الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
The Book of the Commencement of the Prayer
26. بَابُ : تَأْوِيلِ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ }
26. باب: تفسیر آیت کریمہ: ”یقیناً ہم آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ دہرائی جاتی ہے اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے“۔
Chapter: The Interpretation of the saying of Allah, The Mighty and Sublime: And Indeed, "We have
حدیث نمبر: 914
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا إسماعيل بن مسعود قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن خبيب بن عبد الرحمن قال: سمعت حفص بن عاصم يحدث، عن ابي سعيد بن المعلى، ان النبي صلى الله عليه وسلم مر به وهو يصلي فدعاه قال: فصليت، ثم اتيته فقال:" ما منعك ان تجيبني" قال كنت اصلي قال: الم يقل الله عز وجل يايها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم سورة الانفال آية 24" الا اعلمك اعظم سورة قبل ان اخرج من المسجد قال: فذهب ليخرج قلت يا رسول الله قولك قال:" الحمد لله رب العالمين هي السبع المثاني الذي اوتيت والقرآن العظيم".
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قال: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُصَلِّي فَدَعَاهُ قَالَ: فَصَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَقَالَ:" مَا مَنَعَكَ أَنْ تُجِيبَنِي" قَالَ كُنْتُ أُصَلِّي قَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24" أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ: فَذَهَبَ لِيَخْرُجَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْلَكَ قَالَ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي الَّذِي أُوتِيتُ وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ".
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا، تو میں نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا؟ کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے!: «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم» اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو (الحجر: ۸۷) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورت «‏الحمد لله رب العالمين» ہے، اور یہی «سبع المثاني» ۱؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الفاتحة 1 (4474)، تفسیر الأنفال 3 (4647)، تفسیر الحجر 3 (4703)، فضائل القرآن 9 (5006)، سنن ابی داود/الصلاة 350 (1458)، سنن ابن ماجہ/الأدب 52 (3785)، (تحفة الأشراف: 12047)، مسند احمد 3/450، 4 (211)، سنن الدارمی/الصلاة 172 (1533)، فضائل القرآن 12 (3414)، موطا امام مالک/ الصلاة 8 (37) من حدیث أبی بن کعب (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سورۃ فاتحہ کا نام «سبع المثاني» ہے، «سبع» اس لیے ہے کہ یہ سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور «مثانی» اس لیے کہ یہ نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہے، اس کی اسی اہمیت و خصوصیت کے اعتبار سے اسے قرآن عظیم کہا کیا ہے، گرچہ قرآن کی ہر سورت قرآن عظیم ہے جس طرح کعبہ کو بیت اللہ کہا جاتا ہے گرچہ اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں، لیکن اس کی عظمت و خصوصیت کے اظہار کے لیے صرف کعبہ ہی کو بیت اللہ کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري4474رافع بن أوسألم يقل الله استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم
   صحيح البخاري4647رافع بن أوسما منعك أن تأتي ألم يقل الله يأيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم
   سنن أبي داود1458رافع بن أوسألم يقل الله يأيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم
   سنن النسائى الصغرى914رافع بن أوسما منعك أن تجيبني قال كنت أصلي قال ألم يقل الله يأيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 914  
´تفسیر آیت کریمہ: یقیناً ہم آپ کو سات آیتیں دے رکھی ہیں کہ دہرائی جاتی ہے اور عظیم قرآن بھی دے رکھا ہے۔`
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور انہیں بلایا، تو میں نے نماز پڑھی، پھر آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ابوسعید تمہیں مجھے جواب دینے سے کس چیز نے روکا؟ کہا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے!: «يا أيها الذين آمنوا استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم» اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے حیات بخش ہو (الحجر: ۸۷) کیا تم کو مسجد سے نکلنے سے پہلے میں ایک عظیم ترین سورت نہ سکھاؤں؟ آپ مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو کہا تھا بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورت «‏الحمد لله رب العالمين» ہے، اور یہی «سبع المثاني» ۱؎ ہے جو مجھے دی گئی ہے، یہی قرآن عظیم ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 914]
