الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
77. بَابُ : الدُّعَاءِ
77. باب: جنازے کی دعا کا بیان۔
Chapter: Supplication
حدیث نمبر: 1989
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا الهيثم بن ايوب، قال: حدثنا إبراهيم وهو ابن سعد، قال: حدثنا ابي، عن طلحة بن عبد الله بن عوف، قال:" صليت خلف ابن عباس على جنازة، فقرا بفاتحة الكتاب وسورة وجهر حتى اسمعنا، فلما فرغ اخذت بيده فسالته , فقال: سنة وحق".
أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ أَيُّوبَ، قال: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قال:" صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ وَجَهَرَ حَتَّى أَسْمَعَنَا، فَلَمَّا فَرَغَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ فَسَأَلْتُهُ , فَقَالَ: سُنَّةٌ وَحَقٌّ".
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھی، اور جہر کیا یہاں تک کہ آپ نے ہمیں سنا دیا، جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا: (یہ کیا؟) تو انہوں نے کہا: (یہی) سنت (نبی کا طریقہ) ہے، اور (یہی) حق ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 65 (1335) مختصراً، سنن ابی داود/الجنائز 59 (3198) مختصراً، سنن الترمذی/الجنائز 39 (1016) مختصراً، (تحفة الأشراف: 5764) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   سنن النسائى الصغرى1989عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب وسورة وجهر حتى أسمعنا فلما فرغ أخذت بيده فسألته فقال سنة وحق
   سنن النسائى الصغرى1990عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس على جنازة فسمعته يقرأ بفاتحة الكتاب فلما انصرف أخذت بيده فسألته فقلت تقرأ قال نعم إنه حق وسنة
   جامع الترمذي1027عبد الله بن عباسصلى على جنازة فقرأ بفاتحة الكتاب فقلت له فقال إنه من السنة أو من تمام السنة
   جامع الترمذي1026عبد الله بن عباسقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب
   سنن ابن ماجه1495عبد الله بن عباسقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب
   بلوغ المرام456عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة فقرا بفاتحة الكتاب قال: لتعلموا انها سنة
   سنن أبي داود3198عبد الله بن عباسصليت مع ابن عباس على جنازة، فقرا بفاتحة الكتاب، فقال: إنها من السنة
   صحيح البخاري1335عبد الله بن عباسصليت خلف ابن عباس رضي الله عنهما على جنازة، فقرا بفاتحة الكتاب , قال: ليعلموا انها سنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 456  
´نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے`
سیدنا طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ انہوں نے اس میں سورۃ «فاتحه» پڑھی اور فرمایا (میں نے اس لئے سورۃ «فاتحه» پڑھی ہے) تاکہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ سنت ہے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 456]
لغوی تشریح:
«لِتَعْلَمُو اَنَّها سُنَّةٌ» تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ یہ طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ ہے۔ یہاں سنت سے وہ سنت مراد نہیں جو فرض کے مقابلے میں ہوتی ہے۔ یہ فقہائے کرام کی جدید اصطلاح ہے، لہٰذا یہ اس کے وجوب کے منافی نہیں۔

فائدہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورہ فاتحہ بلند آواز سے پڑھی اور وجہ بھی بیان کر دی کہ تمہیں بتانے کے لیے میں نے ایسا کیا ہے کہ یہ مسنون ہے، گویا نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اونچی آواز سے پڑھنا بھی جائز ہے۔

راوی حدیث:
[ طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ ] یہ (حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف رحمہ اللہ) زہری قرشی مدنی تھے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف مشہور و معروف صحابی کے بھتیجے تھے۔ طلحہ ندی کے لقب سے مشہور تھے۔ ثقہ اور بڑے پائے کے فقیہ تھے۔ اوساط تابعین میں شمار کیے گئے ہیں۔ ۹۷ ہجری میں ۷۲ برس کی عمر میں پا کر فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 456   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1989  
´جنازے کی دعا کا بیان۔`
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورت پڑھی، اور جہر کیا یہاں تک کہ آپ نے ہمیں سنا دیا، جب فارغ ہوئے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور پوچھا: (یہ کیا؟) تو انہوں نے کہا: (یہی) سنت (نبی کا طریقہ) ہے، اور (یہی) حق ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1989]
1989۔ اردو حاشیہ: ثابت ہوا کہ جنازے می بھی قرأت ِ فاتحہ ضروری ہے۔ سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ طریقہ ہے۔ یہاں سنت وجوب کے مقابلے میں نہیں جیسا کہ لفظ حق سے صاف ظاہر ہے۔ «لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب» (صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاۃ، حدیث: 394) کا عموم بھی قرأت ِ فاتحہ کو واجب کرتا ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ احناف بلاوجہ قرأت کے مخالف ہیں۔ اس حدیث کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سورۂ فاتحہ اور دوسری سو رت قرأت کی نیت سے نہیں بلکہ دعا کی نیت سے پڑھی ہوں گی۔ مگر اس ہوں گی کی کوئی دلیل بھی تو ہونی چاہیے۔ آخر قرأت ِ فاتحہ سے مانع کیا ہے؟ کیا جنازے کا دعا ہونا قرأت کی ضد ہے؟ عام نمازوں میں بھی قرأت ِ فاتحہ ہوتی ہے، دعائیں بھی، یہ کون سا جمع بین النقیصین ہے؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1989   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1495  
´نماز جنازہ میں قرآت قرآن کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1495]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لیکن معناً ومتناً صحیح ہے۔
کیونکہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کی بابت صحیح بخاری میں حضرت طلحہ بن عبد اللہ بن عوف سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےساتھ ایک جنازہ پڑھا توانھوں نے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی اور کہا یہ سنت ہے (صحیح البخاري، الجنائز، باب قراۃ فاتحة الکتاب علی الجنازۃ، حدیث: 1335)
اور صحابی کا یہ کہنا کہ یہ سنت ہے مرفوع حدیث کے معنی میں ہوتا ہے۔
اس کا صحابی کے قیاس اور اجتہاد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول یہ سنت ہے سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
جیسا کہ سنن نسائی کی روایت میں بھی موجود ہے۔
دیکھئے: (سنن نسائي، الجنائز، باب الدعاء، حدیث: 1991)
بنا بریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر احادیث کی روشنی میں قابل عمل اور قابل حجت ہے نیز آئندہ آنے والی حدیث سے بھی اسی مسئلے کا اثبات ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1495   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1026  
´نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے میں سورۃ فاتحہ پڑھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1026]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(اگلی اثر کی متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ اس کے راوی ابراہیم بن عثمان ضعیف ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1026   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3198  
´جنازے میں قرآت کا بیان۔`
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور کہا: یہ سنت میں سے ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3198]
فوائد ومسائل:

صحابی کا یہ کہنا کہ یہ سنت ہے۔
مرفوع حدیث کے معنی میں ہوتا ہے۔
اس کا کوئی تعلق صحابی کے قیاس یا اجتہاد سے نہیں ہوتا۔

پہلی تکبیرکے بعد قراءت فاتحہ ہونی چاہیے۔

اس حدیث میں جنازہ جہری آواز سے پڑھنے کی بھی دلیل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3198   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.