الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز خوف کے احکام و مسائل
The Book of the Fear Prayer
1. بَابُ :
1. باب:
Chapter: The narrations mentioned for the Fear Prayer
حدیث نمبر: 1542
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرني عمران بن بكار، قال: حدثنا محمد بن المبارك، قال: انبانا الهيثم بن حميد، عن العلاء، وابي ايوب , عن الزهري، عن عبد الله بن عمر، قال:" صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الخوف قام فكبر فصلى خلفه طائفة منا وطائفة مواجهة العدو فركع بهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعة وسجد سجدتين , ثم انصرفوا ولم يسلموا واقبلوا على العدو فصفوا مكانهم، وجاءت الطائفة الاخرى فصفوا خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بهم ركعة وسجدتين , ثم سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد اتم ركعتين واربع سجدات، ثم قامت الطائفتان فصلى كل إنسان منهم لنفسه ركعة وسجدتين" قال: ابو بكر بن السني الزهري سمع من ابن عمر حديثين ولم يسمع هذا منه.
أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، قال: أَنْبَأَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ، وَأَبِي أَيُّوب , عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قال:" صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْخَوْفِ قَامَ فَكَبَّرَ فَصَلَّى خَلْفَهُ طَائِفَةٌ مِنَّا وَطَائِفَةٌ مُوَاجِهَةَ الْعَدُوِّ فَرَكَعَ بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ , ثُمَّ انْصَرَفُوا وَلَمْ يُسَلِّمُوا وَأَقْبَلُوا عَلَى الْعَدُوِّ فَصَفُّوا مَكَانَهُمْ، وَجَاءَتِ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَصَفُّوا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ , ثُمَّ سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَتَمَّ رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، ثُمَّ قَامَتِ الطَّائِفَتَانِ فَصَلَّى كُلُّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وَسَجْدَتَيْنِ" قَالَ: أَبُو بَكْرِ بْنُ السُّنِّيِّ الزُّهْرِيُّ سَمِعَ مِنَ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثَيْنِ وَلَمْ يَسْمَعْ هَذَا مِنْهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی نماز پڑھائی، تو آپ کھڑے ہوئے، اور اللہ اکبر کہا، تو آپ کے پیچھے ہم میں سے ایک گروہ نے نماز پڑھی، اور ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر وہ لوگ پلٹے حالانکہ انہوں نے ابھی سلام نہیں پھیرا تھا، اور دشمن کے بالمقابل آ گئے، اور ان کی جگہ صف بستہ ہو گئے، اور دوسرا گروہ آیا، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بستہ ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اس حال میں کہ آپ نے دو رکوع اور چار سجدے مکمل کر لیے تھے، پھر دونوں گروہ کھڑے ہوئے، اور ان میں سے ہر شخص نے خود سے ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ ابوبکر بن السنی کہتے ہیں: زہری نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں سنی ہیں، لیکن یہ حدیث انہوں نے ان سے نہیں سنی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (سند میں حسب سابق انقطاع ہے، نیز اس کے راوی ابو ایوب شامی‘ مجہول ہیں، لیکن رقم: 1540 کی سند متصل اور صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: زہری کی ملاقات ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ہے یا نہیں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے صحیح یہ ہے کہ ملاقات نہیں ہے، زہری ابن عمر رضی اللہ عنہم کے بیٹے سالم کے واسطہ ہی سے ان سے روایت کرتے ہیں، معمر کی جن دو روایتوں کے متعلق آیا ہے کہ اسے انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے سنا ہے، یہ صحیح نہیں، کیونکہ معمر کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اسے زہری سے روایت کیا ہے، اس میں زہری اور ابن عمر کے درمیان سالم کا واسطہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   صحيح البخاري4132عبد الله بن عمرغزوت مع رسول الله قبل نجد فوازينا العدو فصاففنا لهم
   صحيح البخاري4535عبد الله بن عمريتقدم الإمام وطائفة من الناس فيصلي بهم الإمام ركعة وتكون طائفة منهم بينهم وبين العدو لم يصلوا فإذا صلى الذين معه ركعة استأخروا مكان الذين لم يصلوا ولا يسلمون ويتقدم الذين لم يصلوا فيصلون معه ركعة ثم ينصرف الإمام وقد صلى ركعتين فيقوم كل واحد من الطائفتين ف
