الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں
The Book of Quarrels
5. بَابُ إِخْرَاجِ أَهْلِ الْمَعَاصِي وَالْخُصُومِ مِنَ الْبُيُوتِ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ:
5. باب: جب حال معلوم ہو جائے تو مجرموں اور جھگڑے والوں کو گھر سے نکال دینا۔
(5) Chapter. Turning out the sinners and the quarrel some people of the houses after the impropriety of their behaviour gets evident.
حدیث نمبر: Q2420
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقد اخرج عمر اخت ابي بكر حين ناحت.وَقَدْ أَخْرَجَ عُمَرُ أُخْتَ أَبِي بَكْرٍ حِينَ نَاحَتْ.
‏‏‏‏ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بہن ام فروہ رضی اللہ عنہا نے جب وفات صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر نوحہ کیا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں (ان کے گھر سے) نکال دیا۔

حدیث نمبر: 2420
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن ابي عدي، عن شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن حميد بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لقد هممت ان آمر بالصلاة فتقام، ثم اخالف إلى منازل قوم لا يشهدون الصلاة، فاحرق عليهم".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَتُقَامَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى مَنَازِلِ قَوْمٍ لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے تو یہ ارادہ کر لیا تھا کہ نماز کی جماعت قائم کرنے کا حکم دے کر خود ان لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر کو جلا دوں۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "No doubt, I intended to order somebody to pronounce the Iqama of the (compulsory congregational) prayer and then I would go to the houses of those who do not attend the prayer and burn their houses over them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 602

   صحيح البخاري7224عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر بحطب يحتطب ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم لو يعلم أحدكم أنه يجد عرقا سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء
   صحيح البخاري644عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر بحطب فيحطب ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء
   صحيح البخاري2420عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر بالصلاة فتقام ثم أخالف إلى منازل قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم
   صحيح مسلم1481عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر رجلا يصلي بالناس ثم أخالف إلى رجال يتخلفون عنها فآمر بهم فيحرقوا عليهم بحزم الحطب بيوتهم لو علم أحدهم أنه يجد عظما سمينا لشهدها يعني صلاة العشاء
   صحيح مسلم1483عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر فتياني أن يستعدوا لي بحزم من حطب ثم آمر رجلا يصلي بالناس ثم تحرق بيوت على من فيها
   جامع الترمذي217عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر فتيتي أن يجمعوا حزم الحطب ثم آمر بالصلاة فتقام ثم أحرق على أقوام لا يشهدون الصلاة
   سنن أبي داود549عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر فتيتي فيجمعوا حزما من حطب ثم آتي قوما يصلون في بيوتهم ليست بهم علة فأحرقها عليهم
   سنن أبي داود548عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر بالصلاة فتقام ثم آمر رجلا فيصلي بالناس ثم أنطلق معي برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار
   سنن النسائى الصغرى849عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر بحطب فيحطب ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم لو يعلم أحدهم أنه يجد عظما سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء
   سنن ابن ماجه791عبد الرحمن بن صخرهممت أن آمر بالصلاة فتقام ثم آمر رجلا فيصلي بالناس ثم أنطلق برجال معهم حزم من حطب إلى قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم بالنار
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم102عبد الرحمن بن صخروالذي نفسي بيده، لقد هممت ان آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلا فيؤم الناس
