الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
189. بَابُ : مَا ذُكِرَ فِي مِنًى
189. باب: منیٰ کا بیان۔
Chapter: What Was Mentioned Concerning Mina
حدیث نمبر: 2998
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع، عن ابن القاسم، حدثني مالك، عن محمد بن عمرو بن حلحلة الدؤلي، عن محمد بن عمران الانصاري، عن ابيه، قال: عدل إلي عبد الله بن عمر، وانا نازل تحت سرحة بطريق مكة، فقال: ما انزلك تحت هذه الشجرة؟ فقلت: انزلني ظلها، قال عبد الله: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذا كنت بين الاخشبين من منى، ونفخ بيده نحو المشرق، فإن هناك واديا يقال له السربة" , وفي حديث الحارث: يقال له السرر به سرحة سر تحتها سبعون نبيا".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَدَلَ إِلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَةٍ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَقَالَ: مَا أَنْزَلَكَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ؟ فَقُلْتُ: أَنْزَلَنِي ظِلُّهَا، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كُنْتَ بَيْنَ الْأَخْشَبَيْنِ مِنْ مِنًى، وَنَفَخَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، فَإِنَّ هُنَاكَ وَادِيًا يُقَالُ لَهُ السُّرَّبَةُ" , وَفِي حَدِيثِ الْحَارِثِ: يُقَالُ لَهُ السُّرَرُ بِهِ سَرْحَةٌ سُرَّ تَحْتَهَا سَبْعُونَ نَبِيًّا".
عمران انصاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میری طرف مڑے اور میں مکہ کے راستہ میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا، تو انہوں نے پوچھا: تم اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو؟ میں نے کہا: مجھے اس کے سایہ نے (کچھ دیر آرام کرنے کے لیے) اتارا ہے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم منیٰ کے دو پہاڑوں کے بیچ ہو، آپ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا تو وہاں ایک وادی ہے جسے سربہ کہا جاتا ہے، اور حارث کی روایت میں ہے اسے سرربہ کہا جاتا ہے تو وہاں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر انبیاء کے نال کاٹے گئے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 7367) موطا امام مالک/الحج 81 (249)، مسند احمد (2/138) (ضعیف) (اس کے رواة ”محمد بن عمران“ اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، محمد بن عمران: لم يوثقه غير ابن حبان. وللحديث شاهد ضعيف، عند أبى يعلي (5723) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 344
   سنن النسائى الصغرى2998عبد الرحمن بن معاذإذا كنت بين الاخشبين من منى، ونفخ بيده نحو المشرق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن نسائي 2998  
´جگہوں، مکامات سے تبرک`
«. . . عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: عَدَلَ إِلَيَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَةٍ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، فَقَالَ: مَا أَنْزَلَكَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ؟ . . .»
. . . عمران انصاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میری طرف مڑے اور میں مکہ کے راستہ میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا، تو انہوں نے پوچھا: تم اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو؟ . . . [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج: 2998]

فقہ الحدیث:
یہ روایت ضعیف اور منکر ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی محمد بن عمران انصاری مجہول ہے۔
◈ امام ابن حبان [الثقات: 7؍411] کے علاوہ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
«لا يدرٰى من هو، ولا أبوه .»
اس کا اور اس کے باپ کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال: 3؍672]
◈ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب: 6198]

➋ اس کا باپ عمران انصاری بھی مجہول ہے۔
اس کے بارے میں:
◈ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«فلا ادري من هو .»
میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟ [التمھید لما فی الموطا من المعانی والاسانید: 64/13]
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«لا يدري من هو، تفرد عنه ابنه محمد، وحديثه فى الموطا، وهو منكر .» کوئی پتہ نہیں کہ کون ہے؟ اس سے صرف اس کا بیٹا محمد بیان کرتا ہے، اس کی روایت مؤطا میں ہے، جو کہ منکر ہے۔ [ميزان الاعتدال فى نقد الرجال: 3؍245، ت: 6325]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقبول (مجہول الحال) کا فیصلہ دیا ہے۔ [تقريب التهذيب: 5176]
اسے صرف سلمہ بن قاسم نامی ایک ضعیف شخص نے «لا باس» کہا ہے۔