   صحيح البخاري4133عبد الله بن عمرصلى بإحدى الطائفتين والطائفة الأخرى مواجهة العدو ثم انصرفوا فقاموا في مقام أصحابهم أولئك فجاء أولئك فصلى بهم ركعة ثم سلم عليهم ثم قام هؤلاء فقضوا ركعتهم وقام هؤلاء فقضوا ركعتهم
   صحيح البخاري942عبد الله بن عمريصلي لنا فقامت طائفة معه تصلي وأقبلت طائفة على العدو وركع رسول الله بمن معه وسجد سجدتين ثم انصرفوا مكان الطائفة التي لم تصل فجاءوا فركع رسول الله بهم ركعة وسجد سجدتين ثم سلم فقام كل واحد منهم فركع لنفسه ركعة وسجد سجدت
   صحيح مسلم1944عبد الله بن عمرصلى رسول الله صلاة الخوف في بعض أيامه فقامت طائفة معه وطائفة بإزاء العدو فصلى بالذين معه ركعة ثم ذهبوا وجاء الآخرون فصلى بهم ركعة ثم قضت الطائفتان ركعة ركعة
   صحيح مسلم1942عبد الله بن عمرصلى رسول الله صلاة الخوف بإحدى الطائفتين ركعة والطائفة الأخرى مواجهة العدو ثم انصرفوا وقاموا في مقام أصحابهم مقبلين على العدو وجاء أولئك ثم صلى بهم النبي ركعة ثم سلم النبي ثم قضى هؤلاء ركعة وهؤلاء ر
   جامع الترمذي564عبد الله بن عمرصلى صلاة الخوف بإحدى الطائفتين ركعة والطائفة الأخرى مواجهة العدو ثم انصرفوا فقاموا في مقام أولئك وجاء أولئك فصلى بهم ركعة أخرى ثم سلم عليهم فقام هؤلاء فقضوا ركعتهم وقام هؤلاء فقضوا ركعتهم
   سنن أبي داود1243عبد الله بن عمرصلى بإحدى الطائفتين ركعة والطائفة الأخرى مواجهة العدو ثم انصرفوا فقاموا في مقام أولئك وجاء أولئك فصلى بهم ركعة أخرى ثم سلم عليهم ثم قام هؤلاء فقضوا ركعتهم وقام هؤلاء فقضوا ركعتهم
   سنن النسائى الصغرى1542عبد الله بن عمرصلى رسول الله صلاة الخوف قام فكبر فصلى خلفه طائفة منا وطائفة مواجهة العدو فركع بهم رسول الله ركعة وسجد سجدتين ثم انصرفوا ولم يسلموا وأقبلوا على العدو فصفوا مكانهم وجاءت الطائفة الأخرى فصفوا خلف رسول الله
   سنن النسائى الصغرى1541عبد الله بن عمرصف خلفه طائفة منا وأقبلت طائفة على العدو فركع بهم النبي ركعة وسجدتين ثم انصرفوا وأقبلوا على العدو وجاءت الطائفة الأخرى فصلوا مع النبي ففعل مثل ذلك ثم سلم ثم قام كل رجل من الطائفتين فصلى ل
   سنن النسائى الصغرى1539عبد الله بن عمرصلى بإحدى الطائفتين ركعة والطائفة الأخرى مواجهة العدو ثم انطلقوا فقاموا في مقام أولئك وجاء أولئك فصلى بهم ركعة أخرى ثم سلم عليهم فقام هؤلاء فقضوا ركعتهم وقام هؤلاء فقضوا ركعتهم
   سنن النسائى الصغرى1543عبد الله بن عمرصلى رسول الله صلاة الخوف في بعض أيامه فقامت طائفة معه وطائفة بإزاء العدو فصلى بالذين معه ركعة ثم ذهبوا وجاء الآخرون فصلى بهم ركعة ثم قضت الطائفتان ركعة ركعة
   سنن النسائى الصغرى1540عبد الله بن عمريصلي بنا فقامت طائفة منا معه وأقبل طائفة على العدو فركع رسول الله ومن معه ركعة وسجد سجدتين ثم انصرفوا فكانوا مكان أولئك الذين لم يصلوا وجاءت الطائفة التي لم تصل فركع بهم ركعة وسجدتين ثم سلم رسول الله صل
   سنن ابن ماجه1258عبد الله بن عمرأن يكون الإمام يصلي بطائفة معه فيسجدون سجدة واحدة وتكون طائفة منهم بينهم وبين العدو ثم ينصرف الذين سجدوا السجدة مع أميرهم ثم يكونون مكان الذين لم يصلوا ويتقدم الذين لم يصلوا فيصلوا مع أميرهم سجدة واحدة ثم ينصرف أميرهم وقد صلى صلاته ويصلي كل واحد من الطائف
   بلوغ المرام380عبد الله بن عمريصلي بنا فقامت طائفة معه واقبلت طائفة على العدو وركع بمن معه وسجد سجدتين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1542  
´باب:`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی نماز پڑھائی، تو آپ کھڑے ہوئے، اور اللہ اکبر کہا، تو آپ کے پیچھے ہم میں سے ایک گروہ نے نماز پڑھی، اور ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر وہ لوگ پلٹے حالانکہ انہوں نے ابھی سلام نہیں پھیرا تھا، اور دشمن کے بالمقابل آ گئے، اور ان کی جگہ صف بستہ ہو گئے، اور دوسرا گروہ آیا، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بستہ ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، اس حال میں کہ آپ نے دو رکوع اور چار سجدے مکمل کر لیے تھے، پھر دونوں گروہ کھڑے ہوئے، اور ان میں سے ہر شخص نے خود سے ایک رکوع اور دو سجدے کیے۔ ابوبکر بن السنی کہتے ہیں: زہری نے ابن عمر رضی اللہ عنہم سے دو حدیثیں سنی ہیں، لیکن یہ حدیث انہوں نے ان سے نہیں سنی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة الخوف/حدیث: 1542]
