سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قبلہ کے احکام و مسائل
The Book of the Qiblah
7. بَابُ : ذِكْرِ مَا يَقْطَعُ الصَّلاَةَ وَمَا لاَ يَقْطَعُ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّي سُتْرَةٌ
7. باب: نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟
Chapter: Mention of what interrupts the prayer and what does not if a praying person does not have a Sutra in front of him
حدیث نمبر: 751
Save to word اعراب
اخبرنا عمرو بن علي، قال: انبانا يزيد، قال: حدثنا يونس، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، عن ابي ذر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا كان احدكم قائما يصلي فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل، فإن لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل فإنه يقطع صلاته المراة والحمار والكلب الاسود". قلت: ما بال الاسود من الاصفر من الاحمر؟ فقال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما سالتني، فقال:" الكلب الاسود شيطان".
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: أَنْبَأَنَا يَزِيدُ، قال: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ قَائِمًا يُصَلِّي فَإِنَّهُ يَسْتُرُهُ إِذَا كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلُ آخِرَةِ الرَّحْلِ فَإِنَّهُ يَقْطَعُ صَلَاتَهُ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ". قُلْتُ: مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَصْفَرِ مِنَ الْأَحْمَرِ؟ فَقَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ:" الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز ہو تو وہ اس کے لیے سترہ ہو جائے گی، اور اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز نہ ہو تو عورت، گدھا اور کالا کتا اس کی نماز باطل کر دے گا۔ عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: پیلے اور لال رنگ کے مقابلہ میں کالے (کتے) کی کیا خصوصیت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: جس طرح آپ نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کالا کتا شیطان ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 50 (501)، سنن ابی داود/فیہ 110 (702)، سنن الترمذی/فیہ 137 (338)، سنن ابن ماجہ/إقامة 38 (952) مختصراً، (تحفة الأشراف: 11939)، مسند احمد 5/149، 151، 155، 158، 160، 161، سنن الدارمی/الصلاة 128 (1454) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بعض لوگوں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے، اور کہا ہے کہ ان چیزوں کے گزرنے سے واقعی نماز باطل ہو جائے گی، لیکن جمہور نے اس کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ باطل ہونے سے مراد نماز میں نقص ہے کیونکہ ان چیزوں کی وجہ سے دل نماز کی طرف پوری طرح سے متوجہ نہیں ہو سکے گا اور نماز کے خشوع و خضوع میں فرق آ جائے گا، اور کچھ لوگوں نے اس روایت ہی کو منسوخ مانا ہے۔ ۲؎: بعض لوگوں نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ شیطان کالے کتے کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا کہ وہ دوسرے کتوں کے بالمقابل زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے اس لیے اسے شیطان کہا گیا ہے (واللہ اعلم)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   سنن النسائى الصغرى751جندب بن عبد اللهإذا كان أحدكم قائما يصلي فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل فإن لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل فإنه يقطع صلاته المرأة والحمار والكلب الأسود قلت ما بال الأسود من الأصفر من الأحمر فقال سألت رسول الله كما سألتني فقال الكلب الأسو
   جامع الترمذي338جندب بن عبد اللهإذا صلى الرجل وليس بين يديه كآخرة الرحل أو كواسطة الرحل قطع صلاته الكلب الأسود والمرأة والحمار فقلت لأبي ذر ما بال الأسود من الأحمر من الأبيض فقال يا ابن أخي سألتني كما سألت رسول الله فقال الكلب الأسود شيطان
سنن نسائی کی حدیث نمبر 751 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 751  
751 ۔ اردو حاشیہ: جمہور اہل علم کے نزدیک کسی چیز کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی کیونکہ ابوداود کی روایت ہے: «لا يقطعُ الصَّلاةَ شيءٌ» [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 719]
یعنی کوئی چیز نماز نہیں توڑتی۔ لہٰذا یہاں نماز ٹوٹنے سے مراد خشوع و خضوع کا ختم ہونا ہے۔ لیکن اہل علم کا دوسرا گروہ نماز ٹوٹ جانے کا قائل ہے۔ اس کی ان کے نزدیک دو دلیلیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ابوداود کی محولہ حدیث: «لا يقطعُ الصَّلاةَ شيءٌ» ضعیف ہے، اس لیے وہ قابل استدلال نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل): 265/9، حدیث: 116]
دوسری دلیل ایک واضح حدیث ہے جو قطع الصلاۃ کے مفہوم کو واضح تر کر دیتی ہے، اس کے الفاظ ہیں: «تُعادُ الصَّلاةُ من مَمَرِّ الحِمارِ، والمرأةِ، والكَلْبِ الأَسْوَدِ، وقال: الكَلْبُ الأَسْوَدُ شَيْطانٌ» [صحیح ابن خزیمه، حدیث: 831، و صحیح ابن حبان، حدیث: 2391، بتحقیق الشیخ شعیب، وانظر اصحیحة للألباني، حدیث: 3323]
گدھے، عورت اور سیاہ کتے کے گزرنے سے (نماز ٹوٹ جاتی ہے) نماز دہرائی جائے گی۔ یہ حدیث قطع صلاۃ کے ظاہری مفہوم کو متعین اور اس کی تاویل (خشوع و خضوع ٹوٹ جانے) کو رد کر دیتی ہے۔ بنابریں اگلی تمام روایات میں بھی قطع صلاۃ کا ظاہری مفہوم ہی مراد ہو گا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 751   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 338  
´نماز کو کتے، گدھے اور عورت نماز کے سوا کوئی اور چیز باطل نہیں کرتی۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدمی نماز پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یا کہا: کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیز نہ ہو تو: کالے کتے، عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی نماز باطل ہو جائے گی ۱؎ میں نے ابوذر سے کہا: لال، اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: کالا کتا شیطان ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 338]
اردو حاشہ:
1؎:
یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کے ثواب اور اس کی برکت میں کمی واقع ہونا ہے،
سرے سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں،
بعض علماء بالکل باطل ہو جانے کے بھی قائل ہیں کیونکہ ظاہری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے،
اس لیے نمازی کو سترہ کی طرف نماز پڑھنے کا از حد خیال کرنا چاہئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 338   



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.