   بلوغ المرام315عبد الرحمن بن صخر والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحتطب ثم آمر بالصلاة فيؤدن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرمامتين حسنتين لشهد العشاء
   المعجم الصغير للطبراني301عبد الرحمن بن صخر لقد هممت أن آمر بالصلاة ، فتقام ، ثم أنظر ، فمن لم يشهد المسجد فأحرق عليه بيته
   مسندالحميدي986عبد الرحمن بن صخرلقد هممت أن أقيم الصلاة، صلاة العشاء، ثم آمر فتياني فيخالفوا إلى بيوت أقوام يتخلفون عن صلاة العشاء، فيحرقون عليهم بحزم الحطب، ولو علم أحدهم أنه يجد مرماتين حسنتين، أو عظما سمينا لشهد الصلاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 102  
´جماعت سے پیچھے رہنے والوں کے لئے وعید`
«. . . 325- وبه: أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: والذي نفسي بيده، لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب، ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها، ثم آمر رجلا فيؤم الناس، ثم أخالف إلى رجال فأحرق عليهم بيوتهم، والذي نفسي بيده، لو يعلم أحدهم أنه يجد عظما سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں تو لکڑیاں اکٹھی کی جائیں، پھر میں نماز کے لیے اذان کا حکم دوں، پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر (نماز نہ پڑھنے والے) لوگوں کو ان کی لاعلمی میں جا پکڑوں اور ان کے گھروں کو جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ان (باجماعت نماز نہ پڑھنے والے) لوگوں میں سے کسی کو معلوم ہو جائے کہ اسے موٹی ہڈی یا بکری کے دو اچھے کھر ملیں تو وہ ضرور عشاء کی نماز میں حاضر ہوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 102]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 644، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ نماز باجماعت واجب ہے اِلا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔
➋ کتاب و سنت کے مخالفین کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی جا سکتی ہے۔
➌ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھارا گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔ [الموطا 130/1 ح289 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 325   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 549  
´جماعت چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ اپنے جوانوں کو لکڑیوں کے گٹھر جمع کرنے کا حکم دوں، پھر میں ان لوگوں کے پاس جو بغیر کسی عذر کے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لیا کرتے ہیں، جاؤں اور ان کے گھروں کو ان کے سمیت آگ لگا دوں۔‏‏‏‏ یزید بن یزید کہتے ہیں: میں نے یزید بن اصم سے پوچھا: ابوعوف! کیا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد جمعہ ہے، یا اور وقتوں کی نماز؟ فرمایا: میرے کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے نہ سنا ہو، انہوں نے نہ جمعہ کا ذکر کیا، نہ کسی اور دن کا۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 549]
549۔ اردو حاشیہ:
مندرجہ بالا دونوں احادیث کے الفاظ تو ایسے ہیں، جو نماز کے لئے جماعت کے فرض عین کا اشارہ دیتے ہیں۔ اگر یہ عام سی سنت ہوتی تو اس کے ترک پر ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگائے جانے کی شدید ترین وعید نہ سنائی جاتی۔ نماز باجماعت آئمہ امت، عطا، اوزاعی، احمد، ابوداؤد، ابن خزیمہ، ابن منذر اور ابن حبان کے نزدیک فرض عین ہے۔ داؤد ظاہری نے جماعت کو صحت صلاۃ کے لئے شرط کہا ہے۔ تمام طرح کے دلائل کی روشنی میں امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو باب وجوب الجماعۃ کے ذیل میں لائے ہیں۔ اور شیخ شوکانی نے اسے سنت موکدہ لکھا ہے۔
➋ جب صرف جماعت چھوڑنے پر اس قدر سخت وعید ہے، تو جو لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے وہ کتنی بڑی سزا کے مستحق ہوں گے۔ بلاشبہ ان کا دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔
➌ ملی اور اجتماعی امور میں رخنہ اندازی یا ان سے پیچھے رہنا بہت بڑا جر م ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارادے کے اظہار سے واضح ہے کہ میں ان کے گھر کو آگ لگا دوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 549   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 849  
