الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Times (of Prayer)
15. بَابُ : آخِرِ وَقْتِ الْمَغْرِبِ
15. باب: مغرب کے اخیر وقت کا بیان۔
Chapter: The End Of The Time For Maghrib
حدیث نمبر: 525
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا زيد بن الحباب، قال: حدثنا خارجة بن عبد الله بن سليمان بن زيد بن ثابت، قال: حدثني الحسين بن بشير بن سلام، عن ابيه، قال: دخلت انا ومحمد بن علي، على جابر بن عبد الله الانصاري، فقلنا له: اخبرنا عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم وذاك زمن الحجاج بن يوسف، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم" فصلى الظهر حين زالت الشمس وكان الفيء قدر الشراك، ثم صلى العصر حين كان الفيء قدر الشراك وظل الرجل، ثم صلى المغرب حين غابت الشمس، ثم صلى العشاء حين غاب الشفق، ثم صلى الفجر حين طلع الفجر، ثم صلى من الغد الظهر حين كان الظل طول الرجل، ثم صلى العصر حين كان ظل الرجل مثليه قدر ما يسير الراكب سير العنق إلى ذي الحليفة، ثم صلى المغرب حين غابت الشمس، ثم صلى العشاء إلى ثلث الليل او نصف الليل شك زيد، ثم صلى الفجر فاسفر".
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قال: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قال: حَدَّثَنَا خَارِجَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قال: حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ بَشِيرِ بْنِ سَلَّامٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: دَخَلْتُ أَنَا وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، فَقُلْنَا لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَاكَ زَمَنَ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَصَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ وَكَانَ الْفَيْءُ قَدْرَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ الْفَيْءُ قَدْرَ الشِّرَاكِ وَظِلِّ الرَّجُلِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْغَدِ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ الظِّلُّ طُولَ الرَّجُلِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ الرَّجُلِ مِثْلَيْهِ قَدْرَ مَا يَسِيرُ الرَّاكِبُ سَيْرَ الْعَنَقِ إِلَى ذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ غَابَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَاءَ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفِ اللَّيْلِ شَكَّ زَيْدٌ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ فَأَسْفَرَ".
بشیر بن سلام کہتے ہیں کہ میں اور محمد بن علی دونوں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور ان سے ہم نے کہا: ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے متعلق بتائیے (یہ حجاج بن یوسف کا عہد تھا) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ نے ظہر پڑھائی جس وقت سورج ڈھل گیا، اور «فىء» (زوال کے بعد کا سایہ) تسمے کے برابر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی جس وقت «فىء» تسمے کے اور آدمی کے سایہ کے برابر ہو گیا، پھر آپ نے مغرب پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی جس وقت فجر طلوع ہو گئی، پھر دوسرے دن آپ نے ظہر پڑھائی جب سایہ آدمی کی لمبائی کے برابر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی جب آدمی کا سایہ اس کے دوگنا ہو گیا، اور اس قدر دن تھا جس میں سوار متوسط رفتار میں ذوالحلیفہ تک جا سکتا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھائی جس وقت سورج ڈوب گیا، پھر تہائی رات یا آدھی رات کو عشاء پڑھائی (یہ شک زید کو ہوا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھائی تو آپ نے خوب اجالا کر دیا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2217) (صحیح) بما تقدم برقم: 505 وما یأتی بأرقام 527، 528 (اس کے راوی ’’حسین‘‘ لین الحدیث ہیں، لیکن متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، الحسين بن بشير بن سلام الأنصاري مجهول الحال،ذكره ابن حبان وحده فى الثقات (6/ 206) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 324
   صحيح البخاري565جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس حية المغرب إذا وجبت العشاء إذا كثر الناس عجل وإذا قلوا أخر الصبح بغلس
   صحيح البخاري560جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس نقية المغرب إذا وجبت العشاء أحيانا وأحيانا إذا رآهم اجتمعوا عجل وإذا رآهم أبطوا أخر الصبح يصليها بغلس
   صحيح مسلم1460جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس نقية المغرب إذا وجبت العشاء أحيانا يؤخرها وأحيانا يعجل كان إذا رآهم قد اجتمعوا عجل وإذا رآهم قد أبطئوا أخر الصبح وكان يصليها بغلس
   سنن أبي داود397جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس حية المغرب إذا غربت الشمس العشاء إذا كثر الناس عجل إذا قلوا أخر الصبح بغلس
   سنن النسائى الصغرى605جابر بن عبد اللهأقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا
   سنن النسائى الصغرى514جابر بن عبد اللهيعلمه مواقيت الصلاة فتقدم جبريل ورسول الله خلفه والناس خلف رسول الله فصلى الظهر حين زالت الشمس
   سنن النسائى الصغرى656جابر بن عبد اللهأقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا
   سنن النسائى الصغرى528جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس بيضاء نقية المغرب إذا وجبت الشمس العشاء أحيانا كان إذا رآهم قد اجتمعوا عجل وإذا رآهم قد أبطئوا أخر
   سنن النسائى الصغرى525جابر بن عبد اللهصلى الظهر حين زالت الشمس كان الفيء قدر الشراك صلى العصر حين كان الفيء قدر الشراك وظل الرجل صلى المغرب حين غابت الشمس صلى العشاء حين غاب الشفق صلى الفجر حين طلع الفجر
   سنن النسائى الصغرى505جابر بن عبد اللهصل معي فصلى الظهر حين زاغت الشمس العصر حين كان فيء كل شيء مثله المغرب حين غابت الشمس العشاء حين غاب الشفق قال ثم صلى الظهر حين كان فيء الإنسان مثله العصر حين كان فيء الإنسان مثليه المغرب حين كان قبيل غيبوبة الشفق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 397  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات نماز کا بیان اور آپ نماز کیسے پڑھتے تھے؟`
محمد بن عمرو سے روایت ہے (اور وہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے لڑکے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جابر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اوقات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے تھے، عصر ایسے وقت پڑھتے کہ سورج زندہ رہتا، مغرب سورج ڈوب جانے پر پڑھتے، اور عشاء اس وقت جلدی ادا کرتے جب آدمی زیادہ ہوتے، اور جب کم ہوتے تو دیر سے پڑھتے، اور فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 397]
397۔ اردو حاشیہ:
اہل بیت نبوی ہم تمام مسلمانوں کے محبو ب و مکرم افراد ہیں، ان پر اللہ کی بےحد و بےشمار رحمتیں ہوں، ان کا خاندان کرہ ارضی پر بےمثل و بےمثال خاندان ہے، ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اسوہ رسول کے حامل اور مبلغ تھے جیسے کہ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے جناب محمد بن عمرو  رحمہ اللہ نے نقل کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 397   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 505  
´عصر کے اول وقت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: تم میرے ساتھ نماز پڑھو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا، اور مغرب اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی، پھر (دوسرے دن) ظہر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے برابر ہو گیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے قد کے دوگنا ہو گیا، اور مغرب شفق غائب ہونے سے کچھ پہلے پڑھائی۔ عبداللہ بن حارث کہتے ہیں: پھر انہوں نے عشاء کے سلسلہ میں کہا: میرا خیال ہے اس کا وقت تہائی رات تک ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 505]
505 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں فجر کے سوا باقی نمازوں کے اول اور آخر اوقات بیان کر دیے گئے ہیں، البتہ عشاء کا آخر وقت دوسری روایات کے مطابق نصف لیل ہے اور یہی صحیح ہے۔
➋عصر کے اول وقت کی تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے حدیث: 503۔
➌صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شوق اور اہتمام کا پتہ چلتا ہے کہ وہ احکام شرعیہ کو سیکھنے میں کس قدر سرگرم تھے۔
➍عالم دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناواقف لوگوں کو مسائل شرعیہ سے آگاہ کرے اور تفہیم کا ایسا انداز اختیار کرے کہ جس سے مسئلہ آسانی سے اور جلدی سمجھ میں آجائے اور عوام کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 505   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 514  
´عصر کے اخیر وقت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات سکھا رہے تھے، تو جبرائیل علیہ السلام آگے بڑھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے تھے اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، تو جبرائیل علیہ السلام نے ظہر پڑھائی جس وقت سورج ڈھل گیا، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب سایہ قد کے برابر ہو گیا، اور جس طرح انہوں نے پہلے کیا تھا ویسے ہی پھر کیا، جبرائیل آگے بڑھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، پھر انہوں نے عصر پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈوب گیا، تو جبرائیل آگے بڑھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، پھر انہوں نے مغرب پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب شفق غائب ہو گئی، تو وہ آگے بڑھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، تو انہوں نے عشاء پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب فجر کی پو پھٹی، تو وہ آگے بڑھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، انہوں نے فجر پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام دوسرے دن آپ کے پاس اس وقت آئے جب آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو گیا، چنانچہ انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو ظہر پڑھائی، پھر وہ آپ کے پاس اس وقت آئے جب انسان کا سایہ اس کے قد کے دوگنا ہو گیا، انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے عصر پڑھائی، پھر آپ کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈوب گیا، تو انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے مغرب پڑھائی، پھر ہم سو گئے، پھر اٹھے، پھر سو گئے پھر اٹھے، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، اور اسی طرح کیا جس طرح کل انہوں نے کیا تھا، پھر عشاء پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب فجر (کی روشنی) پھیل گئی، صبح ہو گئی، اور ستارے نمودار ہو گئے، اور انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے فجر پڑھائی، پھر کہا: ان دونوں نمازوں کے درمیان میں ہی نماز کے اوقات ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 514]
