الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
103. بَابُ : الأَمْرِ بِالاِسْتِغْفَارِ لِلْمُؤْمِنِينَ
103. باب: مسلمانوں کے لیے مغفرت طلب کرنے کے حکم کا بیان۔
Chapter: The Order To Seek Forgiveness For The Believers
حدیث نمبر: 2039
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا يوسف بن سعيد، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: اخبرني عبد الله بن ابي مليكة، انه سمع محمد بن قيس بن مخرمة , يقول: سمعت عائشة تحدث , قالت: الا احدثكم عني وعن النبي صلى الله عليه وسلم، قلنا: بلى، قالت: لما كانت ليلتي التي هو عندي تعني النبي صلى الله عليه وسلم انقلب فوضع نعليه عند رجليه، وبسط طرف إزاره على فراشه، فلم يلبث إلا ريثما ظن اني قد رقدت، ثم انتعل رويدا، واخذ رداءه رويدا، ثم فتح الباب رويدا، وخرج رويدا، وجعلت درعي في راسي، واختمرت، وتقنعت إزاري، وانطلقت في إثره حتى جاء البقيع، فرفع يديه ثلاث مرات فاطال، ثم انحرف فانحرفت، فاسرع فاسرعت، فهرول فهرولت، فاحضر فاحضرت، وسبقته فدخلت، فليس إلا ان اضطجعت فدخل , فقال:" ما لك يا عائشة حشيا رابية؟" قالت: لا، قال:" لتخبرني او ليخبرني اللطيف الخبير"، قلت يا رسول الله , بابي انت وامي فاخبرته الخبر، قال:" فانت السواد الذي رايت امامي" , قالت: نعم، فلهزني في صدري لهزة اوجعتني، ثم قال:" اظننت ان يحيف الله عليك ورسوله"، قلت: مهما يكتم الناس فقد علمه الله، قال:" فإن جبريل اتاني حين رايت ولم يدخل علي وقد وضعت ثيابك، فناداني فاخفى منك، فاجبته فاخفيته منك، فظننت ان قد رقدت، وكرهت ان اوقظك، وخشيت ان تستوحشي، فامرني ان آتي البقيع فاستغفر لهم، قلت: كيف اقول يا رسول الله؟ قال:" قولي السلام على اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، يرحم الله المستقدمين منا، وإنا إن شاء الله بكم لاحقون".
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ , قَالَتْ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ عَنِّي وَعَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: بَلَى، قَالَتْ: لَمَّا كَانَتْ لَيْلَتِي الَّتِي هُوَ عِنْدِي تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْقَلَبَ فَوَضَعَ نَعْلَيْهِ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، وَبَسَطَ طَرَفَ إِزَارِهِ عَلَى فِرَاشِهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا رَيْثَمَا ظَنَّ أَنِّي قَدْ رَقَدْتُ، ثُمَّ انْتَعَلَ رُوَيْدًا، وَأَخَذَ رِدَاءَهُ رُوَيْدًا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ رُوَيْدًا، وَخَرَجَ رُوَيْدًا، وَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي، وَاخْتَمَرْتُ، وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي، وَانْطَلَقْتُ فِي إِثْرِهِ حَتَّى جَاءَ الْبَقِيعَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَأَطَالَ، ثُمَّ انْحَرَفَ فَانْحَرَفْتُ، فَأَسْرَعَ فَأَسْرَعْتُ، فَهَرْوَلَ فَهَرْوَلْتُ، فَأَحْضَرَ فَأَحْضَرْتُ، وَسَبَقْتُهُ فَدَخَلْتُ، فَلَيْسَ إِلَّا أَنِ اضْطَجَعْتُ فَدَخَلَ , فَقَالَ:" مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ حَشْيَا رَابِيَةً؟" قَالَتْ: لَا، قَالَ:" لَتُخْبِرِنِّي أَوْ لَيُخْبِرَنِّي اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ"، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ، قَالَ:" فَأَنْتِ السَّوَادُ الَّذِي رَأَيْتُ أَمَامِي" , قَالَتْ: نَعَمْ، فَلَهَزَنِي فِي صَدْرِي لَهْزَةً أَوْجَعَتْنِي، ثُمَّ قَالَ:" أَظَنَنْتِ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ"، قُلْتُ: مَهْمَا يَكْتُمُ النَّاسُ فَقَدْ عَلِمَهُ اللَّهُ، قَالَ:" فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ وَلَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ، فَنَادَانِي فَأَخْفَى مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، فَظَنَنْتُ أَنْ قَدْ رَقَدْتِ، وَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَكِ، وَخَشِيتُ أَنْ تَسْتَوْحِشِي، فَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَ الْبَقِيعَ فَأَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قُلْتُ: كَيْفَ أَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" قُولِي السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ".
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں: کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ (عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ نے محسوس کیا کہ میں سو گئی ہوں، پھر آہستہ سے آپ نے جوتا پہنا اور آہستہ ہی سے اپنی چادر لی، پھر دھیرے سے دروازہ کھولا، اور دھیرے سے نکلے، میں نے بھی اپنا کرتا، اپنے سر میں ڈالا اور اپنی اوڑھنی اوڑھی، اور اپنی تہبند پہنی، اور آپ کے پیچھے چل پڑی، یہاں تک کہ آپ مقبرہ بقیع آئے، اور اپنے ہاتھوں کو تین بار اٹھایا، اور بڑی دیر تک اٹھائے رکھا، پھر آپ پلٹے تو میں بھی پلٹ پڑی، آپ تیز چلنے لگے تو میں بھی تیز چلنے لگی، پھر آپ دوڑنے لگے تو میں بھی دوڑنے لگی، پھر آپ اور تیز دوڑے تو میں بھی اور تیز دوڑی، اور میں آپ سے پہلے آ گئی، اور گھر میں داخل ہو گئی، اور ابھی لیٹی ہی تھی کہ آپ بھی اندر داخل ہو گئے، آپ نے پوچھا: عائشہ! تجھے کیا ہو گیا، یہ سانس اور پیٹ کیوں پھول رہے ہیں؟ میں نے کہا: کچھ تو نہیں ہے، آپ نے فرمایا: تو مجھے بتا دے ورنہ وہ ذات جو باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والی ہے مجھے ضرور بتا دے گی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر میں نے اصل بات بتا دی تو آپ نے فرمایا: وہ سایہ جو میں اپنے آگے دیکھ رہا تھا تو ہی تھی، میں نے عرض کیا: جی ہاں، میں ہی تھی، آپ نے میرے سینہ پر ایک مکا مارا جس سے مجھے تکلیف ہوئی، پھر آپ نے فرمایا: کیا تو یہ سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تجھ پر ظلم کریں گے، میں نے کہا: جو بھی لوگ چھپائیں اللہ تعالیٰ تو اس سے واقف ہی ہے، (وہ آپ کو بتا دے گا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرائیل میرے پاس آئے جس وقت تو نے دیکھا، مگر وہ میرے پاس اندر نہیں آئے کیونکہ تو اپنے کپڑے اتار چکی تھی، انہوں نے مجھے آواز دی اور انہوں نے تجھ سے چھپایا، میں نے انہیں جواب دیا، اور میں نے بھی اسے تجھ سے چھپایا، پھر میں نے سمجھا کہ تو سو گئی ہے، اور مجھے اچھا نہ لگا کہ میں تجھے جگاؤں، اور میں ڈرا کہ تو اکیلی پریشان نہ ہو، خیر انہوں نے مجھے حکم دیا کہ میں مقبرہ بقیع آؤں، اور وہاں کے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کروں، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں کیا کہوں (جب بقیع میں جاؤں)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم اللہ المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء اللہ بكم لاحقون» سلامتی ہو ان گھروں کے مومنوں اور مسلمانوں پر، اللہ تعالیٰ ہم میں سے اگلے اور پچھلے (دونوں) پر رحم فرمائے، اور اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم تم سے ملنے (ہی) والے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنائز 35 (974)، (تحفة الأشراف: 17593)، مسند احمد 6/221، ویأتی عند المؤلف بأرقام: 3415، 3416 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
   سنن النسائى الصغرى2039عائشة بنت عبد اللهالسلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين يرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون
   سنن النسائى الصغرى2041عائشة بنت عبد اللهالسلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا وإياكم متواعدون غدا أو مواكلون وإنا إن شاء الله بكم لاحقون اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد
   صحيح مسلم2255عائشة بنت عبد اللهالسلام عليكم دار قوم مؤمنين وأتاكم ما توعدون غدا مؤجلون وإنا إن شاء الله بكم لاحقون اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد
   صحيح مسلم2256عائشة بنت عبد اللهالسلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون
   سنن ابن ماجه1546عائشة بنت عبد اللهالسلام عليكم دار قوم مؤمنين أنتم لنا فرط وإنا بكم لاحقون اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم
   المعجم الصغير للطبراني352عائشة بنت عبد اللهالسلام عليكم ديار قوم مؤمنين أنتم فرطنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2039  
´مسلمانوں کے لیے مغفرت طلب کرنے کے حکم کا بیان۔`
محمد بن قیس بن مخرمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہی تھیں: کیا میں تمہیں اپنے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا کیوں نہیں ضرور بتائیے، تو وہ کہنے لگیں، جب وہ رات آئی جس میں وہ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تھے تو آپ (عشاء) سے پلٹے، اپنے جوتے اپنے پائتانے رکھے، اور اپنے تہبند کا کنارہ اپنے بستر پر بچھایا، آپ صرف اتنی ہی مقدار ٹھہرے جس میں آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2039]
اردو حاشہ:
(1) واقعے کی تفصیلات تو حدیث سے واضح ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال تھا کہ آپ میری باری کی رات کسی اور بیوی کے گھر گئے ہیں، حالانکہ آپ جیسی عادل شخصیت کے لیے یہ ممکن نہ تھا کیونکہ یہ تو ظلم ہے اور نبی کی شخصیت اس سے پاک ہوتی ہے۔ غیرت کے جذبات کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دھیان اس حقیقت کی طرف نہ جاسکا۔ تبھی آپ نے ان کے سینے پر مکا مار کر انھیں حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ چونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر قدم نہیں اٹھاتے تھے، اس لیے اپنے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بھی ذکر فرمایا: ﴿أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ﴾ کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟
(2) اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ آپ پر بیویوں کے درمیان باری مقرر کرنا واجب تھا، ورنہ باری کی خلاف ورزی ظلم نہ ہوتا مگر اس تکلف کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عاادل شخصیت وجوب کے بغیر بھی کسی کا دل نہیں دکھا سکتی تھی۔ آپ کے اخلاق کریمانہ سے بعید تھا کہ آپ کسی کی دل آزاری کرتے۔
(3) معلوم ہوا کہ دعا کے قصد سے قبرستان جانا چاہیے اور لمبی دعا کرنی چاہیے۔ [السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ………] کے علاوہ بھی مزید دعا کرنی جائز ہے۔ علاوہ ازیں ہاتھ اٹھا کر کی جائے یا ویسے ہی کر لی جائے، دونوں طرح جائز ہے۔
(4) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے معلوم ہوا کہ عورت بھی زیارتِ قبر کے لیے جاسکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2039   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1546  
´قبرستان میں پہنچ کر کیا دعا پڑھے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے انہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایک رات) غائب پایا، پھر دیکھا کہ آپ مقبرہ بقیع میں ہیں، اور آپ نے فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين أنتم لنا فرط وإنا بكم لاحقون اللهم لا تحرمنا أجرهم ولا تفتنا بعدهم» اے مومن گھر والو! تم پر سلام ہو، تم لوگ ہم سے پہلے جانے والے ہو، اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے ثواب سے محروم نہ کرنا، اور ان کے بعد ہمیں فتنہ میں نہ ڈالنا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1546]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
اور مزید لکھا ہے کہ اس روایت سے آئندہ آنے والی روایت کفایت کرتی ہے۔
غالباً اسی وجہ سے دیگر محققین نے مذکورہ روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
الحاصل مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
لیکن دیگر روایات کی وجہ سے معناً صحیح ہے۔
تفصیل کےلئے دیکھئے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 487، 486/47 وصحیح ابن ماجة، رقم: 1266)