1542۔ اردو حاشیہ: یہ حضرت ابوبکر بن سنی کا خیال ہے۔ حضرت علی بن مدینی نے بھی یہی قول بیان کیا ہے مگر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور حضرت یحییٰ بن معین کے نزدیک امام زہری نے کوئی روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نہیں سنی اور یہی موقف درست اور راجح ہے، لہٰذا مذکورہ سند منقطع ہے لیکن یہ انقطاع سابقہ دونوں روایتوں سے رفع ہو جاتا ہے کیونکہ ان دو روایات میں سالم کا واسطہ مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے: (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 17؍126، 127)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1542   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1258  
´ڈر کی حالت میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف کی (کیفیت) کے بارے میں فرمایا: امام اپنے ساتھ مجاہدین کی ایک جماعت کو نماز پڑھائے، اور وہ ایک رکعت ادا کریں، اور دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان متعین رہے، پھر جس گروہ نے ایک رکعت اپنے امام کے ساتھ پڑھی وہ ہٹ کر اس جماعت کی جگہ چلی جائے جس نے نماز نہیں پڑھی، اور جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے وہ آئیں، اور اپنے امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھیں، اب امام تو اپنی نماز سے فارغ ہو جائے گا، اور دونوں جماعتوں میں سے ہر ایک اپنی ایک ایک رکعت پڑھیں، اگر خوف و دہشت اس سے بھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1258]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز اتنی اہم عبادت ہے۔
کہ حالت جنگ میں بھی معاف نہیں البتہ اس صورت میں اس کا طریقہ بدل جاتا ہے۔
اور بہت سے احکام میں نرمی آ جاتی ہے۔

(2)
نماز خوف کی متعدد صورتیں ہیں۔
حالات کے مطابق ان میں سے کوئی سی صورت اختیار کی جا سکتی ہے۔

(3)
اس حدیث میں مذکور صورت پر اس وقت عمل ہوتا ہے جب دشمن قبلے کی طرف نہ ہو۔
اس صورت میں فوج کے دو حصے کیے جائیں گے۔
پہلا گروہ امام کے ساتھ ایک رکعت پڑھ کرچلا جائے گا۔
اس اثناء میں دوسرا گروہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہے گا۔
جب پہلا گروہ دشمن کے سامنے پہنچ جائے گا۔
تو دوسرا گروہ امام کے ساتھ آ کر ایک رکعت پڑھ لے گا۔
اور دوسری رکعت اکیلے اکیلے ادا کی جائے گی۔
جیسے مقتدی کی ایک رکعت رہ گئی ہو تو وہ بعد میں ادا کرلیتا ہے۔
پہلے گروہ کے افراد اپنے اپنے مقام پر ایک ایک رکعت پڑھ لیں گے۔
اگر معروف طریقے سے ادا کرنا ممکن نہ ہو۔
تو اشارے سے رکوع سجدہ کر لیا جائے۔
اگرچہ قبلے کی طرف منہ نہ ہو۔

(4)
زیادہ سخت حالات میں جب اس قدر بھی جماعت کا اہتمام ممکن نہ ہو تو لڑائی کے دوران میں چلتے پھرتے ہی اشارے سے نماز پڑھ لی جائے۔
اگر قبلہ رو ہونا ممکن نہ ہو تو بغیرقبلے کی طرف منہ کئے پڑھ لی جائے۔

(5)
نماز خوف کے دوسرے طریقے بھی مختلف احادیث میں وارد ہیں۔
جن میں کچھ اگلی احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1258   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 380  
´نماز خوف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کسی غزوہ میں گیا۔ ہم دشمن کے بالکل مقابل صف بستہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں نماز پڑھائی۔ ایک جماعت نماز ادا کرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور ایک جماعت دشمن کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ جو جماعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک تھی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے اور اس گروہ کی جگہ واپس چلی گئی جس نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی تھی۔ اس جماعت کے افراد آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی دو سجدوں کے ساتھ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا تو دونوں گروہوں نے اٹھ کر الگ الگ پوری کی۔ (بخاری و مسلم) متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 380»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الخوف، باب صلاة الخوف، حديث:942، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة الخوف، حديث:839.»
