الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
2. بَابُ الْحَلاَلُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ:
2. باب: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ شک و شبہ والی چیزیں بھی ہیں۔
(2) Chapter. Legal, illegal things are clearly defined, and in between them are some doubtful (unclear) things.
حدیث نمبر: 2051
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابن ابي عدي، عن ابن عون، عن الشعبي، سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنه: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم. وحدثنا علي بن عبد الله، حدثنا ابن عيينة، حدثنا ابو فروة، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، وحدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن عيينة، عن ابي فروة، سمعت الشعبي، سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وحدثنا محمد بن كثير، اخبرنا سفيان، عن ابي فروة، عن الشعبي، عن النعمان بن بشير رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" الحلال بين والحرام بين وبينهما امور مشتبهة، فمن ترك ما شبه عليه من الإثم، كان لما استبان اترك، ومن اجترا على ما يشك فيه من الإثم، اوشك ان يواقع ما استبان، والمعاصي حمى الله من يرتع حول الحمى يوشك ان يواقعه".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنَ الْإِثْمِ، كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ، وَمَنِ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ، أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ، وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكْ أَنْ يُوَاقِعَهُ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے، ان سے شعبی نے، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا (دوسری سند امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، ان سے شعبی نے، کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (تیسری سند) اور ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، انہوں نے شعبی سے سنا، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے (چوتھی سند) اور ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابوفروہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی کھلا ہوا ہے اور حرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے وہ ان چیزوں کو تو ضروری ہی چھوڑ دے گا جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طور پر گناہ ہیں (لوگو یاد رکھو) گناہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ ہے جو (جانور بھی) چراگاہ کے اردگرد چرے گا اس کا چراگاہ کے اندر چلا جانا غیر ممکن نہیں۔

Narrated An-Nu`man bin Bashir: The Prophet said "Both legal and illegal things are obvious, and in between them are (suspicious) doubtful matters. So whoever forsakes those doubtful things lest he may commit a sin, will definitely avoid what is clearly illegal; and whoever indulges in these (suspicious) doubtful things bravely, is likely to commit what is clearly illegal. Sins are Allah's Hima (i.e. private pasture) and whoever pastures (his sheep) near it, is likely to get in it at any moment."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 267

   صحيح البخاري52نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس من اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه من وقع في الشبهات كراع يرعى حول الحمى يوشك أن يواقعه لكل ملك حمى حمى الله في أرضه محارمه في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله
   صحيح البخاري2051نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بينهما أمور مشتبهة
   صحيح مسلم4094نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس من اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه من وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه لكل ملك حمى حمى الله محارمه في الجسد مضغة
   جامع الترمذي1205نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بين ذلك أمور مشتبهات لا يدري كثير من الناس أمن الحلال هي أم من الحرام من تركها استبراء لدينه وعرضه فقد سلم من واقع شيئا منها يوشك أن يواقع الحرام من يرعى حول الحمى يوشك أن يواقعه لكل ملك حمى حمى الله محارم
   سنن أبي داود3329نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بينهما أمور مشتبهة سأضرب لكم في ذلك مثلا الله حمى حمى حمى الله ما حرم من يرع حول الحمى يوشك أن يخالطه من يخالط الريبة يوشك أن يجسر
   سنن النسائى الصغرى5713نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بين ذلك أمورا مشتبهات سأضرب في ذلك مثلا الله حمى حمى حمى الله ما حرم من يرع حول الحمى يوشك أن يرتع وإن من خالط الريبة يوشك أن يجسر
   سنن النسائى الصغرى4458نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين بين ذلك أمورا مشتبهات سأضرب لكم في ذلك مثلا الله حمى حمى حمى الله ما حرم من يرتع حول الحمى يوشك أن يخالط الحمى
   سنن ابن ماجه3984نعمان بن بشيرالحلال بين والحرام بين بينهما مشتبهات لا يعلمها كثير من الناس من اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه من وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي حول الحمى يوشك أن يرتع فيه لكل ملك حمى حمى الله محارمه في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله
   بلوغ المرام1266نعمان بن بشيرالحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه ومن وقع في الشبهات
   مسندالحميدي943نعمان بن بشيرحلال بين وحرام بين، وشبهات بين ذلك، فمن ترك ما اشتبه عليه من الإثم كان لما استبان له أترك، ومن اجترأ على ما شك فيه، أوشك أن يواقع الحرام، وإن لكل ملك حمى، وحمى الله في الأرض معاصيه
   مسندالحميدي944نعمان بن بشيرمثل المؤمنين في تباذلهم وتوادهم وتراحمهم، كمثل الإنسان، إذا اشتكى عضو من أعضائه تداعى له سائر الجسد بالحمى والسهر
   مسندالحميدي945نعمان بن بشيرفي الإنسان مضغة، إذا هي صلحت وسلمت سلم لها سائر الجسد، وصح، وإذا هي سقمت سقم لها سائر الجسد وفسد، وهي القلب
   مسندالحميدي947نعمان بن بشيرحلال بين وحرام بين، وشبهات بين ذاك، فمن ترك ما اشتبه عليه من الإثم كان لما استبان له أترك، ومن اجترأ على ما شك فيه، يوشك أن يواقع الحرام، كمن رتع إلى جانب الحمى، يوشك أن يقع فيه، وإن لكل ملك حمى، وحمى الله في الأرض معاصيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 52  
´ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے`
«. . . يَقُولُ:" الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 52]

