الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
50. بَابُ : التَّمَتُّعِ
50. باب: حج تمتع کا بیان۔
Chapter: Tamattu
حدیث نمبر: 2736
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن المثنى، ومحمد بن بشار واللفظ له، قالا: حدثنا محمد، قال: حدثنا شعبة، عن الحكم، عن عمارة بن عمير، عن إبراهيم بن ابي موسى، عن ابي موسى، انه كان يفتي بالمتعة، فقال له رجل: رويدك ببعض فتياك فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعد، حتى لقيته فسالته، فقال عمر: قد علمت ان النبي صلى الله عليه وسلم قد فعله، ولكن كرهت ان يظلوا معرسين بهن في الاراك، ثم يروحوا بالحج تقطر رءوسهم".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ، حَتَّى لَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ، وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعَرِّسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُوا بِالْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتاوے کو ملتوی رکھیں ۱؎ آپ کو امیر المؤمنین (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) نے اس کے بعد حج کے سلسلے میں جو نیا حکم جاری کیا ہے وہ معلوم نہیں، یہاں تک کہ میں ان سے ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے، لیکن میں یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ لوگ «اراک» میں اپنی بیویوں سے ہمبستر ہوں، پھر وہ صبح ہی حج کے لیے اس حال میں نکلیں کہ ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحج 22 (1222)، سنن ابن ماجہ/الحج 40 (2979)، (تحفة الأشراف: 10584)، مسند احمد (1/49)، سنن الدارمی/المناسک 18 (1856) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آپ کا یہ فتویٰ امیر المؤمنین کے جاری کردہ حکم کے خلاف ہو اور وہ تم پر ناراض ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح مسلم2961إبراهيم بن عبد اللهفعله وأصحابه ولكن كرهت أن يظلوا معرسين بهن في الأراك ثم يروحون في الحج تقطر رءوسهم
   سنن ابن ماجه2979إبراهيم بن عبد اللهرسول الله فعله وأصحابه ولكني كرهت أن يظلوا بهن معرسين تحت الأراك ثم يروحون بالحج تقطر رءوسهم
   سنن النسائى الصغرى2736إبراهيم بن عبد اللهفعله ولكن كرهت أن يظلوا معرسين بهن في الأراك ثم يروحوا بالحج تقطر رءوسهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2736  
´حج تمتع کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ تمتع کا فتویٰ دیتے تھے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتاوے کو ملتوی رکھیں ۱؎ آپ کو امیر المؤمنین (عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ) نے اس کے بعد حج کے سلسلے میں جو نیا حکم جاری کیا ہے وہ معلوم نہیں، یہاں تک کہ میں ان سے ملا، اور میں نے ان سے پوچھا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے، لیکن میں یہ اچھا نہیں سمجھتا کہ لوگ «اراک» میں اپنی بیویوں سے ہمبستر ہوں، پھر وہ صبح [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2736]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت سے حقیقت حال واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے شرعاً جائز سمجھتے تھے مگر مذکورہ علت کی وجہ سے حج تمتع کو بہتر نہ سمجھا جو کہ آپ کی ایک اجتہادی غلطی تھی، تاہم درست یہی ہے کہ حج تمتع افضل ہے۔ واللہ أعلم
(2) نبی اکرمﷺ نے یہ کیا ہے۔ یعنی آپ نے یہ حکم دیا تھا ورنہ آپ حلال نہ ہوئے تھے۔ یا لغوی معنیٰ میں آپ نے تمتع کیا ہے۔ اور اس معنیٰ میں تو حضرت عمر بھی تمتع (قران) کو ناپسند نہیں فرماتے تھے۔
(3) پیلو کے درختوں کے نیچے ان دنوں وہاں یہ درخت عام ہوں گے، اس لیے اتفاقاً ان کا ذکر فرمایا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2736   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2979  
´حج تمتع کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتوؤں سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ آپ کے بعد امیر المؤمنین نے حج کے مسئلہ میں جو نئے احکام دئیے ہیں وہ آپ کو معلوم نہیں، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے پوچھا، تو آپ نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیا ہے، لیکن مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے عورتوں کے ساتھ رات گزاریں پھر حج کو جائیں، اور ان کے سروں سے پانی ٹپک رہا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2979]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس روایت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج تمتع کو شرعاً ممنوع نہیں سمجھتے تھے۔

(2)
رسول اللہ ﷺ نے حج قران ادا کیا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تمتع کیا ہے۔
اس سے تمتع کا لغوی معنی مراد ہے۔
یعنی ایک سفر میں حج اور عمرہ دونوں کا فائدہ حاصل کرنا۔
یا یہ مطلب ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم ﷺ کے حکم سے تمتع کیا۔
آپ کے حکم کو عمل کے برابر قرار دیتے ہوئے یہ جملہ فرمایا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2979   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.