(2)
قبروں کی زیارت مسنون ہے۔
تاکہ موت یاد آئے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوکر آخرت کی طرف توجہ ہوجائے۔

(3)
قبروں کی زیارت جس طرح دن کے وقت کی جا سکتی ہے۔
رات کو بھی جائز ہے۔

(4)
قبروں کی زیارت کا مقصد فوت ہونے والوں کےلئے دعا ہے۔
فوتشدگان سے کچھ مانگنا جائز نہیں۔
کیونکہ وہ لوگ نہ ہماری باتیں سنتےہیں۔
نہ ہماری درخواست قبول کرسکتے ہیں۔

(5)
السلام و علیکم کہنے سے انھیں سنانا مقصود نہیں بلکہ ان کے لئے دعا اور ان کے حال سے عبرت حاصل کرنا مقصود ہے۔
کہ جس طرح یہ لوگ کل ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔
آج قبروں میں پڑے ہیں۔
ہم پر بھی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے۔
جب ہم اسی طرح دفن ہوجایئں گے اور دوسروں کی دعاؤں کے محتاج ہوں گے۔

(6)
دعا کا آخری جملہ نماز جنازہ کی دعاؤں میں شامل ہے وہاں پڑھنا درست ہے۔
دیکھئے: (سنن ابن ماجة، حدیث: 1498)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1546   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.