الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: لقطہ کے احکام و مسائل
The Chapters on Lost Property
2. بَابُ : اللُّقَطَةِ
2. باب: راستہ سے اٹھائی ہوئی گری پڑی چیز کا بیان۔
حدیث نمبر: 2507
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا ابو بكر الحنفي ، ح وحدثنا حرملة بن يحيى ، حدثنا عبد الله بن وهب ، قالا: حدثنا الضحاك بن عثمان القرشي ، حدثني سالم ابو النضر ، عن بسر بن سعيد ، عن زيد بن خالد الجهني ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن اللقطة؟ فقال:" عرفها سنة، فإن اعترفت فادها فإن لم تعرف فاعرف عفاصها ووعاءها ثم كلها فإن جاء صاحبها فادها إليه".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، ح وَحَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِيُّ ، حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا فَإِنْ لَمْ تُعْرَفْ فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِعَاءَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر کوئی اس کی (پہچان) کر لے تو اسے دے دو، ورنہ اس کی تھیلی اور اس کا بندھن یاد رکھو، پھر اس کو اپنے کھانے میں استعمال کر لو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے ادا کر دو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/اللقطة 1 (1722)، سنن ابی داود/اللقطة 1 (1706)، سنن الترمذی/الأحکام 35 (1372، 1373)، (تحفة الأشراف: 3748)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/116، 5/193) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مکہ میں جو لقطہ (گری پڑی چیز)ملے اس کے مالک کے تلاش کرنے میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ مکہ کا لقطہ جائز نہیں، مگر اس کے لئے جو اس کو دریافت کرے، صحیحین میں انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے راستہ میں ایک کھجور پائی تو فرمایا: اگر مجھ کو یہ ڈر نہ ہوتا کہ شاید یہ صدقہ کی ہو تو میں اسے کھا لیتا، اور احمد و طبرانی اور بیہقی نے یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جس نے رسی یا درہم وغیرہ جیسا حقیر لقطہ اٹھایا تو وہ اس کے بارے میں تین دن تک پوچھے، اگر اس سے زیادہ چاہے تو چھ دن تک پوچھے اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک دینار لائے جس کو انہوں نے بازار میں پایا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: تین دن اس کے مالک کو پوچھتے رہو، انہوں نے پوچھا کوئی مالک نہیں پایا، جو اس کو پہچانے تب نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اب اس کو کھا لو (یعنی خرچ کر لو) اگر لقطہ کھانے کی چیز ہو (جیسے روٹی پھل وغیرہ) تو اس کا پوچھنا ضروری نہیں فوراً اس کا کھا لینا درست ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح البخاري2428زيد بن خالداعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة
   صحيح البخاري91زيد بن خالداعرف وكاءها أو قال وعاءها وعفاصها ثم عرفها سنة ثم استمتع بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الإبل فغضب حتى احمرت وجنتاه أو قال احمر وجهه فقال وما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وترعى الشجر فذرها حتى يلقاها ربها
   صحيح البخاري6112زيد بن خالدعرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إلي ضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه
   صحيح البخاري2372زيد بن خالداعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها
   صحيح البخاري2427زيد بن خالدعرفها سنة ثم احفظ عفاصها ووكاءها فإن جاء أحد يخبرك بها وإلا فاستنفقها ضالة الغنم قال لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فتمعر وجه النبي فقال ما لك ولها معها حذاؤها وسقاؤها ترد الماء وتأكل الشجر
