الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
30. بَابُ : إِنْكَاحِ الرَّجُلِ ابْنَتَهُ الْكَبِيرَةَ
30. باب: باپ کا اپنی بڑی بیٹی کی شادی کرنے کا بیان۔
Chapter: A Man Marrying Off His Grown Daughter
حدیث نمبر: 3261
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا محمد بن عبد الله بن المبارك، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، قال: حدثنا ابي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال: اخبرني سالم بن عبد الله , انه سمع عبد الله بن عمر يحدث , ان عمر بن الخطاب رضي الله عنه حدثنا , قال: يعني:" تايمت حفصة بنت عمر من خنيس بن حذافة السهمي وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتوفي بالمدينة، قال عمر: فاتيت عثمان بن عفان رضي الله عنه، فعرضت عليه حفصة بنت عمر، قال: قلت: إن شئت انكحتك حفصة، قال: سانظر في امري فلبثت ليالي، ثم لقيني، فقال: قد بدا لي ان لا اتزوج يومي هذا، قال عمر: فلقيت ابا بكر الصديق رضي الله عنه، فقلت: إن شئت زوجتك حفصة بنت عمر، فصمت ابو بكر، فلم يرجع إلي شيئا فكنت عليه اوجد مني على عثمان، فلبثت ليالي، ثم خطبها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فانكحتها إياه، فلقيني ابو بكر، فقال: لعلك وجدت علي حين عرضت علي حفصة، فلم ارجع إليك شيئا، قال عمر: قلت: نعم، قال: فإنه لم يمنعني ان ارجع إليك شيئا فيما عرضت علي، إلا اني قد كنت علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد ذكرها، ولم اكن لافشي سر رسول الله صلى الله عليه وسلم ولو تركها رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلتها".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ , أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَنَا , قَالَ: يَعْنِي:" تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ عُمَرُ: فَأَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ، قَالَ: سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ لَقِيَنِي، فَقَالَ: قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا، قَالَ عُمَرُ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ زَوَّجْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا فَكُنْتُ عَلَيْهِ أَوْجَدَ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ، فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا، قَالَ عُمَرُ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ شَيْئًا فِيمَا عَرَضْتَ عَلَيَّ، إِلَّا أَنِّي قَدْ كُنْتُ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا، وَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ تَرَكَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبِلْتُهَا".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابی رسول خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کا مدینہ میں انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا، اور کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دیتا ہوں، انہوں نے کہا: میں اپنے بارے میں غور کر کے بتاؤں گا، میں کئی دن ٹھہرا (انتظار کرتا) رہا، پھر وہ مجھ سے ملے اور کہا: میرے غور و فکر میں یہی آیا ہے کہ میں ان دنوں شادی نہ کروں۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: اگر آپ پسند کریں تو حفصہ سے آپ کی شادی کر دوں، (یہ سن کر) ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے، اور مجھے کچھ بھی جواب نہ دیا۔ مجھے ان پر عثمان رضی اللہ عنہ کے مقابل میں زیادہ ہی غصہ آیا، پھر چند ہی راتیں گزری تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اپنے لیے نکاح کا پیغام دیا تو میں نے ان کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا۔ پھر مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور کہا: غالباً آپ کو اس وقت بڑا غصہ آیا ہو گا جب آپ نے مجھے حفصہ سے نکاح کی پیشکش کی تھی اور (میری جانب سے) آپ کو کوئی جواب نہ ملا، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا: ہاں، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ کی پیش کش کا جواب نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ مجھے معلوم تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ کا ذکر فرما چکے تھے اور میں آپ کا راز فاش کرنے والا نہیں تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو میں انہیں قبول کر لیتا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3250 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
   صحيح البخاري4005عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5145عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   صحيح البخاري5122عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها فلم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3261عبد الله بن عمرخطبها رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال علمت أن رسول الله قد ذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3250عبد الله بن عمرخطبها إلي رسول الله فأنكحتها إياه فلقيني أبو بكر قال سمعت رسول الله يذكرها ولم أكن لأفشي سر رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5145  
´پیغام چھوڑ دینے کی وجہ بیان کرنا`
«. . . أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ،" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ، قَالَ عُمَرُ: لَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتَ أَنْكَحْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ، ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ إِلَّا أَنِّي قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَوْ تَرَكَهَا لَقَبِلْتُهَا . . .»
. . . سالم بن عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری بیٹی حفصہ رضی اللہ عنہا بیوہ ہوئیں تو میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کا نکاح عزیزہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما سے کر دوں۔ پھر کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نکاح کا پیغام بھیجا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا آپ نے جو صورت میرے سامنے رکھی تھی اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ مجھے معلوم تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ذکر کیا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ کا راز کھولوں ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیتے تو میں ان کو قبول کر لیتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5145]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5145 کا باب: «بَابُ تَفْسِيرِ تَرْكِ الْخِطْبَةِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب سے خطبہ ترک کرنے کی تفسیر کو واضح کر رہے ہیں اور تحت الباب ام المومنیں حفصہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ کو پیش فرماتے ہیں، حالانکہ تحت الباب جس حدیث کو پیش کیا جا رہا ہے وہ حدیث سے مناسبت نہیں رکھتی کیونکہ تحت الباب حدیث میں خطبہ ترک کرنے کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