914 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپ نماز میں بھی بلائیں تو جانا فرض ہے اور جواب دینا بھی۔
➋ سبع مثانی کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ ابن مسعود، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سات طویل سورتیں، یعنی: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس ہیں کیونکہ ان سورتوں میں فرائض، حدود، قصص اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے اور یہ سات آیات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر حضرت علی، حضرت عمر اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ دیکھیے: [تفسیر الطبری: 14: 72، 73]
امام بخاری رحمہ اللہ اس بارے میں حدیث بیان کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أُمُّ القرآنِ وَهيَ السَّبعُ المَثاني وَهيَ القرآنُ العظيمُ» ام القرآن (سورۂ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔ [صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4704]
یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سبع مثانی، نماز میں دوہرا کر پڑھی جانی والی سات آیات اور قرآن عظیم ہے لیکن یہ اس کے منافی نہیں کہ سات طویل سورتوں کو بھی سبع مثانی قرار دیا جائے۔ کیونکہ ان میں بھی یہ وصف موجود ہے بلکہ یہ اس کے بھی منافی نہیں کہ پورے قرآن کو سبع مثانی قرار دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿اللَّهُ نزلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ﴾ » [الزمر: 39: 23]
اللہ نے کتابی شکل میں بہترین کلام اتارا ہے جس کی ملتی جلتی آیات و احکام باربار دوہرائے جاتے ہیں۔ یعنی اس کتاب کی آیات باربار دوہرائی بھی جاتی ہیں اور یہ قرآن عظیم بھی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ کو قرآن مجید اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو توحیدورسالت، آخرت، اوامرونواہی، تبشیروانذار، انعامات، قصص و واقعات اور سابقہ امتوں کا بیان ہے، سورۂ فاتحہ میں یہ سب کچھ اختصارواجمال کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آ جائے تو بلاتامل فوراًً اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور اس کے مقابلے میں اپنی یا کسی امتی کی رائے یا قیاس پیش نہیں کرنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 914   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1458  
´سورۃ فاتحہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ان کے پاس سے ہوا وہ نماز پڑھ رہے تھے، تو آپ نے انہیں بلایا، میں (نماز پڑھ کر) آپ کے پاس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم نے مجھے جواب کیوں نہیں دیا؟، عرض کیا: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: اے مومنو! جواب دو اللہ اور اس کے رسول کو، جب رسول اللہ تمہیں ایسے کام کے لیے بلائیں، جس میں تمہاری زندگی ہے میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورۃ سکھاؤں گا اس سے پہلے کہ میں مسجد سے نکلوں، (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے) تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابھی آپ نے کیا فرمایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ سورۃ «الحمد لله رب العالمين» ہے اور یہی سبع مثانی ہے جو مجھے دی گئی ہے اور قرآن عظیم ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1458]
1458. اردو حاشیہ: رسول اللہ ﷺ کا مقام یہ ہے۔ کہ آپ کی پکار کا فوراً جواب دینا فرض تھا۔ خواہ انسان نماز میں بھی ہو۔ اور اب یہ ہے کہ مومن کو چاہیے کہ کتاب وسنت کے احکام سن کر بلا حیل وحجت ان پر عمل کرے۔ اور تردد اور پس وپیش کی کیفیت سے باز رہے اور اسی میں حیات اور نجات ہے۔
➋ اعظم کے معنی مقدار میں بڑا ہونا ہی نہیں ہیں۔ بلکہ مقام ورتبہ کے لہاظ سے بھی بڑے کو اعظم کہتے ہیں۔ اس سے زبان زد عوام روایت (فإذا رايتهم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم]
[سنن ابن ماجة۔ الفتن۔ حدیث:3950]
کے معنی بھی متعین ہوجاتے ہیں۔ سواد اعظم کی اتباع کرو یعنی وہ جماعت جو افضل ہو۔ یہ روایت اگرچہ سخت ضعیف ہے۔ لیکن اگر اسے کسی درجے میں تسلیم کر لیا جائے۔ تو اعظم کے معنی یہاں اکثر کے نہیں۔ افضل کے ہوں گے۔ اور افضلیت اتباع قرآن وسنت میں ہے نہ کہ بھیڑ جمع ہوجانے میں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1458   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.