الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
Chapters on Tribulations
12. بَابُ : كَفِّ اللِّسَانِ فِي الْفِتْنَةِ
12. باب: فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3969
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة , حدثنا محمد بن بشر , حدثنا محمد بن عمرو , حدثني ابي , عن ابيه علقمة بن وقاص , قال: مر به رجل له شرف , فقال له علقمة: إن لك رحما وإن لك حقا , وإني رايتك تدخل على هؤلاء الامراء , وتتكلم عندهم بما شاء الله ان تتكلم به , وإني سمعت بلال بن الحارث المزني صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن احدكم ليتكلم بالكلمة من رضوان الله , ما يظن ان تبلغ ما بلغت , فيكتب الله عز وجل له بها رضوانه إلى يوم القيامة , وإن احدكم ليتكلم بالكلمة من سخط الله , ما يظن ان تبلغ ما بلغت , فيكتب الله عز وجل عليه بها سخطه إلى يوم يلقاه" , قال علقمة: فانظر ويحك ماذا تقول , وماذا تكلم به , فرب كلام قد منعني ان اتكلم به , ما سمعت من بلال بن الحارث.
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ أَبِيهِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ , قَالَ: مَرَّ بِهِ رَجُلٌ لَهُ شَرَفٌ , فَقَالَ لَهُ عَلْقَمَةُ: إِنَّ لَكَ رَحِمًا وَإِنَّ لَكَ حَقًّا , وَإِنِّي رَأَيْتُكَ تَدْخُلُ عَلَى هَؤُلَاءِ الْأُمَرَاءِ , وَتَتَكَلَّمُ عِنْدَهُمْ بِمَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَتَكَلَّمَ بِهِ , وَإِنِّي سَمِعْتُ بِلَالَ بْنَ الْحَارِثِ الْمُزَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ , مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ , فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا رِضْوَانَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سُخْطِ اللَّهِ , مَا يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ , فَيَكْتُبُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ بِهَا سُخْطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ" , قَالَ عَلْقَمَةُ: فَانْظُرْ وَيْحَكَ مَاذَا تَقُولُ , وَمَاذَا تَكَلَّمُ بِهِ , فَرُبَّ كَلَامٍ قَدْ مَنَعَنِي أَنْ أَتَكَلَّمَ بِهِ , مَا سَمِعْتُ مِنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ.
علقمہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سے ایک معزز شخص کا گزر ہوا، تو انہوں نے اس سے عرض کیا: آپ کا مجھ سے (دہرا رشتہ ہے) ایک تو قرابت کا، دوسرے مسلمان ہونے کا، میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ان امراء کے پاس آتے جاتے اور ان سے حسب منشا باتیں کرتے ہیں، میں نے صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کا اثر کیا ہو گا، لیکن اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے حق میں قیامت تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہوتی ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کا کیا اثر ہو گا، لیکن اللہ تعالیٰ اس کے حق میں اپنی ناراضگی اس دن تک کے لیے لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا۔ علقمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: دیکھو افسوس ہے تم پر! تم کیا کہتے اور کیا بولتے ہو، بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کی حدیث نے بعض باتوں کے کہنے سے مجھے روک دیا ہے، خاموش ہو جاتا ہوں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2028، ومصباح الزجاجة: 1398)، وقد أخر جہ: سنن الترمذی/الزہد 12 (2319)، موطا امام مالک/الکلام 2 (5)، مسند احمد (3/469) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: علقمہ رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ تھا کہ بات کہنے میں احتیاط اور غور لازم ہے، یہ نہیں کہ جو منہ میں آیا کہہ دیا، غیر محتاط لوگوں کی زبان سے اکثر ایسی بات نکل جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوتی ہے، پس وہ ایک بات کی وجہ سے جہنمی ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
   جامع الترمذي2319بلال بن الحارثأحدكم ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ما يظن أن تبلغ ما بلغت فيكتب الله له بها رضوانه إلى يوم يلقاه أحدكم ليتكلم بالكلمة من سخط الله ما يظن أن تبلغ ما بلغت فيكتب الله عليه بها سخطه إلى يوم يلقاه
   سنن ابن ماجه3969بلال بن الحارثأحدكم ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ما يظن أن تبلغ ما بلغت فيكتب الله له بها رضوانه إلى يوم القيامة أحدكم ليتكلم بالكلمة من سخط الله ما يظن أن تبلغ ما بلغت فيكتب الله عليه بها سخطه إلى يوم يلقاه
   المعجم الصغير للطبراني1010بلال بن الحارثالرجل ليلقي الكلمة من رضوان الله ما يلقي لها بالا فيكتب بها من أهل رضوان الله إلى يوم القيامة الرجل ليلقي الكلمة من سخط الله ما يلقي لها بالا فيكتب بها من أهل سخط الله إلى يوم القيامة
   مسندالحميدي935بلال بن الحارثالرجل ليتكلم بالكلمة من سخط الله ما يظن أن تبلغ ما تبلغ، فيكتب الله بها سخطه إلى يوم القيامة، وإن الرجل ليتكلم بالكلمة من رضوان الله ما يظن أن تبلغ ما بلغت، فيكتب الله بها رضاه إلى يوم القيامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3969  
´فتنہ میں زبان بند رکھنے کا بیان۔`
علقمہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے سامنے سے ایک معزز شخص کا گزر ہوا، تو انہوں نے اس سے عرض کیا: آپ کا مجھ سے (دہرا رشتہ ہے) ایک تو قرابت کا، دوسرے مسلمان ہونے کا، میں آپ کو دیکھتا ہوں کہ آپ ان امراء کے پاس آتے جاتے اور ان سے حسب منشا باتیں کرتے ہیں، میں نے صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسی بات بولتا ہے جس سے اللہ خوش ہوتا ہے، اور اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس بات کا اثر کیا ہو گا، لیکن اس بات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے حق میں قیامت تک کے لیے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3969]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حکمرانوں سے تعلق رکھنے میں خطرہ ہے کہ ان کے غلط کاموں یا غلط باتوں کی تائید کرنی پڑے گی اس لیے احتیاط پسند بزرگ حکومتی عہدیداروں سے زیادہ میل جول پسند نہیں فرماتے۔
لیکن اگر کسی ضرورت مند یا مظلوم کی مدد کےلیے یا ان کی کسی غلطی پر تنبیہ کرنے کے لیے ان کے پاس جائیں توحرج نہیں۔

