الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: (چاند، سورج) گرہن کے احکام و مسائل
The Book of Eclipses
20. بَابُ : الْقَوْلِ فِي السُّجُودِ فِي صَلاَةِ الْكُسُوفِ
20. باب: سورج گرہن کی نماز میں سجدے میں کیا کہا جائے؟
Chapter: What to say when prostrating during the eclipse prayer
حدیث نمبر: 1497
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا عبد الله بن محمد بن عبد الرحمن بن المسور الزهري، قال: حدثنا غندر، عن شعبة، عن عطاء بن السائب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو، قال:" كسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع، ثم رفع فاطال , قال شعبة: واحسبه قال: في السجود نحو ذلك , وجعل يبكي في سجوده وينفخ , ويقول: رب لم تعدني هذا وانا استغفرك لم تعدني هذا وانا فيهم"، فلما صلى , قال:" عرضت علي الجنة حتى لو مددت يدي تناولت من قطوفها، وعرضت علي النار فجعلت انفخ خشية ان يغشاكم حرها، ورايت فيها سارق بدنتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورايت فيها اخا بني دعدع سارق الحجيج فإذا فطن له , قال: هذا عمل المحجن، ورايت فيها امراة طويلة سوداء تعذب في هرة ربطتها فلم تطعمها ولم تسقها ولم تدعها تاكل من خشاش الارض حتى ماتت، وإن الشمس والقمر لا ينكسفان لموت احد ولا لحياته ولكنهما آيتان من آيات الله، فإذا انكسفت إحداهما، او قال: فعل احدهما شيئا من ذلك، فاسعوا إلى ذكر الله عز وجل".
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ الزُّهْرِيُّ، قال: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قال:" كَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ , قَالَ شُعْبَةُ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: فِي السُّجُودِ نَحْوَ ذَلِكَ , وَجَعَلَ يَبْكِي فِي سُجُودِهِ وَيَنْفُخُ , وَيَقُولُ: رَبِّ لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا أَسْتَغْفِرُكَ لَمْ تَعِدْنِي هَذَا وَأَنَا فِيهِمْ"، فَلَمَّا صَلَّى , قَالَ:" عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّةُ حَتَّى لَوْ مَدَدْتُ يَدِي تَنَاوَلْتُ مِنْ قُطُوفِهَا، وَعُرِضَتْ عَلَيَّ النَّارُ فَجَعَلْتُ أَنْفُخُ خَشْيَةَ أَنْ يَغْشَاكُمْ حَرُّهَا، وَرَأَيْتُ فِيهَا سَارِقَ بَدَنَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ فِيهَا أَخَا بَنِي دُعْدُعٍ سَارِقَ الْحَجِيجِ فَإِذَا فُطِنَ لَهُ , قَالَ: هَذَا عَمَلُ الْمِحْجَنِ، وَرَأَيْتُ فِيهَا امْرَأَةً طَوِيلَةً سَوْدَاءَ تُعَذَّبُ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَسْقِهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ حَتَّى مَاتَتْ، وَإِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، فَإِذَا انْكَسَفَتْ إِحْدَاهُمَا، أَوْ قَالَ: فَعَلَ أَحَدُهُمَا شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ، فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے نماز پڑھی، تو لمبا قیام کیا، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر (رکوع سے) سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے (شعبہ کہتے ہیں: میرا گمان ہے عطاء نے سجدے کے سلسلہ میں بھی یہی بات کہی ہے) اور آپ سجدے میں رونے اور پھونک مارنے لگے، آپ فرما رہے تھے: میرے رب! تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا، میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا اور حال یہ ہے کہ میں لوگوں میں موجود ہوں، جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا: مجھ پر جنت پیش کی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے پھلوں گچھوں میں سے توڑ لیتا، نیز مجھ پر جہنم پیش کی گئی تو میں پھونکنے لگا اس ڈر سے کہ کہیں اس کی گرمی تمہیں نہ ڈھانپ لے، اور میں نے اس میں اس چور کو دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو چرایا تھا، اور میں نے اس میں بنو دعدع کے اس شخص کو دیکھا جو حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا، اور جب وہ پہچان لیا جاتا تو کہتا: یہ (میری اس) خمدار لکڑی کا کام ہے، اور میں نے اس میں ایک کالی لمبی عورت کو دیکھا جسے ایک بلی کے سبب عذاب ہو رہا تھا، جسے اس نے باندھ رکھا تھا، نہ تو وہ اسے کھلاتی پلاتی تھی اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے، یہاں تک کہ وہ مر گئی، اور سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے گہناتے ہیں، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب ان میں سے کوئی گہنا جائے (یا کہا: ان دونوں میں سے کوئی اس میں سے کچھ کرے، یعنی گہنا جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1483 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1497  
´سورج گرہن کی نماز میں سجدے میں کیا کہا جائے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن لگا، تو آپ نے نماز پڑھی، تو لمبا قیام کیا، پھر آپ نے رکوع کیا تو لمبا رکوع کیا، پھر (رکوع سے) سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے رہے (شعبہ کہتے ہیں: میرا گمان ہے عطاء نے سجدے کے سلسلہ میں بھی یہی بات کہی ہے) اور آپ سجدے میں رونے اور پھونک مارنے لگے، آپ فرما رہے تھے: میرے رب! تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا، میں تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں، تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا اور حال یہ ہے کہ میں لوگوں میں موجود ہوں، جب آپ نماز پڑھ چکے تو فرمایا: مجھ پر جنت پیش کی گئی یہاں تک کہ اگر میں اپنے ہاتھوں کو پھیلاتا تو میں اس کے پھلوں گچھوں میں سے توڑ لیتا، نیز مجھ پر جہنم پیش کی گئی تو میں پھونکنے لگا اس ڈر سے کہ کہیں اس کی گرمی تمہیں نہ ڈھانپ لے، اور میں نے اس میں اس چور کو دیکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کو چرایا تھا، اور میں نے اس میں بنو دعدع کے اس شخص کو دیکھا جو حاجیوں کا مال چرایا کرتا تھا، اور جب وہ پہچان لیا جاتا تو کہتا: یہ (میری اس) خمدار لکڑی کا کام ہے، اور میں نے اس میں ایک کالی لمبی عورت کو دیکھا جسے ایک بلی کے سبب عذاب ہو رہا تھا، جسے اس نے باندھ رکھا تھا، نہ تو وہ اسے کھلاتی پلاتی تھی اور نہ ہی اسے آزاد چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے، یہاں تک کہ وہ مر گئی، اور سورج اور چاند نہ تو کسی کے مرنے کی وجہ سے گہناتے ہیں، اور نہ ہی کسی کے پیدا ہونے سے، بلکہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب ان میں سے کوئی گہنا جائے (یا کہا: ان دونوں میں سے کوئی اس میں سے کچھ کرے، یعنی گہنا جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1497]
1497۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث تفصیل کے ساتھ پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث نمبر 1483، لہٰذا اسے اس کی روشنی میں سمجھا جائے، البتہ اس میں بنودعدع کے شخص جو جوتا چور کہا گیا تھا اور یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ حاجیوں کی چیزیں چرایا کرتا تھا۔ گویا وہ حاجیوں کے جوتے چھڑی میں پھنسا کر لے بھاگتا تھا۔ (مزید تفصیلات کے لیے حدیث نمبر 1483 کے فوائد دیکھیے۔)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1497   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.