تشریح:
باب کے منعقد کرنے سے حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ ورع پرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر ہمارا مذہب یہی ہے کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے اور فرماتے ہیں:
«قد اجمع العلماءعلي عظم موقع هذاالحديث وانه احدالاحاديت الاربعة التى عليهامدارالاسلام المنظومة فى قوله:»
«عمدة الدين عندنا كلمات . . . مسندات من قول خير البرية»
«اتق الشبه و ازهدن و دع ما . . . ليس يعينك واعملن بنية»
یعنی اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے جیسا کہ اس رباعی میں ہے کہ دین سے متعلق ارشادات نبوی کے یہ چند کلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں۔ شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیا کرو، فضولیات سے بچو اور نیت کے مطابق عمل کرو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 52   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2051  
2051. حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2051]
حدیث حاشیہ:
عہد جاہلیت میں عربی شیوخ و امراء اپنی چراگاہیں مخصوص رکھا کرتے تھے ان میں کوئی غیر آدمی اپنے جانوروں کو نہیں داخل کرسکتا تھا۔
اس لیے غریب لوگ ان چراگاہوں کے قریب بھی نہ جاتے کہ مبادا ان کے جانور اس میں داخل ہو جائیں اور وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق گردانے جائیں۔
حدود اللہ کو بھی ایسی ہی چراگاہوں سے تشبیہ دی گئی اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ حدود اللہ کے قریب بھی نہ جاؤ کہ کہیں ان کے توڑنے کے مرتکب ہو کر عنداللہ مجرم ٹھہرو۔
حدیث ہذا میں معاصی کو اللہ کی چراگاہ بتلایا گیا ہے۔
جو معاصی سے دور رہنے کے لیے ایک انتہائی تنبیہ ہے۔
ان سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلال اورحرام کے درمیان جو امور مشتبہات ہیں ان سے بھی پرہیز کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ ان کے ارتکاب سے فعل حرام ہی کا ارتکاب ہو جائے، اس لیے جو مشتبہات سے بچ گیا وہ سلامت رہا۔
حرمات اللہ کی چراگاہوں سے تشبیہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے کہ جس طرح امراء و زمیندار لوگوں کی مخصوص چراگاہوں میں داخل ہوجانے والے اور اپنے جانوروں کو وہاں چگانے والوں کو انتہائی سنگین سزا دی جاسکتی ہے۔
ایسے ہی جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے اور اللہ کی چراگاہ یعنی امور حرام میں واقع ہوجاتے ہیں۔
وہ آخرت میں سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔
اور افعال مشتبہات سے پرہیز بھی اسی بنا پر ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص امورحرام کا مرتکب ہو کر عذاب الیم کا مستحق نہ ہو جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2051   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266    
مشتبہ امور سے بچنے کا حکم
«عن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول:- واهوى النعمان بإصبعيه إلى اذنيه - ‏‏‏‏إن الحلال بين وإن الحرام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات فقد استبرا لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك ان يقع فيه الا وإن لكل ملك حمى إلا وإن حمى الله محارمه الا وإن فى الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله الا وهى القلب . ‏‏‏‏ متفق عليه»
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ نعمان نے یہ بات اپنی انگلیاں کانوں کی طرف لے جاتے ہوئے کہی۔ یقیناً حلال ظاہر ہے اور حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے تو جو شخص شبہوں سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی اور جو شبہ کی چیزوں میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا جیسا کہ وہ شخص جو ممنوعہ چراگاہ کے اردگرد مویشی چرانے والا ہے قریب ہے کہ اس میں جا پڑے یاد رکھو ہر بادشاہ کی کوئی نہ کوئی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے خبردار اللہ کی ممنوعہ چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ خبردار اور جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے یاد رکھو وہ دل ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1266]
دنیا سے بےرغبتی اور پرہیزگاری کا بیان
«الزهد» کسی چیز کی رغبت کم ہونا۔ مراد دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کی طرف ساری توجہ رکھنا ہے۔
نووی نے اربعین کی شرح میں فرمایا زہد یہ ہے کہ دنیا کی غیر ضروری چیزیں چھوڑ دے خواہ حلال ہی ہوں اور انہیں چیزوں پر گزارہ کرے جن کے بغیر چارہ نہیں۔ [مسك الختام]
ترمذی اور ابن ماجہ میں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں زہد حلال کو حرام کر لینے اور مال کو ضائع کر دینے کا نام نہیں بلکہ دنیا میں زہد یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس پر تمہیں ان چیزوں سے زیادہ بھروسہ ہو جو تمہارے ہاتھ میں ہیں اور تمہیں کوئی مصیبت اگر پہنچے تو اس کے ثواب کی رغبت اس سے زیادہ ہو کہ وہ مصیبت تمہیں نہ پہنچتی۔ صاحب سبل نے فرمایا یہ نبوی تفسیر دوسری تفسیروں سے مقدم ہے۔
مگر یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔ ترمذی نے فرمایا: اس میں عمرہ بن واقد منکر الحدیث ہے۔ البانی نے بھی اسے ضعیف جدا قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [ضعيف الترمذي حديث 405]
«الورع» بچنا مراد حرام سے بچنا بلکہ حرام سے بچنے کے لئے شبہ کی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا ہے۔

