الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
The Book of Fasting
7. بَابُ : اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِي الرُّؤْيَةِ
7. باب: رویت ہلال میں ایک شہر والوں سے دوسرے شہر والوں کے اختلاف کا بیان۔
Chapter: The People Of Different Lands Differing In Sighting (The Moon)
حدیث نمبر: 2113
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا إسماعيل، قال: حدثنا محمد وهو ابن ابي حرملة، قال: اخبرني كريب، ان ام الفضل بعثته إلى معاوية بالشام , قال:" فقدمت الشام فقضيت حاجتها، واستهل علي هلال رمضان وانا بالشام، فرايت الهلال ليلة الجمعة، ثم قدمت المدينة في آخر الشهر، فسالني عبد الله بن عباس، ثم ذكر الهلال، فقال: متى رايتم؟ فقلت: رايناه ليلة الجمعة , قال: انت رايته ليلة الجمعة؟ قلت: نعم، ورآه الناس فصاموا وصام معاوية؟ قال: لكن رايناه ليلة السبت، فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما او نراه، فقلت: او لا تكتفي برؤية معاوية واصحابه؟ قال: لا هكذا امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم".
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ , قَالَ:" فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتَهَلَّ عَلَيَّ هِلَالُ رَمَضَانَ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمْ؟ فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ , قَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَرَآهُ النَّاسُ فَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ؟ قَالَ: لَكِنْ رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ، فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ يَوْمًا أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَأَصْحَابِهِ؟ قَالَ: لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
کریب مولیٰ ابن عباس کہتے ہیں: ام فضل رضی اللہ عنہا نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا، اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور میں شام (ہی) میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا، پھر میں مہینہ کے آخری (ایام) میں مدینہ آ گیا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے (حال چال) پوچھا، پھر پہلی تاریخ کے چاند کا ذکر کیا، (اور مجھ سے) پوچھا: تم لوگوں نے چاند کب دیکھا؟ تو میں نے جواب دیا: ہم نے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا، انہوں نے (تاکیداً) پوچھا: تم نے (بھی) اسے جمعہ کی رات کو دیکھا تھا؟ میں نے کہا: ہاں (میں نے بھی دیکھا تھا) اور لوگوں نے بھی دیکھا، تو لوگوں نے (بھی) روزے رکھے، اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی، (تو) انہوں نے کہا: لیکن ہم لوگوں نے ہفتے (سنیچر) کی رات کو دیکھا تھا، (لہٰذا) ہم برابر روزہ رکھیں گے یہاں تک کہ ہم (گنتی کے) تیس دن پورے کر لیں، یا ہم (اپنا چاند) دیکھ لیں، تو میں نے کہا: کیا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا چاند دیکھنا کافی نہیں ہے؟ کہا: نہیں! (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 5 (1087)، سنن ابی داود/الصیام 9 (2332)، سنن الترمذی/الصیام 9 (693)، (تحفة الأشراف: 6357)، مسند احمد 1/306 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   سنن النسائى الصغرى2113عبد الله بن عباسلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين يوما أو نراه فقلت أو لا تكتفي برؤية معاوية وأصحابه قال لا هكذا أمرنا رسول الله
   صحيح مسلم2528عبد الله بن عباسمتى رأيتم الهلال فقلت رأيناه ليلة الجمعة فقال أنت رأيته فقلت نعم ورآه الناس وصاموا وصام معاوية فقال لكنا رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصوم حتى نكمل ثلاثين أو نراه فقلت أو لا تكتفي برؤية معاوية وصيامه فقال لا هكذا أمرنا رسول الله
   سنن أبي داود2332عبد الله بن عباسمتى رأيتم الهلال قلت رأيته ليلة الجمعة قال أنت رأيته قلت نعم وصاموا وصام معاوية ورآه الناس قال لكنا رأيناه ليلة السبت فلا نزال نصومه حتى نكمل الثلاثين أو نراه فقلت أفلا تكتفي برؤية معاوية وصيامه قال لا هكذا أمرنا رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2113  
´رویت ہلال میں ایک شہر والوں سے دوسرے شہر والوں کے اختلاف کا بیان۔`