(2)
حکمران اپنے مشیروں سے متاثر ہوتے ہیں اس لیے انھیں غلط مشورہ دینے والا بہت بڑا مجرم ہے اور ان کے غلط اقدام میں شریک ہے۔

(3)
بعض اوقات ظاہری طور پر معمولی سمجھی جانے والی بات بہت دوررس اثرات رکھتی ہے، اس لیے معاشرے میں اہم مقام رکھنے والوں کو بہت مقام رکھنے والوں کو بہت احتیاط سے بات کرنی چاہیے۔

(4)
سیاست دان ہوں یا علماء یا افسران ان کی ذمہ داری بہت نازک ہے۔
اس کااحساس رہنا چاہیے۔

(5)
علمائے کرام کو چاہیے کہ جب حکومتی عہدے دار ان سے مشورے طلب کریں تو انھیں صحیح مشورہ دیں اور جب نصیحت کی درخواست کریں تو انھیں اللہ کی رضا کے لیے ایسی نصیحت کریں جس سے عام مسلمان کو فائدہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3969   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2319  
´کم بولنے کی خوبی کا بیان۔`
صحابی رسول بلال بن حارث مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: تم میں سے کوئی اللہ کی رضا مندی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں وہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے اس کا مرتبہ کہاں تک پہنچے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن تک کے لیے اپنی خوشنودی اور رضا مندی لکھ دیتا ہے جس دن وہ اس سے ملے گا، اور تم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی ایسی بات کہتا ہے جس کے بارے میں اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ اس کی وجہ سے اس کا وبال کہاں تک پہنچے گا جب کہ اللہ اس کی اس بات کی وجہ سے اس کے حق میں اس دن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2319]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فضول باتوں سے پرہیزکرنا چاہئے،
اور کوشش کرنی چاہئے کہ حسب ضرورت مفید اورسچ بات زبان سے نکلے،
بات کرتے وقت رضائے الٰہی پیش نظررہے،
کیونکہ وہ بات جو جھوٹ اورفضول ہوگی وہ اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2319   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.