الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
28. بَابُ : التَّسْلِيمِ
28. باب: سلام پھیرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 917
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن عامر بن زرارة ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن ابي إسحاق ، عن بريد بن ابي مريم ، عن ابي موسى ، قال:" صلى بنا علي يوم الجمل صلاة ذكرنا صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإما ان نكون نسيناها، وإما ان نكون تركناها، فسلم على يمينه وعلى شماله".
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ:" صَلَّى بِنَا عَلِيٌّ يَوْمَ الْجَمَلِ صَلَاةً ذَكَّرَنَا صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَسِينَاهَا، وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ تَرَكْنَاهَا، فَسَلَّمَ عَلَى يَمِينِهِ وَعَلَى شِمَالِهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں جنگ جمل کے دن ایسی نماز پڑھائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی یاد تازہ ہو گئی، جسے یا تو ہم بھول چکے تھے یا چھوڑ چکے تھے، تو انہوں نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8982، ومصباح الزجاجة: 335) (منکر)» ‏‏‏‏ (یہ حدیث ابوبکر بن عیاش اور ابو اسحاق کی وجہ سے منکر ہے، لیکن یہ ٹکڑا «فسلم على يمينه وعلى شماله» صحیح ہے، کیونکہ اس سے پہلے والی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، صحیح ابن خزیمہ)

وضاحت:
۱؎: جنگ جمل: جمادی الآخرہ ۳۶ ھ میں علی رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کے درمیان یہ جنگ بصرہ میں واقع ہوئی۔ ۲؎: اہل حدیث کے نزدیک نماز سے باہر آنے کے لئے سلام پھیرنا واجب ہے، اور دوسری حدیث میں ہے کہ نماز کی تحلیل (یعنی اس کے ختم کرنے اور اس سے باہر جانے کا راستہ) سلام ہے، اب صحیح اور مشہور یہی ہے کہ دائیں اور بائیں طرف دو سلام کرے، ابن القیم نے کہا کہ پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دو سلام نقل کئے ہیں، ان میں سے ابن مسعود، سعد، جابر، ابوموسی، عمار بن یاسر، عبداللہ بن عمر، براء، وائل، ابو مالک، عدی، طلق، اوس اور ابورمثہ رضی اللہ عنہم ہیں، ان میں سے بعض روایتیں صحیح ہیں، بعض حسن ہیں، ان کی مخالف پانچ حدیثیں ہیں، جن میں ایک سلام مذکور ہے، اور ان کی صحت میں اختلاف ہے، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں «وبرکاتہ» کا لفظ زیادہ ہے جس کو ابوداود نے وائل بن حجر کی روایت سے نقل کیا ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول یہی ہے کہ ایک ہی سلام کرنا کافی ہے سلام کے سلسلے میں مختلف روایات ثابت ہیں، اس لئے سب صورتیں صحیح ہیں، اور ثابت شدہ تمام احادیث پر عمل کرنا مشروع و مسنون ہے، ہاں جس کیفیت پر رسول اکرم ﷺ اور آپ کے اصحاب زیادہ رہا کرتے تھے اس کو زیادہ کرنا اولیٰ ہے، نیز ان کیفیات کے لئے، (ملاحظہ ہو: صفۃ صلاۃ النبی ﷺ للألبانی، ص۱۸۷، ۱۸۸)۔

It was narrated that Abu Musa said: “Ali led us in prayer on the day of (the battle of) the Camel, in a way that reminded us of the prayer of the Messenger of Allah (ﷺ). Either we had forgotten it or we had abandoned it. He said the Salam to his right and to his left.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: منكر وأما السلام يمينا ويسارا فصحيح بما قبله

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو إسحاق عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 411


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.