الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
6. بَابُ : قَتْلِ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى زِيَادِ بْنِ عِلاَقَةَ عَنْ عَرْفَجَةَ فِيهِ
6. باب: جماعت سے الگ ہونے والے شخص کو قتل کرنے کا بیان اور زیاد بن علاقہ کی عرفجہ سے روایت پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 4025
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرني احمد بن يحيى الصوفي، قال: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا يزيد بن مردانبة، عن زياد بن علاقة، عن عرفجة بن شريح الاشجعي، قال: رايت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر , يخطب الناس , فقال:" إنه سيكون بعدي هنات وهنات، فمن رايتموه فارق الجماعة، او يريد يفرق امر امة محمد صلى الله عليه وسلم كائنا من كان فاقتلوه، فإن يد الله على الجماعة، فإن الشيطان مع من فارق الجماعة يركض".
أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى الصُّوفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ مَرْدَانِبَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ عَرْفَجَةَ بْنِ شُرَيْحٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ , يَخْطُبُ النَّاسَ , فَقَالَ:" إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي هَنَاتٌ وَهَنَاتٌ، فَمَنْ رَأَيْتُمُوهُ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ، أَوْ يُرِيدُ يُفَرِّقُ أَمْرَ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَائِنًا مَنْ كَانَ فَاقْتُلُوهُ، فَإِنَّ يَدَ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ يَرْكُضُ".
عرفجہ بن شریح اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے دیکھا، آپ نے فرمایا: میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، تو تم جسے دیکھو کہ وہ جماعت سے الگ ہو گیا ہے یا امت محمدیہ میں افتراق و اختلاف ڈالنا چاہتا ہے، تو خواہ وہ کوئی بھی ہو اسے قتل کر دو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے الگ ہوا اس کے ساتھ شیطان دوڑتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 14 (1852)، سنن ابی داود/السنة 30 (4762)، مسند احمد (4/261، 341، 5/23)، ویأتي فیما یلي: 4026، 4027 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
   صحيح مسلم4798عرفجة بن شريحمن أتاكم وأمركم جميع على رجل واحد يريد أن يشق عصاكم أو يفرق جماعتكم فاقتلوه
   صحيح مسلم4796عرفجة بن شريحستكون هنات وهنات فمن أراد أن يفرق أمر هذه الأمة وهي جميع فاضربوه بالسيف كائنا من كان
   سنن أبي داود4762عرفجة بن شريحستكون في أمتي هنات وهنات وهنات فمن أراد أن يفرق أمر المسلمين وهم جميع فاضربوه بالسيف كائنا من كان
   سنن النسائى الصغرى4025عرفجة بن شريحسيكون بعدي هنات وهنات فمن رأيتموه فارق الجماعة أو يريد يفرق أمر أمة محمد كائنا من كان فاقتلوه فإن يد الله على الجماعة فإن الشيطان مع من فارق الجماعة يركض
   سنن النسائى الصغرى4026عرفجة بن شريحستكون بعدي هنات وهنات وهنات ورفع يديه فمن رأيتموه يريد تفريق أمر أمة محمد وهم جميع فاقتلوه كائنا من كان من الناس
   سنن النسائى الصغرى4027عرفجة بن شريحستكون بعدي هنات وهنات فمن أراد أن يفرق أمر أمة محمد وهم جمع فاضربوه بالسيف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4025  
´جماعت سے الگ ہونے والے شخص کو قتل کرنے کا بیان اور زیاد بن علاقہ کی عرفجہ سے روایت پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔`
عرفجہ بن شریح اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے دیکھا، آپ نے فرمایا: میرے بعد فتنہ و فساد ہو گا، تو تم جسے دیکھو کہ وہ جماعت سے الگ ہو گیا ہے یا امت محمدیہ میں افتراق و اختلاف ڈالنا چاہتا ہے، تو خواہ وہ کوئی بھی ہو اسے قتل کر دو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو جماعت سے الگ ہوا اس کے ساتھ شیطان دو [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4025]
اردو حاشہ:
(1) یہ حدیث نبوت کی نشانیوں میں سے ہے۔ جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی بعینہٖ اسی طرح فتنے اور فساد ظاہر ہوئے اور یہ سلسلۂ شر تا حال جاری ہے۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْهَا۔
(2) یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ امت مسلمہ میں تفرقہ ڈالنے والا ہر شخص واجب القتل ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ حدیث شریف کے الفاظ ہیں: [فَاقْتُلُوْہُ ] یعنی امت محمدیہ میں پھوٹ ڈالنے والے کو قتل کو دو۔ یہ الفاظ صیغۂ امر پر مشتمل ہیں اور جب تک کوئی قرینۂ صارفہ موجود نہ ہو، امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ چونکہ یہاں کوئی بھی قرینۂ صارفہ نہیں ہے، لہٰذا یہ حکم وجوبی ہے، اس لیے اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ ایسا مجرم اگر اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو اسے قتل کی سزا دے۔ یاد رہے اسلامی حدود کا نفاذ ہر مسلم ملک کے سربراہ کی ذمہ داری ہے۔
