الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: اذان کے احکام و مسائل
The Book of the Adhan (The Call to Prayer)
27. بَابُ : الإِقَامَةِ لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ
27. باب: اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے اقامت کا بیان۔
Chapter: The Iqamah For One Who Is Praying Alone
حدیث نمبر: 668
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا علي بن حجر، قال: انبانا إسماعيل، قال: حدثنا يحيى بن علي بن يحيى بن خلاد بن رفاعة بن رافع الزرقي، عن ابيه، عن جده، عن رفاعة بن رافع،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينا هو جالس في صف الصلاة الحديث".
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا هُوَ جَالِسٌ فِي صَفِّ الصَّلَاةِ الْحَدِيثَ".
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نماز کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے، آگے راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 148 (861)، سنن الترمذی/الصلاة 111 (302) مطولاً، (تحفة الأشراف: 3604)، مسند احمد 4/340، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 148 (857، 858، 859، 860)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 57 (460)، ویأتي عند المؤلف: 1054، 1137، 1314، 1315 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ «مسئی صلاۃ» جلدی جلدی صلاۃ پڑھنے والے شخص والی حدیث ہے جسے مصنف نے درج ذیل تین ابواب: باب «الرخصۃ فی ترک الذکر فی الرکوع، باب الرخصۃ فی الذکر فی السجوداورباب أقل ما یجزی بہ الصلاۃ» میں ذکر کیا ہے، لیکن ان تینوں جگہوں پر کسی میں بھی اقامت کا ذکر نہیں ہے، البتہ ابوداؤد اور ترمذی نے اس حدیث کی روایت کی ہے اس میں «فتوضأ کما امرک اللہ ثم تشہد فأقم» کے الفاظ وارد ہیں جس سے حدیث اور باب میں مناسبت ظاہر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 668  
´اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے اقامت کا بیان۔`
رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نماز کی صف میں بیٹھے ہوئے تھے، آگے راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 668]
668 ۔ اردو حاشیہ: امام صاحب نے تفصیلی روایت ذکر نہیں کی۔ یہ مسییٔ الصلاۃ کی حدیث کے نام سے مشہور ہے۔ لیکن اس سے استدلال واضح نہیں ہوتا۔ جبکہ سنن ابوداؤد کے ایک طریق میں اقامت کی تصریح موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فأقِمْ ثمَّ كبِّرْ……» اقامت کہہ، پھر اس کے بعد تکبیر (تحریمہ) کہہ…… دیکھیے: [صحيح سنن أبى داود مفصل للألباني، رقم: 807]
نیز [السنن الكبري للنسائي: 507/1]
میں نفس اسی عنوان کے تحت مذکور حدیث میں اقامت کا ذکر موجود ہے۔ اس طرح حدیث سے امام صاحب رحمہ اللہ کا استدلال واضح ہے کہ اکیلا شخص بھی اقامت کہہ سکتا ہے اگرچہ اس کے ساتھ کوئی اور نماز پڑھنے والا نہ ہو کیونکہ اس صورت میں اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بے شمار لشکر نماز ادا کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے: «فإن أقامَ صلّى معَهُ ملَكاهُ، وإن أذَّنَ وأقامَ صلّى خلفَهُ مِن جنودِ اللَّهِ ما لا يرى طرفاهُ» اگر (صرف) اقامت کہتا ہے تو اس کے ساتھ، اس کے ساتھ والے دونوں فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور اگر اذان اور اقامت کہتا ہے تو اس کے پیچھے اس قدر اللہ کے لشکر نماز پڑھتے ہیں کہ ان کی دونوں اطراف نہیں دیکھی جا سکتیں (کیونکہ صفیں بہت ذراز ہوتی ہیں)۔ دیکھیے: [صحیح الترغیب و الترھیب للألباني: 295/1]
معلوم ہوا اکیلا آدمی اذان بھی دے سکتا ہے اور اقامت بھی کہہ سکتا ہے، بالخصوص جب کہ وہ آبادی سے باہر ہو۔ بہرحال اکیلے آدمی کا اقامت کہنا بے فائدہ نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 668   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.