تخریج:
[بخاري 52]،
[مسلم المساقاة/107]

فوائد:
حلال ظاہر ہے۔ کسی کو اس کے حلال ہونے میں شک نہیں، مثلاً پھل، روٹی، شہد، دودھ اور کھانے پینے کی عام چیزیں، اسی طرح خرید و فروخت اور دوسرے معاملات جو سب جانتے ہیں کہ حلال ہیں۔ حرام ظاہر ہے مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، زنا، غیبت، چغلی اور جھوٹ وغیرہ ان دونوں کا حکم واضح ہے جس کی حرمت صاف قرآن و حدیث میں آ گئی وہ حرام ہے جس کا حلال ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہو گیا وہ حلال ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے خاموشی اختیار فرمائی وہ بھی حلال ہے اور اسی طرح جس چیز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بطور احسان فرمایا وہ بھی حلال ہے۔
ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ ان کی مشابہت حلال سے بھی ہے اور حرام سے بھی، ان کا حکم بہت سے لوگ نہیں جانتے صرف پختہ عالم ہی جانتے ہیں، اگر کوئی شخص حرام سے بچنا چاہے تو وہ ان مشتبہ چیزوں سے بھی بچے کیوں کے اگر ان چیزوں کا استعمال شروع کر دے گا تو حرام سے صحیح نفرت باقی نہیں رہے گی آہستہ آہستہ واضح حرام چیزوں کا استعمال بھی شروع کر دے گا۔
جو شبہات میں جا پڑا وہ حرام میں جا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قریب ہے کہ وہ حرام میں جا پڑے کیونکہ اگر یہ مطلب نہ ہو تو پھر مشتبہات صاف ہی حرام کی قسم بن جائیں گی جبکہ یہ بات درست نہیں۔
جو شخص شبہات سے بچ گیا اس نے اپنا دین اور اپنی عزت بچا لی۔ کیوں کے شبہات سے بچے گا تو صریح حرام سے بد درجہ اولی بچے گا اس سے اس کا دین محفوظ ہو گیا عزت اس لئے کہ اگر شبہ والی چیزیں استعمال کرے گا تو عام لوگ بدگمان ہو جائیں گے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے گا۔
➎ اس کی مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں گری ہوئی ایک کھجور دیکھی تو فرمایا: اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ یہ صدقہ کے مال سے ہو گی تو میں اسے کھا لیتا۔ [متفق عليه]
➏ تمام مکروہ چیزوں سے بچنا بھی اس میں شامل ہے کیونکہ مکروہ سے نفرت ختم ہوتی ہے تو آدمی حرام تک جا پہنچتا ہے۔ اگر مکروہ چیزوں سے نفرت قائم رہے تو حرام کی ارتکاب کی دلیری نہیں ہوتی۔