(3) اس حدیث سے اللہ جل شانہ کی صفت ید کا اثبات ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ویسا ہی ہے جیسا کہ اس کی ارفع و اعلیٰ ذات کے لائق اور شایان شان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہ تو مخلوق کے ہاتھ کے مشابہ ہے اور نہ اس کے کوئی دوسرے معنیٰ، یعنی قدرت وغیرہ ہی مراد ہیں جیسا کہ مؤولین کرتے ہیں ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ ارشاد باری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا اثبات قرآن مجید سے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ﴾  (الملک: 67:1) ذات بڑی بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں تمام بادشاہی ہے۔
(4) اس حدیث سے جماعت کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور اس کی مدد و نصرت کبھی بھی جماعت سے الگ نہیں ہوتی، اور جماعت سے مراد دھڑے گروپ اور جماعتیں نہیں بلکہ مسلمانوں کی وہ جماعت مراد ہے جو ایک خلیفہ پر متحد ہو، نیز اس حدیث شریف سے امت مسلمہ کے اندر تفرقہ بازی، پھوٹ اور ان کے نقصان دہ اختلاف کی مضرت اور مذمت بھی واضح ہوتی ہے۔ چونکہ اللہ کا ہاتھ اور اس کی مدد جماعت کے ساتھ خاص ہے۔ جب جماعت پھوٹ اور اختلاف کا شکار ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اس جماعت پر سے اٹھ جائے گا اور شیطان کو اس پر غلبہ حاصل ہو جائے گا، پھر وہی ان کا ہاتھ بن جائے گا۔ اور جس کا ساتھی شیطان بن جائے تو وہ بہت ہی برا ساتھی ہے۔ ﴿وَمَنْ يَكُنْ الشَّيْطَانُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَرِينًا﴾ (النساء: 4:38) و اللّٰہ أعلم۔
(5) اس شخص سے مراد یا تو مرتد ہے یا باغی۔ مرتد تو وہ ہے جو مسلمان ہونے کے بعد اسلام سے نکل جائے۔ ایسا شخص اسلام کا دشمن بن جائے گا اور وہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرے گا۔ تجربہ یہی بتاتا ہے، لہٰذا اگر وہ توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔ اور باغی سے مراد وہ ہے جو مسلمانوں کے ایک امیر پر متفق ہو جانے کے بعد الگ جتھہ بندی کر لے۔ چونکہ ایسا شخص بھی امت مسلمہ کا دشمن ہے اور ان کو آپس میں لڑا کر تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے، لہٰذا وہ بھی واجب القتل ہے تاکہ امت مسلمہ اس کے شر سے محفوظ رہے۔ اسی طرح جو شخص امت مسلمہ سے نکل کر کفار کے ساتھ مل جائے، وہ بھی باغی اور مرتد ہے اور اسے بھی قتل کیا جائے گا، خواہ وہ اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتا رہے۔
(6) باغی کی سزا کے بارے میں تو تمام دنیا متفق ہے کہ اس کے فتنے سے بچنے کے لیے اسے سزائے موت دی جا سکتی ہے مگر مرتد کی سزائے موت پر بعض بزعم خویش روشن خیال حضرات کو اعتراض ہے کہ یہ تنگ نظری ہے اور آزادیٔ فکر پر قدغن ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ ایک ملک کے باغی کو سزائے موت دینا تو تنگ نظری نہیں اور نہ اس سے آزادیٔ فکر پر کوئی قدغن عائد ہوتی ہے مگر مذہب کے باغی کو سزائے موت دینا تنگ نظری اور تشدد ہے۔ کیا یہ روشن خیالی ہے؟ انصاف ہے؟ یا تو ہر کسی کو مادر پدر آزاد کر دیجیے کہ وہ مذہب اور ملک کے بارے میں جو مرضی کرے۔ چاہے وہ لوگوں کو قتل کرتا پھرے یا ڈاکے مارتا پھرے، اسے کچھ نہ کہیے کیونکہ یہ تنگ نظری اور آزادیٔ فکر پر پابندی ہے۔ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں۔ تو پھر لازماً ہر شخص کو، جو کوئی دین اختیار کرتا ہے یا کسی ملک کی شہریت اختیار کرتا ہے، کسی نہ کسی ضابطۂ اخلاق کا پابند ہونا پڑے گا۔ اسی میں امن و سکون اور عزت و عافیت بلکہ انسانیت کی بقا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4025   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4762  
´خوارج سے قتال کا بیان۔`
عرفجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میری امت میں کئی بار شر و فساد ہوں گے، تو متحد مسلمانوں کے شرازہ کو منتشر کرنے والے کی گردن تلوار سے اڑا دو خواہ وہ کوئی بھی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4762]
فوائد ومسائل:
یہ فتنہ سب سے پہلے انہی لوگوں نے ڈالا جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ کے خلاف بغاوت کی جو متفق علیہ خلیفہ راشد تھے۔
بعد میں انہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ کے خلاف خروج (بغاوت) کیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4762   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.