الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Times (of Prayer)
38. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي الصَّلاَةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ
38. باب: مغرب سے پہلے نماز کی رخصت کا بیان۔
Chapter: Concession Allowing Prayer Before Maghrib
حدیث نمبر: 583
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا علي بن عثمان بن محمد بن سعيد بن عبد الله بن نفيل، قال: حدثنا سعيد بن عيسى، قال: حدثنا عبد الرحمن بن القاسم، قال: حدثنا بكر بن مضر، عن عمرو بن الحارث، عن يزيد بن ابي حبيب، ان ابا الخير حدثه، ان ابا تميم الجيشاني قام ليركع ركعتين قبل المغرب، فقلت لعقبة بن عامر: انظر إلى هذا، اي صلاة يصلي؟ فالتفت إليه فرآه، فقال:" هذه صلاة كنا نصليها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم".
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُفَيْلٍ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عِيسَى، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، قال: حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنَّ أَبَا الْخَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ قَامَ لِيَرْكَعَ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ، فَقُلْتُ لِعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ: انْظُرْ إِلَى هَذَا، أَيَّ صَلَاةٍ يُصَلِّي؟ فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَرَآهُ، فَقَالَ:" هَذِهِ صَلَاةٌ كُنَّا نُصَلِّيهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوالخیر کہتے ہیں کہ ابوتمیم جیشانی مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو میں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: انہیں دیکھئیے! یہ کون سی نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور دیکھ کر بولے: یہ وہی نماز ہے جسے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پڑھا کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 35 (1184) نحوہ، (تحفة الأشراف: 9961)، مسند احمد 4/ 155 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنا جائز ہی نہیں بلکہ مستحب ہے، صحیح بخاری (کے مذکورہ باب) میں عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ کی روایت میں تو «صلوا قبل المغرب» حکم کے صیغے کے ساتھ وارد ہے، یعنی مغرب سے پہلے (نفل) پڑھو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 583  
´مغرب سے پہلے نماز کی رخصت کا بیان۔`
ابوالخیر کہتے ہیں کہ ابوتمیم جیشانی مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو میں نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہا: انہیں دیکھئیے! یہ کون سی نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور دیکھ کر بولے: یہ وہی نماز ہے جسے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پڑھا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 583]
583 ۔ اردو حاشیہ:
➊ان دورکعتوں کو نماز مغرب سے پہلے والی سنتیں کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رغبت دلایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انہیں کثرت سے پڑھا کرتے تھے مگر وقت کم ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ متروک ہو گئیں، اس لیے ابوالخیر کو تعجب ہوا۔ اللہ تعالیٰ تروتازہ رکھے محدثین اور اہل حدیث کو جو متروک سنتوں کو زندہ کرتے ہیں۔ احناف بلاوجہ ان سنتوں کے خلاف ہیں کہ ان کے پڑھنے سے نماز مؤخر ہو جائے گی، حالانکہ دو ہلکی رکعتوں سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بلکہ تکثیر جماعت کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: «بین کل اذانین صلاۃ» [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 624، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 838]
ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے۔ اور فرمایا: «صلوا قبل صلاة المغرب» [صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1183]
نماز مغرب سے پہلے نماز پڑھو۔ یہ صحیح بخاری کی روایت ہے اور کیا چاہیے؟ مزیدتفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 583   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.