   صحيح البخاري2429زيد بن خالداعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها
   صحيح البخاري2438زيد بن خالدعرفها سنة فإن جاء أحد يخبرك بعفاصها ووكائها وإلا فاستنفق بها ضالة الإبل فتمعر وجهه وقال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر دعها حتى يجدها ربها ضالة الغنم فقال هي لك أو لأخيك أو للذئب
   صحيح البخاري5292زيد بن خالدضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فغضب واحمرت وجنتاه وقال ما لك ولها معها الحذاء والسقاء تشرب الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها اللقطة فقال اعرف وكاءها وعفاصها وعرفها سنة فإن جاء من يعرفها وإلا فاخلطها
   صحيح البخاري2436زيد بن خالدعرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه فضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله
   صحيح مسلم4504زيد بن خالدعرفها سنة فإن لم تعترف فاعرف عفاصها ووكاءها ثم كلها فإن جاء صاحبها فأدها إليه
   صحيح مسلم4498زيد بن خالداعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها ضالة الغنم قال لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يلقاها ربها
   صحيح مسلم4502زيد بن خالداعرف وكاءها وعفاصها ثم عرفها سنة فإن لم تعرف فاستنفقها ولتكن وديعة عندك فإن جاء طالبها يوما من الدهر فأدها إليه ضالة الإبل قال ما لك ولها دعها فإن معها حذاءها وسقاءها ترد الماء وتأكل الشجر حتى يجدها ربها الشاة قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب
   صحيح مسلم4499زيد بن خالدعرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الغنم قال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل قال فغضب رسول الله
   جامع الترمذي1372زيد بن خالدعرفها سنة ثم اعرف وكاءها ووعاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئ فضالة الإبل قال فغضب النبي حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه
   جامع الترمذي1373زيد بن خالدعرفها سنة فإن اعترفت فأدها وإلا فاعرف وعاءها وعفاصها ووكاءها وعددها ثم كلها فإذا جاء صاحبها فأدها
   سنن أبي داود1704زيد بن خالدعرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها ثم استنفق بها فإن جاء ربها فأدها إليه ا ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب ضالة الإبل فغضب رسول الله حتى احمرت وجنتاه أو احمر وجهه وقال ما لك ولها
   سنن أبي داود1706زيد بن خالدعرفها سنة فإن جاء باغيها فأدها إليه وإلا فاعرف عفاصها ووكاءها ثم كلها فإن جاء باغيها فأدها إليه
   سنن ابن ماجه2507زيد بن خالدعرفها سنة فإن اعترفت فأدها فإن لم تعرف فاعرف عفاصها ووعاءها ثم كلها فإن جاء صاحبها فأدها إليه
   سنن ابن ماجه2504زيد بن خالدعن ضالة الغنم فقال خذها فإنما هي لك أو لأخيك أو للذئب وسئل عن اللقطة فقال اعرف عفاصها ووكاءها وعرفها سنة فإن اعترفت وإلا فاخلطها بمالك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم527زيد بن خالداعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها
   بلوغ المرام800زيد بن خالد اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة فإن جاء صاحبها وإلا فشأنك بها
   مسندالحميدي835زيد بن خالدأعرف عفاصها ووعاءها ثم عرفها سنة، فإن اعترفت وإلا فاخلطها بمالك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 527  
´گمشدہ چیز ملنے پر ایک سال تک اعلان کرنا`
«. . . عن زيد بن خالد الجهني انه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله عن اللقطة، فقال: اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها . . .»