دوسری سند:
مسند ابی یعلیٰ [5723] کی روایت کے الفاظ یوں ہیں:
«لقد سر فى ظل سرحة سبعون نبيا، لا تسرف ولا تجرد ولا تعبل»
اس درخت کے سائے میں ستر انبیاءِ کرام کی ناف کاٹی گئی۔ اسے کیڑا نہیں لگتا، نہ اس کے پتے خشک ہوتے ہیں نہ گرتے ہیں۔
تبصرہ:
یہ سند بھی ضعیف ہے، کیونکہ:
➊ ابومعایہ ضریر مدلس ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
➋ سلیمان بن مہران اعمش بھی مدلس ہیں۔
➌ عبداللہ بن ذکوان نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا زمانہ نہیں پایا۔ [المراسیل لابن أبی حاتم، ص: 111]
↰ لہذا یہ سند مدلس اور منقطع ہے۔

تیسری سند:
اس کی ایک تیسری سند أخبار مکۃ للفاکھی [2333] میں آتی ہے،
تبصرہ:
لیکن اس میں:
➊ سفیان بن عیینہ مدلس ہیں اور سماع کی تصریح نہیں کی۔
➋ محمد بن عجلان بھی مدلس ہیں، انہوں نے بھی سماع کی تصریح نہیں کی۔
محمد بن عجلان کی متابعت معمر بن راشد نے مصنف عبدالرزاق [20975] میں کر رکھی ہے، لیکن اس میں امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی کی تدلیس ہے، لہٰذا یہ متابعت چنداں مفید نہیں۔
رجل مبہم بھی موجود ہے۔

فائدہ:
اس ضعیف و منکر روایت میں تبرک کے حوالے سے کچھ بھی نہیں، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ پھر بھی بعض لوگ اپنے مزعومہ تبرکات کے ثبوت پر پیش کرتے ہیں۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 78-73، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2998  
´منیٰ کا بیان۔`
عمران انصاری کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میری طرف مڑے اور میں مکہ کے راستہ میں ایک درخت کے نیچے اترا ہوا تھا، تو انہوں نے پوچھا: تم اس درخت کے نیچے کیوں اترے ہو؟ میں نے کہا: مجھے اس کے سایہ نے (کچھ دیر آرام کرنے کے لیے) اتارا ہے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب تم منیٰ کے دو پہاڑوں کے بیچ ہو، آپ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا تو وہاں ایک وادی ہے جسے سربہ کہا جاتا ہے، اور حارث کی روا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2998]
اردو حاشہ:
یہ روایت ضعیف ہے، تاہم یہ تو واضح ہے کہ منیٰ بھی ایک متبرک مقام ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کوئی درخت تلاش کر کے نمازیں پڑھی جائیں اور اسے مرجع خلائق قرار دیا جائے۔ کیا یہ کافی نہیں کہ وہاں حاجی لوگ چار پانچ دن ٹھہرتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، تکبیریں پڑھتے ہیں، قربانیاں کرتے ہیں وغیرہ؟ کیا یہ سب کچھ تعظیم کے لیے کافی نہیں؟ کیا ضروری ہے کہ ان سے بڑھ کر خود ساختہ تعظیم کی جائے؟ خصوصاً جب یہ خطرہ ہو کہ لوگ اس درخت کو معبود کی طرح سمجھنے لگیں گے۔ اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت رضوان والا درخت کٹوا دیا تھا، جب لوگ جوق در جوق وہاں جا کر خصوصی نمازیں پڑھنے لگے تھے۔ دیکھیے: (فتح الباری، تحت حدیث: 4165) خطرہ تھا کہ کہیں لوگ اس درخت کو نفع ونقصان کا مالک ہی نہ سمجھنا شروع کر دیں جیسا کہ بہت سے تبرکات صالحین کے ساتھ ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2998   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.