تشریح:
1. مصنف نے نماز خوف کی پانچ صورتیں بیان کی ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے چودہ ‘ ابن العربی اور امام نووی رحمہما اللہ نے سولہ اور شیخ ابوالفضل نے ترمذی کی شرح میں سترہ صورتیں ذکر کی ہیں۔
سنن ابی داود میں آٹھ صورتیں ہیں۔
2. امام احمد رحمہ اللہ کے بقول نماز خوف کے سلسلے میں چھ یا سات صحیح احادیث ثابت ہیں‘ ان میں سے جس کے مطابق نماز پڑھی جائے جائز ہے، کوئی مخصوص طریقہ نہیں۔
حالات کے مطابق جس طور پر پڑھنا ممکن ہو پڑھ لی جائے۔
3.اس نماز کے مسنون و مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اور صاحب زاد المعاد نے بھی اس نماز کی یہی چھ کیفیتیں بیان کی ہیں اور جن حضرات نے اس سے زیادہ ذکر کی ہیں انھوں نے جہاں کہیں بیان واقعہ میں اختلاف دیکھا اسے الگ شمار کر لیا‘ حقیقت میں وہ الگ نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی قول کو قابل اعتماد قرار دیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 380   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 564  
´نماز خوف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کو صلاۃ خوف ایک رکعت پڑھائی اور دوسرا گروہ دشمن کے سامنے کھڑا رہا، پھر یہ لوگ پلٹے، اور ان لوگوں کی جگہ پر جو دشمن کے مقابل میں تھے جا کر کھڑے ہو گئے اور جو لوگ دشمن کے مقابل میں تھے وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوسری رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی ایک رکعت پوری کی۔ اور (جو ایک رکعت پڑھ کر دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) وہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی ایک رکعت پوری کی۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 564]
اردو حاشہ: 1؎:
جوآگے آرہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 564   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1243  
´ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ امام ہر ٹکڑی کو ایک رکعت پڑھائے پھر وہ سلام پھیر دے اس کے بعد ہر صف کے لوگ کھڑے ہوں اور خود سے اپنی اپنی ایک رکعت ادا کریں۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جماعت کو ایک رکعت پڑھائی اور دوسری جماعت دشمن کے سامنے رہی پھر یہ جماعت جا کر پہلی جماعت کی جگہ کھڑی ہو گئی اور وہ جماعت (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے) آ گئی تو آپ نے ان کو بھی ایک رکعت پڑھائی پھر آپ نے سلام پھیر دیا، پھر یہ لوگ کھڑے ہوئے اور اپنی رکعت پوری کی اور وہ لوگ بھی (جو دشمن کے سامنے چلے گئے تھے) کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنی رکعت پوری کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث نافع اور خالد بن معدان نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہی قول مسروق اور یوسف بن مہران ہے جسے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، اسی طرح یونس نے حسن سے اور انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1243]
1243۔ اردو حاشیہ:
اس صورت میں گویا امام اپنے مجاہد مقتدیوں کا محافظ بنا کہ وہ اپنی نماز مکمل کر لیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1243   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.