامُ فَإِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ، قُلِ السَّلَامُ عَلَيْكَ، قَالَ: قُلْتُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: أَنَا رَسُولُ اللَّهِ الَّذِي إِذَا أَصَابَكَ ضُرٌّ فَدَعَوْتَهُ كَشَفَهُ عَنْكَ، وَإِنْ أَصَابَكَ عَامُ سَنَةٍ فَدَعَوْتَهُ أَنْبَتَهَا لَكَ، وَإِذَا كُنْتَ بِأَرْضٍ قَفْرَاءَ أَوْ فَلَاةٍ فَضَلَّتْ رَاحِلَتُكَ فَدَعَوْتَهُ رَدَّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: قُلْتُ اعْهَدْ إِلَيَّ، قَالَ: لَا تَسُبَّنَّ أَحَدًا، قَالَ: فَمَا سَبَبْتُ بَعْدَهُ حُرًّا وَلَا عَبْدًا وَلَا بَعِيرًا وَلَا شَاةً، قَالَ: وَلَا تَحْقِرَنَّ شَيْئًا مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَأَنْ تُكَلِّمَ أَخَاكَ وَأَنْتَ مُنْبَسِطٌ إِلَيْهِ وَجْهُكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَارْفَعْ إِزَارَكَ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ فَإِنْ أَبَيْتَ فَإِلَى الْكَعْبَيْنِ، وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ، وَإِنِ امْرُؤٌ شَتَمَكَ وَعَيَّرَكَ بِمَا يَعْلَمُ فِيكَ فَلَا تُعَيِّرْهُ بِمَا تَعْلَمُ فِيهِ فَإِنَّمَا وَبَالُ ذَلِكَ عَلَيْهِ".
ابوجری جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ لوگ اس کی رائے کو قبول کرتے ہیں جب بھی وہ کوئی بات کہتا ہے لوگ اسی کو تسلیم کرتے ہیں، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، میں نے دو مرتبہ کہا: «عليك السلام يا رسول الله»”آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عليك السلام» نہ کہو، یہ مردوں کا سلام ہے اس کے بجائے ” «السلام عليك» کہو۔“ میں نے کہا: (کیا) آپ اللہ کے رسول ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس اللہ کا بھیجا رسول ہوں، جس کو تمہیں کوئی ضرر لاحق ہو تو پکارو وہ تم سے اس ضرر کو دور فرما دے گا، جب تم پر کوئی قحط سالی آئے اور تم اسے پکارو تو وہ تمہارے لیے غلہ اگا دے گا، اور جب تم کسی چٹیل زمین میں ہو یا میدان پھر تمہاری اونٹنی گم ہو جائے تو اگر تم اس اللہ سے دعا کرو تو وہ اسے لے آئے گا“، میں نے کہا: مجھے نصیحت کیجئے آپ نے فرمایا: ”کسی کو بھی گالی نہ دو۔“ اس کے بعد سے میں نے کسی کو گالی نہیں دی، نہ آزاد کو، نہ غلام کو، نہ اونٹ کو، نہ بکری کو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی بھلائی کے کام کو معمولی نہ سمجھو، اور اگر تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے بات کرو گے تو یہ بھی بھلے کام میں داخل ہے، اور اپنا تہ بند نصف «ساق»(پنڈلی) تک اونچی رکھو، اور اگر اتنا نہ ہو سکے تو ٹخنوں تک رکھو، اور تہ بند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو کیونکہ یہ غرور و تکبر کی بات ہے، اور اللہ غرور پسند نہیں کرتا، اور اگر تمہیں کوئی گالی دے اور تمہارے اس عیب سے تمہیں عار دلائے جسے وہ جانتا ہے تو تم اسے اس کے اس عیب سے عار نہ دلاؤ جسے تم جانتے ہو کیونکہ اس کا وبال اسی پر ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2124)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الاستئذان 28 (2722)، سنن النسائی/ الکبری (9691)، مسند احمد (3/482، 5/63) (صحیح)»
Narrated Abu Jurayy Jabir ibn Salim al-Hujaymi: I saw a man whose opinion was accepted by the people, and whatever he said they submitted to it. I asked: Who is he? They said: This is the Messenger of Allah ﷺ. I said: On you be peace, Messenger of Allah, twice. He said: Do not say "On you be peace, " for "On you be peace" is a greeting for the dead, but say "Peace be upon you". I asked: You are the Messenger of Allah (may peace be upon you)? He said: I am the Messenger of Allah Whom you call when a calamity befalls you and He removes it; when you suffer from drought and you call Him, He grows