الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
The Book of Qiyam Al-Lail (The Night Prayer) and Voluntary Prayers During the Day
25. بَابُ : تَسْوِيَةِ الْقِيَامِ وَالرُّكُوعِ وَالْقِيَامِ بَعْدَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ وَالْجُلُوسِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
25. باب: تہجد میں قیام، رکوع، رکوع کے بعد قیام، سجدہ، اور دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک سب کے برابر ہونے کا بیان۔
Chapter: Making the standing, bowing, prostrating, and sitting between the two prostrations, equal in length when praying Qiyam al-Layl
حدیث نمبر: 1666
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا النضر بن محمد المروزي ثقة، قال: حدثنا العلاء بن المسيب، عن عمرو بن مرة، عن طلحة بن يزيد الانصاري، عن حذيفة، انه" صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فركع فقال في ركوعه: سبحان ربي العظيم مثل ما كان قائما، ثم جلس , يقول: رب اغفر لي رب اغفر لي مثل ما كان قائما، ثم سجد , فقال: سبحان ربي الاعلى مثل ما كان قائما، فما صلى إلا اربع ركعات حتى جاء بلال إلى الغداة" , قال ابو عبد الرحمن: هذا الحديث عندي مرسل وطلحة بن يزيد لا اعلمه سمع من حذيفة شيئا، وغير العلاء بن المسيب , قال: في هذا الحديث، عن طلحة، عن رجل، عن حذيفة.
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ ثِقَةٌ، قال: حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّهُ" صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَرَكَعَ فَقَالَ فِي رُكُوعِهِ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ جَلَسَ , يَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِي رَبِّ اغْفِرْ لِي مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، ثُمَّ سَجَدَ , فَقَالَ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى مِثْلَ مَا كَانَ قَائِمًا، فَمَا صَلَّى إِلَّا أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ حَتَّى جَاءَ بِلَالٌ إِلَى الْغَدَاةِ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدِي مُرْسَلٌ وَطَلْحَةُ بْنُ يَزِيدَ لَا أَعْلَمُهُ سَمِعَ مِنْ حُذَيْفَةَ شَيْئًا، وَغَيْرُ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , قَالَ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ.
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، اور یہ اتنا ہی لمبا تھا جتنا آپ کا قیام تھا، آپ نے اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم‏» کہا، پھر آپ اتنی ہی دیر بیٹھے جتنی دیر کھڑے تھے، اور «رب اغفر لي رب اغفر لي» کہتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر تک سجدہ کیا جتنی دیر تک آپ کھڑے تھے، اور «سبحان ربي الأعلى» کہتے رہے تو آپ نے صرف چار رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے بلانے آ گئے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک مرسل (منقطع) ہے، میں نہیں جانتا کہ طلحہ بن یزید نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کچھ سنا ہے، علاء بن مسیب کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں یوں کہا: «عن طلحۃ، عن رجل، عن حذیفۃ» ۔

تخریج الحدیث: «انظر الأرقام: 1009، 1010، 1070، 1146 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   سنن النسائى الصغرى1047حذيفة بن حسيلقال في ركوعه سبحان ربي العظيم وفي سجوده سبحان ربي الأعلى
   سنن النسائى الصغرى1134حذيفة بن حسيلسبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم ثم رفع رأسه فقال سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد وأطال القيام ثم سجد فأطال السجود يقول في سجوده سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى سبحان ربي الأعلى لا يمر بآية تخويف أو تعظيم لله إلا ذكره
   سنن النسائى الصغرى1666حذيفة بن حسيلقال في ركوعه سبحان ربي العظيم مثل ما كان قائما ثم جلس يقول رب اغفر لي رب اغفر لي مثل ما كان قائما سجد فقال سبحان ربي الأعلى مثل ما كان قائما فما صلى إلا أربع ركعات حتى جاء بلال إلى الغداة
   صحيح مسلم1814حذيفة بن حسيلسبحان ربي العظيم فكان ركوعه نحوا من قيامه ثم قال سمع الله لمن حمده ثم قام طويلا قريبا مما ركع ثم سجد فقال سبحان ربي الأعلى فكان سجوده قريبا من قيامه
   جامع الترمذي262حذيفة بن حسيلسبحان ربي العظيم وفي سجوده سبحان ربي الأعلى وما أتى على آية رحمة إلا وقف وسأل وما أتى على آية عذاب إلا وقف وتعوذ
   سنن أبي داود871حذيفة بن حسيلصلى مع النبي فكان يقول في ركوعه سبحان ربي العظيم وفي سجوده سبحان ربي الأعلى وما مر بآية رحمة إلا وقف عندها فسأل ولا بآية عذاب إلا وقف عندها فتعوذ
   سنن ابن ماجه888حذيفة بن حسيلإذا ركع سبحان ربي العظيم ثلاث مرات وإذا سجد قال سبحان ربي الأعلى ثلاث مرات
   بلوغ المرام229حذيفة بن حسيلصليت مع النبي فما مرت به آية رحمة إلا وقف عندها يسال،‏‏‏‏ ولا آية عذاب إلا تعوذ منها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 229  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن حذيفة رضي الله عنه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وآله وسلم فما مرت به آية رحمة إلا وقف عندها يسأل،‏‏‏‏ ولا آية عذاب إلا تعوذ منها. أخرجه الخمسة،‏‏‏‏ وحسنه الترمذي. . . .»
. . . سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب ایسی آیت گذرتی جس میں رحمت الٰہی کا ذکر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں وقفہ فرما کر رحمت طلب فرماتے اور جب آیت عذاب گزرتی تو وہاں ذرا وقفہ فرما کر اس سے پناہ مانگتے۔
اسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ پانچوں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 229]

لغوی تشریح:
«وَقَفَ» رُک جاتے، قرأت سے وقفہ فرماتے۔
«يَسْأَلُ» اللہ سے اس کی رحمت طلب فرماتے۔

فائدہ: یہ عمل غالباً آپ کا نماز تہجد میں ہوتا تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں اس بات کی وضاحت ہے۔ [صحيح مسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب تطويل القراءة فى صلاة الليل، حديث: 772] چنانچہ مسند احمد، ابوداود اور ابن ماجہ میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ایسا نفل نماز میں کرتے تھے۔ [مسند أحمد: 347/4، و سنن أبى داود، الصلاة، باب الدعاء فى الصلاة، حديث: 881، وسنن ابن ماجه۔ إقامة الصلوت، باب ماجاء فيل القرءة فى صلاة اليل۔ حديث: 1352]
اسی طرح مسند أحمد میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا [مسند أحمد: 92/6] اور ابوداود اور نسائی میں سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل تہجد کی نماز میں تھا۔ [سنن أبى داود، الصلاة، باب مايقل الرجل فى ركوعه و سجوده، حديث: 873، و سنن النسائي، الصلاة، باب الدعاء فى السجود، حديث 1133]
اور اگر کوئی یہ عمل فرض نماز میں بھی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں بالخصوص جبکہ وہ اکیلا فرض نماز پڑھ رہا ہو کیونکہ ایسی صورت میں وہ کسی کو مشقت میں مبتلا نہیں کرتا۔ [سبل السلام]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 229   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 871  
´آدمی رکوع اور سجدے میں کیا کہے؟`
شعبہ کہتے ہیں: میں نے سلیمان سے کہا کہ جب میں نماز میں خوف دلانے والی آیت سے گزروں تو کیا میں دعا مانگوں؟ تو انہوں نے مجھ سے وہ حدیث بیان کی، جسے انہوں نے سعد بن عبیدہ سے، سعید نے مستورد سے، مستورد نے صلہ بن زفر سے اور صلہ بن زفر نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں «سبحان ربي العظيم» کہتے تھے، اور اپنے سجدوں میں «سبحان ربي الأعلى» کہتے تھے، اور رحمت کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں، اور اللہ سے سوال نہ کیا ہو، اور عذاب کی کوئی آیت ایسی نہیں گزری جہاں آپ نہ ٹھہرے ہوں اور عذاب سے پناہ نہ مانگی ہو۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 871]
871۔ اردو حاشیہ:
➊ قرات قرآن انتہائی غور و فکر سے کرنی چاہیے، خواہ نماز کے دوران ہو یا اس کے علاوہ۔
➋ تلاوت قرآن کا ایک ادب یہ بھی ہے کہ رحمت کی آیات پر دعا اور آیات عذاب پر تعوذ کیا جائے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اس کا ترجمہ و مفہوم آتا ہو۔ لہٰذا علم حاصل کرنا چاہیے۔ «
»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 871   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1666  
´تہجد میں قیام، رکوع، رکوع کے بعد قیام، سجدہ، اور دونوں سجدوں کے درمیان کی بیٹھک سب کے برابر ہونے کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں نماز پڑھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، اور یہ اتنا ہی لمبا تھا جتنا آپ کا قیام تھا، آپ نے اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم‏» کہا، پھر آپ اتنی ہی دیر بیٹھے جتنی دیر کھڑے تھے، اور «رب اغفر لي رب اغفر لي» کہتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی دیر تک سجدہ کیا جتنی دیر تک آپ کھڑے تھے، اور «سبحان ربي الأعلى» کہتے رہے تو آپ نے صرف چار رکعتیں پڑھیں یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کے لیے بلانے آ گئے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث میرے نزدیک مرسل (منقطع) ہے، میں نہیں جانتا کہ طلحہ بن یزید نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کچھ سنا ہے، علاء بن مسیب کے علاوہ دوسرے لوگوں نے اس حدیث میں یوں کہا: «عن طلحۃ، عن رجل، عن حذیفۃ» ۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1666]