کریب مولیٰ ابن عباس کہتے ہیں: ام فضل رضی اللہ عنہا نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، تو میں شام آیا، اور میں نے ان کی ضرورت پوری کی، اور میں شام (ہی) میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، میں نے جمعہ کی رات کو چاند دیکھا، پھر میں مہینہ کے آخری (ایام) میں مدینہ آ گیا، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے (حال چال) پوچھا، پھر پہلی تاریخ کے چاند کا ذکر کیا، (اور مجھ سے) پوچھا: تم لوگوں نے چاند کب د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2113]
اردو حاشہ:
(1) یہی حکم دیا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عید کریں گے اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا، البتہ یہ تحقیق ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے۔ جس جگہ چاند نظر آیا ہو، اس کے اردگرد جتنے علاقے میں وہ چاند نظر آ سکتا ہو، اتنے علاقے کے لیے وہ رؤیت معتبر ہوگی۔ اس سلسلے میں علمائے رصد سے رہنمائی حاصل کی جائے۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی جگہ بھی چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آسکتا ہے، لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے پر سارے ملک میں روزہ یا عید ہو سکتے ہیں، البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے، مثلاً: سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے ہیئت و رصد ہی صحیح فیصلہ کر سکتے ہیں، لہٰذا رؤیت ہلال کمیٹی میں ان کی شرکت انتہائی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں چند اصول مسلمہ ہیں: * جب ایک شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے ملتے جلتے طول بلد پر واقع تمام شہروں میں چاند ہوگا، خواہ ان کا درمیان فاصلہ ہزاروں میل ہی میں ہو۔ *کسی شہر میں چاند نظر آئے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں خواہ مخواہ چاند نظر آجائے گا، دیکھنے کی ضرورت نہیں، خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو، البتہ اس کے الٹ ضروری نہیں، یعنی مغرب کا چاند مشرق کے لیے معتبر نہیں، الگ دیکھنا ہوگا۔ *بالائی علاقے میں چاند نظر آئے تو نشیبی علاقے میں چاند کا نظر آنا ضروری نہیں، البتہ اس کے الٹ ضروری ہے، یعنی نشیبی علاقے میں چاند نظر آیا تو بالائی علاقے میں لازماً چاند ہوگا، اور یہ اصول بدیہی ہیں، ان میں اختلاف ممکن نہیں۔
(2) مدینہ منورہ اور دمشق کے درمیان ویسے تو کافی فاصلہ ہے مگر طول بلد کے لحاظ سے صرف چھ درجے کا فرق ہے۔ گویا طلوع اور غروب میں 24 منٹ کا فرق ہے، اتنے فرق سے چاند کی رؤیت میں فرق نہیں پڑتا۔ دونوں جگہ ایک ہی دن چاند ہونا چاہیے، مگر اس دور میں پیغام رسانی کے تیز ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے اتنے فاصلے سے بروقت خبر پہنچنا ناممکن تھا، لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے لیے شام (یعنی دمشق جو اس وقت دارالخلافہ تھا) کی رؤیت کو کافی نہ سمجھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2113   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2332  
´اگر کسی شہر میں دوسرے شہر سے ایک رات پہلے چاند نظر آ جائے تو کیا کرے؟`
کریب کہتے ہیں کہ ام الفضل بنت حارث نے انہیں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا، میں نے (وہاں پہنچ کر) ان کی ضرورت پوری کی، میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نکل آیا، ہم نے جمعہ کی رات میں چاند دیکھا، پھر مہینے کے آخر میں مدینہ آ گیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے چاند کے متعلق پوچھا کہ تم نے چاند کب دیکھا؟ میں نے جواب دیا کہ جمعہ کی رات میں، فرمایا: تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، اور لوگوں نے بھی دیکھا ہے، اور روزہ رکھا ہے، معاویہ نے بھی روزہ رکھا، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: لیک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2332]
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ ہر علاقے والوں کے لیے ان کی اپنی رؤیت کا اعتبار ہے۔
امام شافعی رحمة اللہ علیہ اس میں مزید یوں فرماتے ہیں کہ اگر مختلف علاقوں کا مطلع ایک ہو تو ایک دوسرے کی رؤیت ان کے لیے معتبر ہو گی ورنہ نہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2332   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.