. . . سیدنا زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور لقطے (گمشدہ چیز) کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی تھیلی وغیرہ اور اس کے بندھے ہوئے دھاگے کو (اچھی طرح) پہچان لو، پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 527]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2429، و مسلم 1722، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اگر کسی شخص کو کوئی گمشدہ چیز ملے جو معمولی نہ ہو تو اسے ایک سال تک اعلان کرنا چاہئے۔ اس چیز کے اصل مالک کی ملکیت کبھی زائل نہیں ہوتی اور نہ اسکی اجازت کے بغیر اس کا صدقہ جائز ہے اگر کوئی شخص اس چیز کو خود استعمال کر لے یا صدقہ کر دے اور کئی سالوں کے بعد اس کا مالک آجائے تو یہ چیز اسے واپس کرنا ضروری ہے۔
➋ عبداللہ بن بدر الجہنی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انھیں شام کے راستے میں ایک تھیلی ملی جس میں اَسی دینار تھے تو انہوں نے (سیدنا) عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) سے اس کا ذکر کیا۔ عمر (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: مسجدوں کے دروازوں پر اس کا اعلان کرو اور جو بھی شام سے آئے تو ایک سال تک اُسے بتاتے رہو پھر جب سال گزر جائے تو تم اسے استعمال کر سکتے ہو۔ [موطأ امام مالك 2/757، 758 ح1521، وهو صحيح]
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے کہا: جسے کوئی گمشدہ چیز ملی تھی اس کا اعلان کرتے رہو۔ اس نے کہا: میں نے کر دیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: میں تجھے اس کے کھانے کا حکم نہیں دیتا، اگر تم چاہتے تو اسے نہ اٹھاتے۔ [مؤطآ امام مالك 758/2 ح1522، و سنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 163   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 91  
´شاگردوں کے نامناسب سوالات پر استاد کی خفگی بجا تسلیم کی جائے گی`
«. . . قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟ فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ . . .»
. . . اس نے پوچھا کہ اچھا گم شدہ اونٹ (کے بارے میں) کیا حکم ہے؟ آپ کو اس قدر غصہ آ گیا کہ رخسار مبارک سرخ ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 91]

تشریح:
گری پڑی چیز کو لقطہ کہتے ہیں۔ اس حدیث میں اسی کا حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غصے کا سبب یہ ہوا کہ اونٹ کے بارے میں سوال ہی بےکار تھا۔ جب کہ وہ تلف ہونے والا جانور نہیں۔ وہ جنگل میں اپنا چارہ پانی خود تلاش کر لیتا ہے، پھر اس کا پکڑنا بے کار ہے۔ خود اس کا مالک ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس تک پہنچ جائے گا، ہاں بکری کے تلف ہونے کا فوری خطرہ ہے لہٰذا اسے پکڑ لینا چاہئیے۔ پھر مالک آئے تو اس کے حوالہ کر دے۔ معلوم ہوا کہ شاگردوں کے نامناسب سوالات پر استاد کی خفگی بجا تسلیم کی جائے گی۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگردوں کو سوال کرنے سے پہلے خود سوال کی اہمیت پر بھی غور کر لینا ضروری ہے۔ اونٹ سے متعلق آپ کا جواب اس زمانہ کے ماحول کے پیش نظر تھا مگر آج کل کا ماحول ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 91   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5292  
´جو شخص گم ہو جائے اس کے گھر والوں اور جائیداد میں کیا عمل ہو گا`
«. . . عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْغَنَمِ؟ فَقَالَ: خُذْهَا، فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، وَسُئِلَ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ، فَغَضِبَ وَاحْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ، وَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا الْحِذَاءُ وَالسِّقَاءُ تَشْرَبُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا، وَسُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ: اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا وَعَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ مَنْ يَعْرِفُهَا وَإِلَّا فَاخْلِطْهَا بِمَالِكَ . . .»
. . . یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے منبعث کے مولیٰ یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئی ہوئی بکری کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے پکڑ لو، کیونکہ یا وہ تمہاری ہو گی (اگر ایک سال تک اعلان کے بعد اس کا مالک نہ ملا)۔ تمہارے کسی بھائی کی ہو گی یا پھر بھیڑیے کی ہو گی (اگر انہی جنگلوں میں پھرتی رہی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھوئے ہوئے اونٹ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ غصہ ہو گئے اور غصہ کی وجہ سے آپ کے دونوں رخسار سرخ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں اس سے کیا غرض! اس کے پاس (مضبوط) کھر ہیں (جس کی وجہ سے چلنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہو گی) اس کے پاس مشکیزہ ہے جس سے وہ پانی پیتا رہے گا اور درخت کے پتے کھاتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پالے گا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رسی کا (جس سے وہ بندھا ہو) اور اس کے ظرف کا (جس میں وہ رکھا ہو) اعلان کرو اور اس کا ایک سال تک اعلان کرو، پھر اگر کوئی ایسا شخص آ جائے جو اسے پہچانتا ہو (اور اس کا مالک ہو تو اسے دے دو) ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطَّلَاقِ: 5292]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5292 کا باب: «بَابُ حُكْمِ الْمَفْقُودِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب تین آثار ذکر فرمائے:
➊ پہلا اثر ذکر فرمایا ہے، ابن المسیب سے،
➋ دوسرا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے،
➌ اور تیسرا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔
ان تینوں کی مناسبت ترجمۃ الباب سے ظاہر ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ مفقود کے لئے ایک سال کی عدت کے قائل ہیں، لیکن تحت الباب جو حدیث نقل کی ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں مفقود خاوند کا ذکر نہیں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اہل اور مال میں فرق کرنا چاہتے ہوں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ اور غنم دونوں کے گم ہونے کی صورت میں الگ الگ حکم نافذ فرمایا ہے، چنانچہ امام قسطلانی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«مطابقة الحديث للترجمة من جهة أن الضالة كالمفقود فكما لم يزل ملك المالك فيها فكذلك يجب أن يكون النكاح باقياً بينهما.»
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مطابقت اس طرح ہے کہ گم شدہ چیز مفقود کا حکم رکھتی ہے، جس طرح گمشدہ ہمیشہ اپنے مالک کی ملکیت میں رہتی ہے، بعین اسی طرح سے مفقود شخص کا نکاح اس کی بیوی سے قائم رہتا ہے۔ (جب تک کہ اس کے خاوند کے بارے میں کوئی حتمی خبر نہ مل جائے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تفصیلا مندرجہ بالا حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وأراد المصنف بذكره ههنا الاشارة الي ان التصرف فى مال الغير اذا غاب جائز ما لم يكن المال مما لا يخشي ضياعه كما دل عليه التفصيل بين الابل و الغنم.»
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث کو ذکر کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ غیر کے مال میں تصرف اس وقت جائز ہے جب کہ وہ غائب ہو جائے اور جب تک کہ مال اس کا ضائع ہونے کا خوف ہو، جیسا کہ اس پر دلالت کرتی ہے، اونٹ اور غنم کے درمیان کی تفصیل۔

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے قول سے یہ با ت واضح ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اونٹ اور غنم کی حدیث تحت الباب کیوں پیش فرمائی؟ دراصل اس جگہ پر یہ نقطہ بتلانا چاہتے ہیں کہ جس طرح غنم اگر کھو جائے تو جیسے ملے وہ اپنے استعمال میں لے لے، یعنی وہ عورت جس کا خاوند گم ہو گیا ہے اور وہ لاپتہ ہے تو عورت اپنی عدت کے بعد نکاح کر سکتی ہے، ایسی عورت کے لئے غنم کا معاملہ پیش فرمایا ہے اور وہ عورت جس کا خاوند لاپتہ ہو اور اس کی خبر بعد میں مل جائے اور وہ عورت ضائع ہونے کا اپنے تئیں خوف نہ کرے تو اس پر اونٹ کا سا حکم ہو گا، کیونکہ خاوند کے آنے کے بعد وہ اسی کے نکاح میں ہو گی،