1666۔ اردو حاشیہ:
➊ یہاں مرسل سے منقطع مراد ہے۔ اصطلاحی معنی مراد نہیں۔ علم حدیث میں مرسل کے اصطلاحی معنی یہ ہے کہ تابعی براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول و فعل بیان کرے۔ مذکورہ روایت میں تو وہ براہ راست بیان نہیں کر رہے بلکہ صحابی کا ذکر موجود ہے۔
➋ معلوم ہوا نماز میں دوران قرأت، دعاواستغفار وغیرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ کرنا چاہیے، نہ کہ خالی قرأت کرتا رہے۔ جس طرح سجدے کی آیت پڑھ کر سجدہ کرنا مستحب ہے ایسے ہی موقع محل کے لحاظ سے تسبیح، دعا اور تعوذ بھی ہونا چاہیے، نیز ایک ہی آیت یا تسبیح یا دعا کو نماز میں با ربار دہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے کسی خصوصی نقل کی ضرورت نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات قیام میں صرف ایک آیت (ان تعذبھم فانھم عبادک۔۔۔) پر اکتفا کیا اور اسے ہی بار بار دہراتے رہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1666   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1047  
´رکوع کی دعا (ذکر) کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے رکوع کیا تو اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» کہا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1047]
1047۔ اردو حاشیہ: ایک اور روایت میں یہ تسبیحات کم از کم تین دفعہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آخر میں ہے کہ یہ کم از کم رکوع و سجود ہے، لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني: حدیث: 155] صحیح روایت میں بجائے حکم کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی فعل منقول ہے۔ دیکھیے: [صحیح أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 828] لہٰذا کم از کم سجدے میں تین تسبیحات افضل ہیں، ضروری نہیں۔ نیز طاق کی قید کے بغیر تین سے زیادہ تسبیحات بھی کہی جا سکتی ہیں۔ اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ احادیث ہیں جن میں آپ کے قیام، رکوع اور سجدے کی یکساں مقدار بتائی گئی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1047   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث888  
´رکوع اور سجدہ میں پڑھی جانے والی دعا (تسبیح) کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع میں «سبحان ربي العظيم» تین بار، اور سجدہ میں «سبحان ربي الأعلى» تین بار کہتے سنا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 888]
اردو حاشہ:
فائدہ:
تین بار یہ تسبیحات کہنا رکوع اور سجدے کی کم از کم مقدار ہے۔
رسول اللہ ﷺنے نماز تہجد کے رکوع وسجود میں بھی یہ تسبیحات پڑھی ہیں۔
جبکہ یہ رکوع وسجود انتہائی طویل تھے۔
دیکھئے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب استحباب تطویل القراءۃ فی صلاۃ اللیل، حدیث: 772)
اس حدیث کو بعض حضرات نے صحیح کہا ہے۔
دیکھئے: (الارواء، رقم: 333)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 888   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 262  
´رکوع اور سجدے میں تسبیح کا بیان۔`
حذیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ اپنے رکوع میں «سبحان ربي العظيم» اور سجدے میں «سبحان ربي الأعلى» پڑھ رہے تھے۔ اور جب بھی رحمت کی کسی آیت پر پہنچتے تو ٹھہرتے اور سوال کرتے اور جب عذاب کی کسی آیت پر آتے تو ٹھہرتے اور (عذاب سے) پناہ مانگتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 262]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ نفل نمازوں کے ساتھ خاص ہے،
شیخ عبدالحق لمعات التنقيح شرح مشكاة المصابيح میں فرماتے ہیں االظاهر أنه كان في الصلاة محمول عندنا على النوافل یعنی ظاہر یہی ہے کہ آپ نماز میں تھے اور یہ ہمارے نزدیک نوافل پر محمول ہو گا۔
(اگلی حدیث میں اس کے تہجد میں ہونے کی صراحت آ گئی ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 262   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.