الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
Chapters on Hajj Rituals
41. بَابُ : فَسْخِ الْحَجِّ
41. باب: حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2982
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن الصباح ، حدثنا ابو بكر بن عياش ، عن ابي إسحاق ، عن البراء بن عازب ، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه فاحرمنا بالحج، فلما قدمنا مكة، قال:" اجعلوا حجتكم عمرة"، فقال الناس: يا رسول الله، قد احرمنا بالحج، فكيف نجعلها عمرة؟، قال:" انظروا ما آمركم به، فافعلوا"، فردوا عليه القول، فغضب فانطلق، ثم دخل على عائشة غضبان، فرات الغضب في وجهه، فقالت: من اغضبك، اغضبه الله؟، قال:" وما لي لا اغضب، وانا آمر امرا فلا اتبع".
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ، قَالَ:" اجْعَلُوا حِجَّتَكُمْ عُمْرَةً"، فَقَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً؟، قَالَ:" انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، فَافْعَلُوا"، فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ، فَغَضِبَ فَانْطَلَقَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ، فَرَأَتِ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَتْ: مَنْ أَغْضَبَكَ، أَغْضَبَهُ اللَّهُ؟، قَالَ:" وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ، وَأَنَا آمُرُ أَمْرًا فَلَا أُتْبَعُ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام باندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے حج کو عمرہ کر دو، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو، لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے تو بولیں: کس نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ اللہ اسے ناراض کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کیوں کر غصہ نہ کروں جب کہ میں ایک کام کا حکم دیتا ہوں اور میری بات نہیں مانی جاتی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1907، ومصباح الزجاجة: 1046)، وقد أخرجہ: (4/286) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (ابو بکر بن عیاش بڑھاپے کی وجہ سے سئی الحفظ (حافظہ کے کمزور) ہو گئے تھے، اور ابو اسحاق اختلاط کا شکار تھے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 4753)

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سن کر اس پر عمل کرنے میں صرف اس خیال سے دیر کرے کہ یہ حدیث اس کے ملک کے رسم و رواج کے خلاف ہے، یا اس کے ملک یا قوم کے یا مذہب کے عالموں اور درویشوں یا اگلے بزرگوں نے اس پرعمل نہیں کیا، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلاتا اور آپ کو ناراض کرتا ہے، اور جو اللہ تعالی کے رسول کو غصہ دلائے اور اس کو ناراض کرے اس کا ٹھکانا کہیں نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: مومن کا کام یہ ہے کہ اس کو سنتے ہی جان و دل سے قبول کرے، اور فوراً اس پر عمل کرے، اگر چہ تمام جہاں کے مولوی، ملا، درویش، پیر، مرشد، عالم اور مجتہد اس کے خلاف ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل کرنے میں دل نہایت خوش اور ہشاش بشاش ہو اور ذرا بھی کدورت اورتنگی نہ ہو بلکہ اپنے کو بڑا خوش قسمت سمجھے کہ اس کو حدیث رسول پر عمل کرنے کی توفیق ہوئی۔ اگر ایسا نہ کرے یعنی عمل ہی نہ کرے یا عمل تو کرے مگر ذرا لیت ولعل یا اداسی کے ساتھ اس خیال سے کہ درویش اور مولوی اس کے خلاف ہیں، آخر ان لوگوں کا بھی کچھ درجہ اور مقام ہے، اور کچھ سمجھ کر ہی ان لوگوں نے حدیث کے خلاف کیا ہو گا؟ تو جان لینا چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض ہیں، اور ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ناراض ہو گئے اور بالفرض سارے زمانے کے مولوی یا درویش ہم سے خوش بھی ہوئے تو ہم ان کی خوشی کو کیا کریں گے، وہ خوش ہوں یا ناخوش ہوں ہمارے آقا، ہمارے مولیٰ ہمارے رسول ہم سے خوش رہیں تو ہمارا بیڑا پار ہے، یااللہ مرتے ہی ہمیں ہمارے رسول اور آل و اصحاب رسول سے ملا دے، ہم دنیا میں بھی ان ہی کے پیرو تھے، عالم برزخ اور آخرت میں بھی ان ہی کی جوتیوں کے پاس رہنا چاہتے ہیں، نہ دنیا میں ہم کو کسی سے مطلب تھا، نہ عقبیٰ (آخرت) میں ہمیں کسی اور کا ساتھ چاہئے۔ اگرجنت میں جانے کا ارادہ ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا پٹہ گردن میں پہن لو۔ مسلک سنت پہ سالک تو چلا چل بے ڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو إسحاق عنعن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 484
   سنن ابن ماجه2982براء بن عازباجعلوا حجتكم عمرة فقال الناس يا رسول الله قد أحرمنا بالحج فكيف نجعلها عمرة انظروا ما آمركم به فافعلوا فردوا عليه القول فغضب فانطلق ما لي لا أغضب وأنا آمر أمرا فلا أتبع
   سنن النسائى الصغرى2726براء بن عازبلفعلت كما فعلتم ولكني سقت الهدي وقرنت
   سنن النسائى الصغرى2746براء بن عازبسقت الهدي وقرنت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2982  
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام باندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے حج کو عمرہ کر دو، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو، لوگوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، انہوں نے آپ کے چہرے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2982]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت محققین کے نزدیک ضعیف ہے تاہم اگر کسی دوسری سند سے یہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اشکال پیدا ہوگا۔
کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے براہ راست حکم سن کر بھی تعمیل کیوں نہ کی؟اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کو احرام کی حالت میں دیکھا تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ رسول اللہﷺ کی طرح احرام میں رہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ اتباع ہوسکے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے دوبارہ وہی بات اس لیے عرض کی کہ شاید رسول اللہ ﷺ انھیں احرام نہ کھولنے کی اجازت دے دیں ورنہ ان سے حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2982   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.