الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: تطبیق کے احکام و مسائل
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One\'s Hands Together)
59. بَابُ : السُّجُودِ عَلَى الثِّيَابِ
59. باب: کپڑوں پر سجدہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1117
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله بن المبارك، عن خالد بن عبد الرحمن هو السلمي، قال: حدثني غالب القطان، عن بكر بن عبد الله المزني، عن انس، قال:" كنا إذا صلينا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم بالظهائر سجدنا على ثيابنا اتقاء الحر".
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ السُّلَمِيُّ، قال: حَدَّثَنِي غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قال:" كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ سَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الْحَرِّ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 23 (385)، المواقیت 11 (542)، العمل في الصلاة 9 (1208)، صحیح مسلم/المساجد 33 (620)، سنن ابی داود/الصلاة 93 (660)، سنن الترمذی/الصلاة 294 (الجمعة 58) (584)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 64 (1033)، (تحفة الأشراف: 250)، مسند احمد 3/100، سنن الدارمی/الصلاة 82 (1376) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري542أنس بن مالكإذا صلينا خلف رسول الله بالظهائر فسجدنا على ثيابنا اتقاء الحر
   جامع الترمذي584أنس بن مالكإذا صلينا خلف النبي بالظهائر سجدنا على ثيابنا اتقاء الحر
   سنن النسائى الصغرى1117أنس بن مالكإذا صلينا خلف رسول الله بالظهائر سجدنا على ثيابنا اتقاء الحر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 542  
´ نماز ظہر کا وقت`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ فَسَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الْحَرِّ .»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ جب ہم (گرمیوں میں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز دوپہر دن میں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 542]

فوائد:
➊ اس روایت اور دیگر احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اور ظہر کی نماز اول وقت پڑھنی چاہئے۔
➋ اس پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ [الافصاح لابن هيرة: ج 1 ص 76]
➌ جن روایت میں آیا ہے کہ جب گرمی زیادہ ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو ان تمام احادیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے جیسا کہ صحیح البخاری [ج1 ص 77 ح 539] کی حدیث سے ثابت ہے، حضر (گھر، جائے سکونت) کے ساتھ نہیں۔ جو حضرات سفر والی روایات کو حدیث بالا وغیرہ کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں، ان کا مؤقف درست نہیں۔ انہیں چاہئیے کہ یہ ثابت کریں کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کر کے پڑھی ہے۔۔۔!؟
➍ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو۔ [موطا امام مالك: 8/1 ح 9]
اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز زوال سے لے کر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں، یعنی ظہر کا وقت زوال سے لے کر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے۔ مولوی عبدالحئی لکھنوی نے التعلیق الممجد [ص 41 حاشيه 9] میں اس مؤقف اثر کا یہی مفہوم لکھا ہے، یہاں بطور تنبیہ عرض ہے کہ اس اثر کے آخری حصہ فجر کی نماز اندھیرے میں ادا کر کی دیوبندی اور بریلوی دونوں فریق مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ یہ حصہ ان کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتا۔
➎ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے کے لئے تیار ہو گئے، مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ ہم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے اول وقت نماز ظہر ادا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 323/1 ح 3271]
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 65   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1117  
´کپڑوں پر سجدہ کرنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز پڑھتے تو گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1117]
1117۔ اردو حاشیہ: اگر الگ کپڑا مراد ہے جیسے آج کل مصلیٰ وغیرہ ہوتا ہے تو پھر ظاہر ہے کوئی اشکال و اعتراض نہیں۔ ان پر بلاشک و شبہ نماز پڑھی جا سکتی ہے، البتہ اگر پہنے ہوئے کپڑے مراد ہوں، مثلاً: آستینیں آگے بڑھا کر ان پر ہاتھ رکھ لیے جائیں اور پگڑی نیچے کر کے اس پر ماتھا رکھ لیا جائے تو ضرورت کے وقت یہ بھی جائز ہے، مثلاً: سخت گرمی یا سردی سے بچنا، البتہ مٹی سے چہرے اور ہتھیلیوں کو بچانے کے لیے ایسا کرنا ممنوع ہے کہ یہ تکلف ہے جبکہ سردی گرمی سے بچنا انسان کی ضرورت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1117   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.