الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
15. بَابُ : تَوْبَةِ الْمُرْتَدِّ
15. باب: مرتد کی توبہ کا بیان۔
Chapter: The Repentance of the Apostate
حدیث نمبر: 4074
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا زكريا بن يحيى، قال: حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا علي بن الحسين بن واقد، قال: اخبرني ابي، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال:" في سورة النحل: من كفر بالله من بعد إيمانه إلا من اكره إلى قوله لهم عذاب عظيم سورة النحل آية 106 , فنسخ واستثنى من ذلك، فقال: ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم سورة النحل آية 110 , وهو عبد الله بن سعد بن ابي سرح الذي كان على مصر، كان يكتب لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فازله الشيطان , فلحق بالكفار، فامر به، ان يقتل يوم الفتح، فاستجار له عثمان بن عفان، فاجاره رسول الله صلى الله عليه وسلم".
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" فِي سُورَةِ النَّحْلِ: مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلا مَنْ أُكْرِهَ إِلَى قَوْلِهِ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة النحل آية 106 , فَنُسِخَ وَاسْتَثْنَى مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النحل آية 110 , وَهُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ الَّذِي كَانَ عَلَى مِصْرَ، كَانَ يَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَزَلَّهُ الشَّيْطَانُ , فَلَحِقَ بِالْكُفَّارِ، فَأَمَرَ بِهِ، أَنْ يُقْتَلَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَاسْتَجَارَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ، فَأَجَارَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سورۃ النحل کی اس آیت: «من كفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره‏» جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا سوائے اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو … ان کے لیے درد ناک عذاب ہے (النحل: ۱۰۶) کے بارے میں کہا: یہ منسوخ ہو گئی اور اس سے مستثنیٰ یہ لوگ ہوئے، پھر یہ آیت پڑھی: «ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم» پھر جو لوگ فتنے میں پڑ جانے کے بعد ہجرت کر کے آئے، جہاد کیا اور صبر کیا تو تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے (النحل: ۱۱۰) اور کہا: وہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح تھے جو (عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں) مصر کے والی ہوئے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منشی تھے، انہیں شیطان نے بہکایا تو وہ کفار سے مل گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن حکم دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے تو ان کے لیے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے پناہ طلب کی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پناہ دے دی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الحدود1(4358)، (تحفة الأشراف: 6252) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: باب کی دونوں حدیثوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مرتد اگر توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول ہو گی، ان شاء اللہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
   سنن النسائى الصغرى4074عبد الله بن عباسيكتب لرسول الله فأزله الشيطان فلحق بالكفار فأمر به أن يقتل يوم الفتح فاستجار له عثمان بن عفان فأجاره رسول الله
   سنن أبي داود4358عبد الله بن عباسيكتب لرسول الله فأزله الشيطان فلحق بالكفار فأمر به رسول الله أن يقتل يوم الفتح فاستجار له عثمان بن عفان فأجاره رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4074  
´مرتد کی توبہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے سورۃ النحل کی اس آیت: «من كفر باللہ من بعد إيمانه إلا من أكره‏» جس نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا سوائے اس کے جسے مجبور کیا گیا ہو … ان کے لیے درد ناک عذاب ہے (النحل: ۱۰۶) کے بارے میں کہا: یہ منسوخ ہو گئی اور اس سے مستثنیٰ یہ لوگ ہوئے، پھر یہ آیت پڑھی: «ثم إن ربك للذين هاجروا من بعد ما فتنوا ثم جاهدوا وصبروا إن ربك من بعدها لغفور رحيم» پھر جو لوگ فتنے میں پڑ جانے کے بعد ہجرت کر کے آئے، جہاد کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4074]
اردو حاشہ:
(1) باب سے حدیث شرف کی مطابقت بالکل واضح ہے کہ مرتد کی توبہ بھی قبول ہے۔
(2) آیات و احکام الٰہی کا نسخ شرعاً ثابت ہے اور اس مسئلے کی بابت اہل اسلام کا اجماع ہے کہ دین میں کئی احکام پہلے دئیے گئے، بعد ازاں انہیں منسوخ کر دیا گیا۔ پھر کبھی تو ان سابقہ احکام کی مثل عطا فرمایا گیا اور کبھی ان سے بھی بہتر۔ ارشاد باری ہے: ﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أونَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا﴾ (البقرة: 2:106) جس آیت کو ہم منسوخ کر دیں یا بھلا دیں، اس سے بہتر یا اس جیسی اور لاتے ہیں۔
(3) تشریح و تنسیخ احکام میں محض اللہ عز و جل کی حکمتِ بالغہ کار فرما ہے۔ وہ ہر چیز کو خوب جانتا اور ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔ جب، اور جب تک وہ چاہتا ہے کسی چیز کی بابت اسے بجا لانے کا حکم فرماتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے اسے ختم فرما دیتا ہے۔ وہ ﴿فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾   ہے۔
(4) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی کو زبردستی کفر کرنے پر مجبور کر دیا جائے جبکہ اس شخص کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو وہ شخص قابل مؤاخذہ نہیں۔
(5) اس سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ جب زبردستی کرائے جانے والے کفر پر گرفت نہیں تو جو …کفریہ اعمال… اس سے کم تر درجے کے ہیں، ان پر بطریق اولیٰ کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ بندوق کے زور پر یا کسی اور طریقے سے زبردستی کی جانے والی طلاق بھی نافذ نہیں ہو گی۔
(6) کسی بھی معاملے میں جائز سفارش، حاکم یا غیر حاکم کے پاس کی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عبداللہ بن سعد بن ابو سرح رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سفارش رسول اللہ ﷺ سے کی تھی۔ 
(7) حاکم چاہے تو کسی کی جائز سفارش قبول کر لے، چاہے تو رد کر دے اسے اس کا اختیار ہے۔
(8) رسول اللہ ﷺ کے ہاں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عظیم مقام و مرتبہ بھی اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ایک بہت بڑے مجرم کی بابت ان کی سفارش قبول فرما لی، حالانکہ قبل ازیں نبی ﷺ اسے قتل کرنے کا حکم صادر فرما چکے تھے اور حرم شریف کے اندر بھی اس کا خون بہانا جائز اور حلال ہو چکا تھا۔ وَ لِلّٰہِ دَرُّہٗ۔
(9) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کمال درجے کے مہربان و شفیق انسان تھے۔ مرتد ہو جانے والے، انتہائی ایذا رساں شخص کو معاف کر دینا، آپ کے رحمۃ للعالمین ہونے کا عجیب مظہر ہے۔ صلی اللہ علیه وسلم- فداہ أبي و أمي و عرضي۔
(10) اس بات پر اتفاق ہے کہ مرتد مرد اور مرتد عورت اگر توبہ کر لیں اور دوبارہ اسلام قبول کر لیں تو ان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ بات رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کو یمن بھیجتے وقت ارشاد فرمائی تھی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں تو انہیں بے دریغ قتل کر دیا جائے گا، مرد ہو یا عورت۔ احناف عورت کو ارتداد کی سزا میں قتل کرنے کے قائل نہیں مگر ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4074   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4358  
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشی تھا، پھر شیطان نے اس کو بہکا لیا، اور وہ کافروں سے جا ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا، پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لیے امان مانگی تو آپ نے اسے امان دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4358]
فوائد ومسائل:
1) کوئی مرتد تنفید حد سے پہلے تو بہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہے۔

2) فتنے سے ہمیشہ اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہئے، شیطان کے پھندے بے شمار ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4358   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.