چنانچہ ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
جب آثار احادیث کے معارض ہوں تو اس سلسلے میں مرفوع حدیث پر عمل واجب ہو گا، لہٰذا حدیث میں گمشدہ بکری کے تصرف کو جائز قرار دیا گیا ہے، اس وقت کہ جب اس کے مالک کی موت تحقیق ہو، الحاق ہو گا، کل مفقود کے ساتھ باوجود اس کے کہ گمشدہ اونٹ کو نہیں پکڑنا چاہیے کیونکہ وہ اپنا کام خود کرتا ہے، پس تقاضا کیا تاکہ اسی طرح مرد تو گم ہو گیا ہے اس کی بیوی کے ساتھ بھی نکاح نہ کیا جائے یہاں تک کہ اس کی موت کی خبر موصول نہ ہو جائے، پس ضابطہ یہ ہے ہر وہ شیئ جس کے ضائع ہونے کا خوف ہو تو اس کا تصرف جائز ہو گا۔
لہٰذا خلاصہ کلام یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں اشارہ یہ ہے کہ مفقود کے مال کا حکم تو غنم والا ہو گا اور اہل کا حکم ابل والا ہو گا، اس لئے کہ جس طریقے سے غنم غیر مستقل ہے اس کے ضیاع کا اندیشہ بھی ہوتا ہے، اسی طرح مال کے ضیاع کا بھی اندیشہ ہوتا ہے، لہٰذا ایک سال کے بعد اس کو تقسیم کر دیا جائے گا اور جیسے ابل مستقل ہے اور اس کے ضیاع کا کوئی اندیشہ نہیں ہوتا وہ اپنی خوراک وغیرہ کا خود انتظام کر لیتا ہے، بعین اسی طرح ابل کے بارے میں بھی ضیاع کا اندیشہ نہیں ہے تو اس کو ابل کے ساتھ ملحق کیا جائے گا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 108   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2504  
´گم شدہ اونٹ، گائے اور بکری کے لقطہٰ کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ اونٹ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ غضب ناک ہو گئے، اور غصے سے آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور فرمایا: تم کو اس سے کیا سروکار، اس کے ساتھ اس کا جوتا اور مشکیزہ ہے، وہ خود پانی پر جا سکتا ہے اور درخت سے کھا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لیتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گمشدہ بکری کے بارے پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو لے لو اس لیے کہ وہ یا تو تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا بھیڑیئے کی ۱؎ پھر آپ سے گری پڑی چیز کے متعلق پوچھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب اللقطة/حدیث: 2504]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گم شدہ اونٹ کو قبضے میں لینا جائز نہیں کیونکہ وہ اپنی حفاظت اوردیکھ بھال کےلیے کسی کا محتاج نہیں۔

(2)
اس کے پاس اس کے جوتے موجود ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بلا خوف وخطر لمبا فاصلہ طے کر سکتا ہے اس لیے ممکن ہے کہ خود ہی چل کراپنے مالک کے پاس پہنچ جائے یا مالک اسے تلاش کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

(3)
اس کی مشک اس کے پاس ہے یعنی اس کا معدہ پانی کوذخیرہ کرلیتا ہے جب کبھی کسی چشمے پرپہنچے گا تو پانی سے پیٹ بھر لے گا اسے پانی پینے کےلیے مالک کی ضرورت نہیں۔

(4)
بکر ی اپنی حفاظت نہیں کر سکتی اگر تم اسے نہیں پکڑو گے تو کوئی اور پکڑ لے گا اگر کسی نے نہ پکڑا تو بھیڑیا کھا جائے گا اس لیے گم شدہ بکری نظر آ جائے تو اسے پکڑ لو تاکہ بھیڑیے سے محفوظ رہے۔
اور ممکن ہے کبھی اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دی جائے۔

(5)
لقطہ (گری پڑی چیز)
سے مراد وہ قیمتی چیز ہے جومالک سے اس کی غفلت کی وجہ سے کہیں گر جائے مثلاً نقد رقم یا ہاتھ کی گھڑی وغیرہ۔
ایسی معمولی چیز جس کے گم ہو جانے کی پروا نہیں کی جاتی وہ جسے ملے لے سکتا ہے۔

(6)
عفاص سے مراد وہ تھیلی، بٹوہ اور پرس وغیرہ ہے جس میں نقد رقم رکھی جاتی ہے۔
وکاء سے مراد وہ ڈوری یا ستلی وغیرہ ہے جس سے تھیلی کا منہ باندھا جاتا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ اس چیز کی علامتیں یاد رکھی جائیں جو شخص تلاش کرتا ہوا آئے اگر وہ صحیح نشانیاں بتا دے کہ اس قسم کا بٹوا ہے فلاں رنگ اورفلاں ڈیزائن ہے اس میں تقریبا اتنی رقم ہے جس میں سے اتنی رقم بڑے نوٹوں کی صورت میں ہے توایسی علامتیں بتانےسے یقین ہوجاتا ہے کہ یہ گم شدہ چیز اسی کی ہے لہٰذا وہ چیز اسے واپس کر دینی چاہیے۔