➐ جسم کے درست یا خراب ہونے کا اصل مرکز دل ہے۔ کیونکہ سارے اعضاء دل ہی کی بات مانتے ہیں، دل کہتا ہے تو ہاتھ اٹھ جاتا ہے آنکھ کھل جاتی ہے پاؤں چل پڑتے ہیں اور اگر وہ کہتا ہے تو آنکھ بند ہو جاتی ہے ہاتھ نیچے ہو جاتا ہے اور پاؤں رک جاتے ہیں۔ دل کسی چیز کی خواہش کرتا ہے تو عقل اس کے جواز کے دلائل کا انبار لگا دیتی ہے اگر نفرت کرتا ہے تو دوسری جانب کی دلیلیں نکال لاتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 101   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3984  
´شکوک و شبہات سے دور رہنے کا بیان۔`
شعبی کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر یہ کہتے سنا، اور انہوں نے اپنی دو انگلیوں سے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3984]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا روز مرہ کے اعمال ان میں کچھ واضح طور پر حلال ہیں جن میں کوئی شک نہیں مثلاً:
روٹی، شہد، اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوئے حلال جانور کا گوشت، جائز ضرورت کے لیے کہیں آنا جانا اور کسی سے بات چیت کرنا وغیرہ۔
کچھ چیزیں اور کا م واضح طور پر حرام ہیں مثلاً خنزیر کا گوشت، شراب، مردار، جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور زنا کرنا وغیرہ۔
بعض چیزیں اور کام ایسے ہیں جن کا حلال یا حرام ہونا واضح نہیں۔
عام لوگ ان مسائل سے واقف نہیں ہوتے۔
علماء ان کا حکم قرآن وحدیث کے الفاظ کے اشارات واقتضاء سے یا قیاس وغیرہ سے معلوم کرتے ہیں۔

(2)
جس چیز کے بارے میں معلوم نہ ہو مسئلہ پوچھنے سے پہلے بھی اس سے پرہیز کرنا بہتر ہے کیونکہ ہوسکتا ہے معاملے کی ایک صورت جائز اور ایک ناجائز ہو، مسئلہ معلوم ہوجانے کے بعد صحیح اور راجح موقف کے مطابق عمل کیا جائے۔

(3)
مشکوک چیز پر عمل کرنے سے گناہ کا اندیشہ تو ہوتا ہی ہے عوام بھی بد ظن ہوتے ہیں۔
انسان کو بلاوجہ ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے وہ بدنام ہوجائے۔

(4)
جس کام سے ممنوع کام تک نوبت پہنچنے کا خطرہ ہواس سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے جیسے غیر محرم کے ساتھ تنہائی میں ملنا اگرچہ پردہ کی پابندی کے ساتھ ہو اس سے خطرہ ہے کہ شیطان گناہ کی خواہش پیدا کردے اور دونوں افراد کبیرہ گناہ میں ملوث ہوجائیں۔

(5)
مثال دے کر سمجھانے سے مسئلہ اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے اور سننے والا اس پر اطمینان اور دل کی آمادگی کے ساتھ عمل کرسکتا ہے۔