food for you; and when you are in a desolate land or in a desert and your she-camel strays and you call Him, He returns it to you. I said: Give me some advice. He said: Do not abuse anyone. He said that he did not abuse a freeman, or a slave, or a camel or a sheep thenceforth. He said: Do not look down upon any good work, and when you speak to your brother, show him a cheerful face. This is a good work. Have your lower garment halfway down your shin; if you cannot do it, have it up to the ankles. Beware of trailing the lower garment, for it is conceit and Allah does not like conceit. And if a man abuses and shames you for something which he finds in you, then do not shame him for something which you find in him; he will bear the evil consequences for it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 33 , Number 4073
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح مشكوة المصابيح (1918) أخرجه الترمذي (2722 وسنده صحيح)
عليك السلام فإن عليك السلام تحية الميت قل السلام عليك أنا رسول الله الذي إذا أصابك ضر فدعوته كشفه عنك وإن أصابك عام سنة فدعوته أنبتها لك وإذا كنت بأرض قفراء أو فلاة فضلت راحلتك فدعوته ردها عليك لا تسبن أحدا
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4084
فوائد ومسائل: 1: اللہ کے رسول ؐ کا مقام ومنصب صحابہ کرام رضی اللہ خوب جانتے اور پہچانتے تھے کہ آپ جو فرمائیں اسے سنا اور مانا جائے اور اب یہی ہے کہ پر صاحب ایمان کو رسول اللہ کا جو بھی فرمان معلوم ہو جائے، اس کو اپنے عمل میں لانے کی کوشش کرے۔
2: سنت یہ ہے کہ قبرستان میں جاتے ہوئے اموات کو (السلام علیکم یا أھل القبور) کہا جائے۔ حدیث میں جو مذکورہوا ہے، وہ شائد عہد جاہلیت کا انداز تھا کہ وہ (علیک السلام) کہتے تھے۔ 3: مسلمان کو ہرچھوٹی بڑی اور ظاہری باطنی حاجات کے لئے صرف اور صرف اللہ کے حضور دعا کرنی چاہیے کہ وہی سننے اورقبول کرنے والا ہے۔
4: کسی صاحب ایمان کو زیب نہیں دیتا کہ کسی چیز کو گالی دے۔
5: کسی بھی نیکی کو کبھی حقیر اور معمولی نہیں جاننا چاہیے۔
6: اپنے مسلمان بھائیوں سے ہمیشہ ہنسی، خوشی، کشادہ دلی اور خدنہ پیشانی سے ملنا چاہیے۔
7: مرد کو چاہیے کہ لباس میں مردانہ صفات کا اظہار کرے جن میں سے ایک یہ ہے کہ تہ بند شلوار وغیرہ ٹخنوں سے اونچی ہو۔
8: چادر شلوار کا ٹخنوں سے نیچے ہونا تکبر کی نشانی ہے یا نسوانیت کی۔ اور اگر کوئی یہ کہے کہ میں تکبر سے ایسے نہیں کرتا ہوں تو اس کا یہ کہنا ہی تکبر ہے کہ رسول ؐ کے صریح فرمان کواپنے عمل میں لانے ک بجائے لا یعنی عذرکرتا ہے۔
9: اس قسم کے بظاہر عام اور چھوٹے اعمال پر اخلاص سے عمل کرنا دلیل ہے کہ یہ شخص صاحب ایمان ہے اگر چہ یہ اعمال چھوٹے نہیں ہیں، کیونکہ ان کی برکت سے دیگر بڑے فضائل حاصل ہونے کی امید ہوتی ہے اور جو ان پر عمل نہیں کرتا اس سے کیا توقع رکھی جائے کہ وہ بڑی بھاری نیکیاں کمالے گا۔
10: اپنے مسلمان بھائی کو اس کے عیب پر عار نہ دلانا، بہت عزیمت کا کام ہے، البتہ کسی مناسب بھلے اندازسے نصحیت کرو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4084
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5209
´ «عليك السلام» کہنے کی کراہیت کا بیان` ابوجری ہجیمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: «عليك السلام يا رسول الله»”آپ پر سلام ہو اللہ کے رسول!“ تو آپ نے فرمایا: «عليك السلام» مت کہو کیونکہ «عليك السلام» مردوں کا سلام ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5209]
فوائد ومسائل: سلام کی ابتدا کرنے والا (السلام علیکم یا السلام علیک) کہے اور جواب دینے والا (وعلیکم السلام یا وعلیک السلام) کہے، یعنی اس میں حرف واو کا اضافہ ہو۔ صرف علیک السلام ابتدا کرنے میں یا جواب دینے میں کسی طرح صحیح نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5209