چنانچہ ابن بطال اس اعتراض کو نقل کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«تقدم فى الباب الذى قبله تفسير ترك الخطبة صريحا فى قوله: حتى ينكح او يترك وحديث عمر فى قصة حفصه رضي الله عنها لا يظهر منه تفسير ترك الخطبة لأن عمر لم يكن علم أن النبى صلى الله عليه وسلم خطب حفصه، قال: ولكنة قصد معنى دقيقاً يدل على ثقوب ذهنة ورسوخه الاستنباط.» [فتح الباري لابن حجر: 172/10]
یعنی بظاہر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس واقعہ کی کوئی مناسبت ترجمۃ الباب سے معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اس واقعہ میں خطبہ ترک کرنے کی کوئی تفسیر معلوم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث اس بات کے تحت ذکر کر کے ایک لطیف اور دقیق استنباط فرمایا ہے اور وہ یہ تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کا پیغام بھیجیں گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کو رد نہیں کریں گے۔
لہٰذا ابن بطال رحمہ اللہ کی مطابقت سے سے ترجمہ الباب اور حدیث میں بہترین مناسبت قائم ہو جاتی ہے۔

ابن بطال رحمہ اللہ کی اس مناسبت پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وما ابداه ابن بطال ادق وأولي»
یعنی ابن بطال کا قول دقیق اور اولیٰ ہے۔

ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب مذکورہ واقعہ ذکر کر کے «خطبه على الخطبه» کی مطلقاً ممانعت بیان فرمائی ہے، کیونکہ مذکورہ واقعہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکار فرما دیا تھا، حالانکہ خاطب اور ولی کے مابین ابھی بات طے نہیں ہوئی تھی اور پیغام نکاح بھی نہیں بھیجا گیا تھا ابھی صرف ارادہ اور خیال تھا تو جس صورت میں پیغام نکاح بھیج دیا گیا ہو اس میں بطریق اولیٰ خطبہ نہیں بھیجنا چاہیے۔ [المتواري: ص291]
اسی مفہوم کے قریب قریب مطابقت ابن الملقن نے بھی دی ہے۔ [التوضيح: 443/24]

محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«أن الامام البخاري اشاره أن اراده الرجل الخطبة أيضاً داخل فى الخطبة، لأن ابابكر امتنع عن الخطبة لعلمه إرداة صلى الله عليه وسلم الخطبة، مع أنه صلى الله عليه وسلم لم يخطب بعد، واذا كانت إراداة الخطبة فى حكم الخطبة فترك الإراداة تركها، فطابق الحديث بالترجمة.» [الابواب و التراجم: 218/5]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب آدمی کا خطبہ کا ارادہ ہوتا ہے تو وہ ارادہ خطبہ میں دخل ہے، کیونکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رک گئے تھے، خطبہ سے کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے کو جانتے تھے، جبکہ ارادہ خطبہ، خطبہ میں داخل ہے۔ پس انہوں نے اپنے خطبہ کے ارادے کو ترک کر دیا پس یہیں سے مطابقت ہے ترجمۃ الباب سے۔

علامہ عینی رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
«مطابقته للترجمه تؤخذ من قوله فلقيني ابوبكر الى اخره، فان فيه اعتزار أبى بكر لعمر عن ترك خطبة واجابته لعمر لعلمه بأنه صلى الله عليه وسلم يريد خطبتها وهذا تفسير من ابي بكر لترك الخطبة.» [عمدة القاري للعيني: 185/20]
ترجمہ الباب سے حدیث کی مطابقت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں الفاظ ہیں، «فلقيني ابوبكر» پس ان الفاظوں میں عذر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں، پس یہ تفسیر ہے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خطبہ کے ترک کرنے کی۔

شارحین کے اقتباسات سے یہ واضح ہوا کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، پس یہی تفسیر خطبہ ہے اور یہیں سے باب اور حدیث میں مناسب قائم ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3261  
´باپ کا اپنی بڑی بیٹی کی شادی کرنے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ صحابی رسول خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کا مدینہ میں انتقال ہو گیا، ان کے انتقال سے حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بیوہ ہو گئیں، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ ان کے سامنے پیش کیا، اور کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ سے کر دیتا ہوں، انہوں نے کہا: میں اپنے بارے میں غور کر کے بتاؤں گا، میں کئی دن ٹھہرا (انتظار کرتا) رہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3261]
اردو حاشہ:
معلوم ہوا بیوہ عورت کا نکاح بھی اس کا ولی ہی کرے گا، وہ خود نہیں کرے گی۔ امام شافعی رحمہ اللہ بیوہ عورت کے نکاح کے لیے ولی کو شرط قرار نہیں دیتے مگر یہ بات درست نہیں۔ ولی ہر عورت کے لیے ضروری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بیوہ کے نکاح میں ولی کو رکاوٹ نہیں بننا چاہیے بلکہ عورت کی رائے کو مان لینا چاہیے جبکہ کنواری لڑکی کے مسئلے میں ولی عورت کی مخالفت کرسکتا ہے۔ البتہ نکاح وہیں ہوگا جہاں ولی اور لڑکی دونوں راضی ہوں گے۔ واللہ أعلم۔ (یہ حدیث تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے، دیکھیے حدیث: 3250)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3261   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.