514 ۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر بھی موقع پر موجود تھے جب کہ مشہور یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام کا تعلیم اوقات کے لیے آنا مکی زندگی کی بات ہے۔ ممکن ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کسی اور صحابی سے سنا ہو یا مدینہ منورہ میں بھی ایسا واقعہ ہوا ہو۔ حدیث نمبر503 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہاں بھی یہ دونوں احتمال ہیں مگر اغلب یہ ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ میں پیش آیا تھا کیونکہ باجماعت نماز مکہ میں نہیں مدینہ منورہ میں ہوتی تھی۔ مزید فوائد کے لیے دیکھیے حدیث: 503۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 514   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 528  
´عشاء جلدی پڑھنے کا بیان۔`
محمد بن عمرو بن حسن کہتے ہیں کہ حجاج آئے تو ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دوپہر میں (سورج ڈھلتے ہی) پڑھتے تھے، اور عصر اس وقت پڑھتے جب سورج سفید اور صاف ہوتا، اور مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا، اور عشاء جب آپ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے، اور جب دیکھتے کہ لوگ دیر کر رہے ہیں تو مؤخر کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 528]
528 ۔ اردو حاشیہ:
«الْهَاجِرَة» نصف النہار سے مراد زوال کے فوراًً بعد ہے۔
➋عشاء کی نماز میں ثلث لیل (تہائی رات) تک تاخیر مستحب ہے مگر نمازیوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر لوگ کام کاج والے ہوں جنھیں جلدی نیند آجاتی ہے تو اول وقت میں پڑھ لی جائے تاکہ وہ نماز باجماعت سے محروم نہ ہوں۔ اگر فارغ قسم کے لوگ ہیں جو دیر سے سوتے ہیں تو ثلث لیل تک تاخیر کرلی جائے، مزید مجبوری ہو تو نصف رات تک تاخیر کر لیں۔ اس سے زیادہ تاخیر تو صرف اضطراری حالت ہی میں ہو سکتی ہے، مثلاً: کسی کو نیند آگئی اور وہ سویا رہ گیا اور نماز نہ پڑھی گئی تو وہ صبح تک پڑھ لے۔ گویا وقت مستحبات ثلث لیل تک، وقت جواز نصف لیل تک اور وقت اضطرار فجر طلوع ہونے تک ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 528   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 605  
´عرفہ میں ظہر و عصر جمع کر کے پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حج میں منی سے مزدلفہ) چلے یہاں تک کہ آپ عرفہ آئے تو دیکھا کہ نمرہ ۱؎ میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیا گیا ہے، آپ نے وہاں قیام کیا، یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا آپ نے قصواء نامی اونٹنی ۲؎ لانے کا حکم دیا، تو آپ کے لیے اس پر کجاوہ کسا گیا، جب آپ وادی میں پہنچے تو لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے بیچ کوئی اور نماز نہیں پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 605]
605 ۔ اردو حاشیہ: عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں ظہر کے وقت میں جمع کرنے اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں عشاء کے وقت میں جمع کرنے پر ساری امت کا ہر دور میں اتفاق رہا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 605   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 656  
´نماز میں جمع تقدیم کے لیے پہلی نماز کے وقت اذان کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے یہاں تک کہ عرفہ آئے، تو آپ کو نمرہ میں اپنے لیے خیمہ لگا ہوا ملا، وہاں آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصواء نامی اونٹنی پر کجاوہ کسنے کا حکم دیا، تو وہ کسا گیا (اور آپ سوار ہو کر چلے) یہاں تک کہ جب آپ وادی کے بیچو بیچ پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی، اور ان دونوں کے درمیان کوئی اور چیز نہیں پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 656]
656 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نمرہ عرفات سے متصل ایک وادی ہے جو عرفات میں شامل نہیں۔ اس جگہ خطبۂ حج اور ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوتی ہیں۔ پھر وقوف عرفات میں ہوتا ہے۔ آج کل مسجد نمرہ اس وادی میں بنی ہوئی ہے۔ توسیع کی بنا پر کچھ حصہ عرفات میں آگیا ہے۔
➋ جب دو نمازوں کو پہلی کے وقت میں جمع کریں گے تو صرف پہلی کے لیے اذان کہیں گے۔ ہاں، دونوں نمازوں کے لیے اقامت الگ الگ ہو گی کیونکہ اقامت صرف جماعت کی اطلاع دینے کے لیے ہے، نیز جمع کی صورت میں دوسری اذان کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ لوگ پہلے سے جمع ہیں۔
➌ دو نمازوں کے جمع کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ درمیان میں نوافل نہ پڑھے جائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 656   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.