´جماعت سے پیچھے رہنے کی شناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا کہ لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں، تو وہ جمع کی جائے، پھر میں حکم دوں کہ نماز کے لیے اذان کہی جائے، پھر ایک شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرے، پھر میں لوگوں کے پاس جاؤں اور ان کے سمیت ان کے گھروں میں آگ لگا دوں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ان میں سے کوئی یہ جانتا کہ اسے (مسجد میں) ایک موٹی ہڈی یا دو اچھے کھر ملیں گے تو وہ عشاء کی نماز میں ضرور حاضر ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 849]
849 ۔ اردو حاشیہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ تو فرمایا مگر اس پر عمل اس لیے نہ کیا کہ گھروں کو آگ لگانے سے عورتیں اور بچے بھی بے گھر ہو جائیں گے جن پر مسجد میں حاضری ضروری نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں جماعت فرض ہے جیسا کہ امام احمد اور بعض محدثین کا خیال ہے۔ اہل ظاہر نے تو اسے نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے۔ اگر جماعت فرض نہ ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ رائے ظاہر نہ فرماتے۔ اور بعض دیگر اہل علم نے اسے تشدید پر محمول کیا ہے جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جماعت فرض کفایہ ہے جب کہ دیگر ائمہ و محدثین نے جماعت کو سنت مؤکدہ کہا ہے۔ حدیث کے ظاہر الفاظ تو امام احمد کے مسلک کی تائید کرتے ہیں۔ اگر جماعت فرض کفایہ ہوتی تو پھر ہر شخص کی حاضری ضروری نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار غضب کے کیا معنی؟ البتہ عذر کی بنا پر جماعت سے غیرحاضری جائز ہے، اس لیے جن بزرگوں نے جماعت کو نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دیا ہے، ان کی بات بلادلیل ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 849   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث791  
´جماعت سے پیچھے رہنے پر سخت وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا پختہ ارادہ ہوا کہ نماز پڑھنے کا حکم دوں اور اس کے لیے اقامت کہی جائے، پھر ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، اور میں کچھ ایسے لوگوں کو جن کے ساتھ لکڑیوں کا گٹھر ہو، لے کر ان لوگوں کے پاس جاؤں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے ہیں، اور ان کے ساتھ ان کے گھروں کو آگ لگا دوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 791]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے لیے نماز باجماعت میں حاضری ضروری ہے کیونکہ نفلی نیکی ادا نہ کرنے پر سزا نہیں دی جاتی۔

(2)
مجرموں پر اچانک چھاپہ مارنا اور انھیں گھر سے نکلنے پر مجبور کرنا جائز ہے۔

(3)
یہ سختی ان لوگوں کے لیے ہے جو بلا عذر جماعت ترک کرتے ہیں کیونکہ بارش وغیرہ کے موقع پر خود رسول اللہﷺ نے مؤذن سے کہلوایا تھا:
(اَلَاصَلُّوا فَي الرِّحَالِ)
 اپنے خیموں یا گھروں میں نماز پڑھ لو۔ (صحیح البخاری، الأذان، باب الرخصة فی المعطر والعلة ان يصلي في الرحلة، حديث: 666)

(4)
رسول اللہ ﷺ نے اس ارادے پر اس لیے عمل نہیں فرمایا کہ گھروں میں عورتیں اور بچے بھی ہوتے ہیں جن پر نماز باجماعت میں حاضری ضروری نہیں۔

(5)
اگرچہ نماز با جماعت سے بلا عذر پیچھے رہنا سخت گناہ ہے تاہم جو شخص عذر کی وجہ سے یا بلاعذر پیچھے رہ جائے اس کی نماز اکیلے ہوجائے گی کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہیں دیا کہ ایسا شخص ضرور کسی اور شخص کو ساتھ ملا کر جماعت سے نماز ادا کرے البتہ اگر وہ کسی کے ساتھ مل کر باجماعت نماز ادا کرے تو اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت زیادہ ثواب ہوگا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 791   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 315  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات گرامی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لئے اذان کا حکم دوں پھر کسی کو نماز پڑھانے کے لئے کہوں پھر میں خود ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں شریک نہیں ہوتے ان کے گھروں میں موجود ہونے کی صورت میں ان کے گھروں کو ان پر آگ لگا کر جلا دوں۔ قسم اس ذات گرامی کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ان میں سے کسی کو اگر یہ علم ہو جائے کہ اس کو گوشت سے پر موٹی ہڈی مل جائے گی یا دو پائے مل جائیں گے تو نماز عشاء میں لپک کر شامل ہو جائے گا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 315»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب وجوب صلاة الجماعة، حديث:644، ومسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:651.»