(6)
دل کی اصلاح بہت ضروری ہے تاکہ اخلاص یقین اور اللہ کی محبت وغیرہ جیسی صفات حاصل ہوں۔
ان کی وجہ سے نیکی پر عمل کرنا اور اور گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3984   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1266  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور نعمان اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے کانوں کی طرف لے گئے حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی ان دونوں کے درمیان شبہات ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ان کو نہیں جانتی۔ پس جو کوئی شبہات سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پھنس گیا۔ جیسے چرواہا کہ چراگاہ کے گرد مویشی چراتا ہو تو کبھی نہ کبھی مویشی چراگاہ میں چلے جاتے ہیں۔ خبردار! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! حرام چیزیں اللہ کی چراگاہ ہیں۔ خبردار! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1266»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الإيمان، باب فضل من استبرأ لدينه، حديث:52، ومسلم، المساقاة، باب أخذ الحلال وترك الشبهات، حديث:1599.»
تشریح:
1. یہ حدیث اصول اسلام میں سے شمار کی گئی ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ حلال اور حرام چیزیں تو واضح ہیں ان میں کسی قسم کا اشتباہ نہیں ہے‘ البتہ مشتبہات ایسی چیزیں ہیں جن کی حرمت واضح نہیں یا جن کے بارے میں دلائل دونوں جانب تقریباًمساوی ہیں۔
اس قسم کے مسائل سے بچنا چاہیے اور ظن و تخمین سے کام نہیں لینا چاہیے۔
2.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدن کی اصلاح اور اس کے بگاڑ کا انحصار دل پر ہے۔
پورے جسم میں اس کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کی ہے۔
تمام اعضائے بدن اس کی رعیت اور عوام ہیں۔
اگر بادشاہ نیک ہو تو رعایا بھی نیک ہوگی اور اگر وہ برا ہو تو رعایا بھی بری ہوگی۔
3. ائمہ کا اس پر اجماع ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہے جن پر قواعد اسلام کا دار و مدار ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1266   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1205  
´مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1205]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مرادایسے امورومعاملات ہیں جن کی حلت وحرمت سے اکثرلوگ ناواقف ہو تے ہیں،
تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریزکرے،
اور جوشخص حلت وحرمت کی پرواہ کئے بغیران میں ملوث ہوگیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلاہوگیا،
اس میں تجارت اورکاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیارکریں جو واضح طورپر حلال ہوں اورمشتبہ امورومعاملات سے اجتناب کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1205   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2051  
2051. حضرت نعمان بن بشیر ؓسے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ جس شخص نے اس چیز کو ترک کردیا جس میں گناہ کا شبہ ہوتو وہ اس چیز کو بدرجہ اولی چھوڑ دے گا جس کا گناہ ہونا ظاہر ہو اور جس نے شبہ کی چیز پر جرات کی تو وہ جلد ہی ایسی بات میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کاگناہ ہونا ظاہر ہے۔ گناہ (گویا) اللہ کی چراگاہ ہیں، جوانسان اپنے جانور چراگاہ کے اردگرد چرائے گا جلد ہی اس کا چراگاہ میں پہنچنا ممکن ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2051]
حدیث حاشیہ:
(1)
مشتبہ چیزوں سے مراد وہ ہیں جن کی حدیں حلال اور حرام دونوں سے ملتی ہوں۔
اس بنا پر کچھ لوگ ان کی حلت وحرمت کا فیصلہ نہ کرسکیں۔
فی نفسہ وہ چیزیں مشتبہ نہیں ہوتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بھیج کر دین کی ضروریات سے ہمیں آگاہ کردیا ہے۔
پرہیز گاری یہی ہے کہ انسان شکوک وشبہات والی چیزوں سے بھی الگ تھلگ رہے۔
اس حدیث کو اکثر محدثین کتاب البیوع میں بیان کرتے ہیں کیونکہ معاملات میں اکثر اشتباہ پڑجاتا ہے،نیز اس کا تعلق نکاح، شکار، ذبیحہ، کھانے اور پینے سے بھی ہے۔
(2)
اس حدیث میں احکام کی تین اقسام بیان ہوئی ہیں:
٭ جس کے کرنے پر نص اور ترک پر وعید ہو۔
اس کا تعلق حلال بین سے ہے۔
٭جس کے ترک کرنے پر نص اور کرنے پر وعید ہو۔
یہ حرام بین سے متعلق ہے۔
٭جس کے کرنے یا نہ کرنے پر کوئی نص یا وعید نہ ہو۔
اس قسم کو مشتبہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اس کا حلال یا حرام ہونا معلوم نہیں ہوتا۔
ایک مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اگر اس کا تعلق حرام سے ہے تو اس کے ارتکاب سے محفوظ رہے گا اور اگر حلال سے ہے تو بھی حسن نیت کی بنا پر اس کے چھوڑنے سے اجرو ثواب ملے گا۔
(فتح الباری: 369/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2051   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.