(7)
ایک سال تک مناسب حد تک مالک کی تلاش کے بعد اعلان کا فرض ادا ہو جاتا ہے۔
اب جسے وہ چیز ملی ہے اسے استعمال کر سکتا ہے تاہم اگر بعد میں بھی مالک آ جائے تو ویسی چیز یا اس کا بدل ادا کر دینا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2504   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 800  
´لقطہٰ (گری پڑی چیز) کا بیان`
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا ڈاٹ اور تسمہ خوب پہچان کے رکھو۔ سال بھر اس کا اعلان کرتے رہو۔ پھر اگر اس کا اصل مالک آ جائے تو اس کے سپرد کر دو ورنہ جو چاہو کرو۔ پھر اس نے گمشدہ بکریوں کے بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تیری ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑئیے کی۔ پھر اس نے گمشدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے اس سے کیا سروکار؟ اس کا پانی، اس کے جوتے اس کے پاس ہیں۔ گھاٹ پر آ کے پانی پی لے گا، درختوں کے پتے کھا لے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اس کے پاس پہنچ جائے گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 800»
تخریج:
«أخرجه البخاري، اللقطة، باب ضالة الإبل، حديث:2427، ومسلم، اللقطة، باب معرفة العفاص والوكاء....، حديث:1722.»
تشریح:
راویٔ حدیث:
«حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابو عبدالرحمن یا ابو طلحہ تھی۔
مدینہ میں رہنے کی وجہ سے مدنی کہلائے۔
اکابر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
فتح مکہ کے موقع پر بنو جہینہ کا جھنڈا انھی کے ہاتھ میں تھا۔
کوفہ چلے آئے اور وہیں ۶۸ یا ۷۸ ہجری کو ۸۵ سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 800   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1372  
´گری پڑی چیز اور گمشدہ اونٹ اور بکری کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ (گری پڑی چیز) کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: سال بھر تک اس کی پہچان کراؤ، پھر اس کا سر بند، اس کا برتن اور اس کی تھیلی پہچان لو، پھر اسے خرچ کر لو اور اگر اس کا مالک آ جائے تو اُسے ادا کر دو، اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: اسے پکڑ کر باندھ لو، کیونکہ وہ تمہارے لیے ہے، یا تمہارے بھائی کے لیے، یا بھیڑیئے کے لیے۔‏‏‏‏ اس آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ اس پر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1372]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جوتے سے مراد اونٹ کا پاؤں ہے اورمشکیزہ سے اس کا پیٹ جس میں وہ کئی دن کی ضرورت کا پانی ایک ساتھ بھرلیتا ہے اور باربارپانی پینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا،
اسے بکری کی طرح بھیڑیے وغیرہ کا خوف نہیں وہ خود اپنا دفاع کرلیتا ہے اس لیے اسے پکڑکرباندھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1372   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1706  
´لقطہٰ کی پہچان کرانے کا بیان۔`
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: تم ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، اگر اس کا ڈھونڈنے والا آ جائے تو اسے اس کے حوالہ کر دو ورنہ اس کی تھیلی اور سر بندھن کی پہچان رکھو اور پھر اسے کھا جاؤ، اب اگر اس کا ڈھونڈھنے والا آ جائے تو اسے (اس کی قیمت) ادا کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب اللقطة /حدیث: 1706]
1706. اردو حاشیہ: یہ حکم گری پڑی چیز اٹھانے کے علاوہ بکری جیسے جانور کے بارے میں بھی ہے کہ اگر اسے کھا لیا گیا ہوتو اس کا مالک آنے پر اس کی قیمت یا بدل دینا واجب ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1706   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.