تشریح:
اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا فرض عین ہے‘ فرض کفایہ یا سنت مؤکدہ نہیں ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ فرض عین نہ ہوتی تو تارکین جماعت کے لیے اتنی سخت اور شدید وعید اور دھمکی نہ دی جاتی۔
ظاہریہ‘ عطاء‘ اوزاعی‘ امام احمد‘ ابوثور‘ ابن خزیمہ‘ ابن منذر اور ابن حبان رحمہم اللہ وغیرہ کا یہی موقف ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا فرض ہے۔
مگر امام شافعی رحمہ اللہ فرض کفایہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ اگر جماعت کے ساتھ ادا کر لیں تو باقی لوگوں سے باجماعت عدم ادائیگی کی باز پرس نہیں کی جائے گی۔
متقدمین شافعیہ ‘ بعض احناف اور مالکیہ کا بھی یہی قول ہے‘ البتہ صاحبین اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کے نزدیک سنت مؤکدہ ہے۔
فرض کفایہ اس لیے نہیں ہے کہ جب کچھ لوگ جماعت میں شامل ہوگئے پھر شامل نہ ہونے والوں کے گھروں کو آگ لگا کر جلا دینے کی کیا ضرورت تھی؟ فرض کفایہ تو چند لوگوں کے ادا کرنے سے پورا ہو جاتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 315   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2420  
2420. حضرت ابوہریر ب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ نماز کھڑی کردینے کا حکم دوں۔ جب کھڑی کردی جائے تو خود ان لوگوں کی طرف نکلوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔ پھر ان سمیت (ان کے) گھروں کو آگ لگادوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2420]
حدیث حاشیہ:
اس سے بھی ثابت ہوا کہ خطاکاروں پر کس حد تک تعزیر کا حکم ہے۔
خصوصاً نماز باجماعت میں تساہل برتنا اتنی بڑی غلطی ہے جس کے ارتکاب کرنے والوں پر آپ ﷺ نے اپنے انتہائی غیظ و غضب کا اظہار فرمایا۔
اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔
تشریح:
حدیث میں لفظ فأحرق علیهم سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ جب گھر جلائے جائیں گے تو وہ نکل بھاگیں گے۔
پس گھر سے نکالنا جائز ہوا۔
ہمارے شیخ امام ابن قیم نے اس حدیث سے اور کئی حدیثوں سے دلیل لی ہے۔
کہ شریعت میں تعزیر بالمال درست ہے یعنی حاکم اسلام کسی جرم کی سزا میں مجرم کو مالی تاوان کر سکتا ہے۔
پچھلے باب میں مدعی اور مدعی علیہ کے باہمی ناروا کلام کے بارے میں کچھ نرمی تھی۔
مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ نے یہ باب منعقد فرما کر اشارہ کیا کہ اگر حد سے باہر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہوسکتی ہے۔
ان کو عدالت سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔
حضرت امام نے حضرت عمر ؓ کے اس اقدام سے استدلال فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی وفات پر خود ان کی بہن ام فروہ ؓ کو جب نوحہ کرتے دیکھا تو ان کو گھر سے نکلوا دیا۔
بلکہ بعض دوسری نوحہ کرنے والی عورتوں کو درے مار مار کر گھر سے باہر نکالا۔
فثبتت مشروعیة الاقتصار علی إخراج أهل المعصیة من باب الولي و محل إخراج الخصوم إذا وقع منهم من المراء واللدد ما یقتضي ذلك (فتح الباري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2420   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2420  
2420. حضرت ابوہریر ب سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ نماز کھڑی کردینے کا حکم دوں۔ جب کھڑی کردی جائے تو خود ان لوگوں کی طرف نکلوں جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے۔ پھر ان سمیت (ان کے) گھروں کو آگ لگادوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2420]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف اپنے قہر و غضب کا اظہار کیا ہے جو نماز کا وقت ہونے پر اذان سنتے ہیں لیکن مشاغل ترک کر کے نماز باجماعت ادا نہیں کرتے۔
آپ نے فرمایا:
میں ایسے لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دینا چاہتا ہوں کیونکہ جب ان کے گھر جلائے جائیں گے تو وہ خود نکل کر بھاگ جائیں گے، اس بنا پر اہل معاصی کا گھروں سے نکالنا ثابت ہوا۔
(2)
اس سے پہلے عنوان میں مدعی اور مدعا علیہ کے درمیان ناروا گفتگو کے متعلق کچھ نرمی تھی، اب اشارہ کیا کہ حد سے بڑھ کر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہو سکتی ہے، انہیں عدالت سے باہر نکالا جا سکتا ہے، اس اعتبار سے یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2420   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.