الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قتل و خون ریزی کے احکام و مسائل
The Book Of Fighting (The Prohibition Of Bloodshed)
29. بَابُ : تَحْرِيمِ الْقَتْلِ
29. باب: قتل کی حرمت کا بیان۔
Chapter: The Prohibition of Killing
حدیث نمبر: 4136
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد، وعبد الرحمن , قالا: حدثنا شعبة، عن علي بن مدرك، قال: سمعت ابا زرعة بن عمرو بن جرير، عن جرير، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع استنصت الناس، قال:" لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ , قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَرِيرٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ اسْتَنْصَتَ النَّاسَ، قَالَ:" لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃالوداع میں لوگوں کو خاموش کیا اور فرمایا: میرے بعد تم کافر نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 43 (121)، المغازي 77 (4405)، الدیات 2 (6869)، الفتن 8 (7080)، صحیح مسلم/الإیمان 29 (65)، سنن ابن ماجہ/الفتن 5 (3942)، (تحفة الأشراف: 3236)، مسند احمد (4/358، 363، 366)، سنن الدارمی/المناسک 76 1962) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري4405جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري6869جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري7080جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري121جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   سنن النسائى الصغرى4137جرير بن عبد اللهترجعون بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   سنن النسائى الصغرى4136جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   سنن ابن ماجه3942جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 121  
´عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے`
«. . . عَنْ جَرِيرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، فَقَالَ: لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ . . .»
. . . جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تاکہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ: 121]

تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کو حکم دیا کہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ 10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے، کافر بن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صد افسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہو گئے جو آج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق و انتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیر مقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر و توہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ «والي الله المشتكيٰ»
اقبال مرحوم نے سچ فرمایا:
«اگر تقلید بودے شیوہ خوب . . . پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے»
یعنی تقلید کا شیوہ اگر اچھا ہوتا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 121   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3942  
´(فرمان نبوی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: لوگوں کو خاموش کرو پھر فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3942]
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
بزرگ شخصیت کی بات سننے کے لیے خاموشی اختیار کرنا اور بات کرنے والوں کو خاموش کرانا احترام کا تقاضہ بھی ہے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کے لیے شرط بھی۔

(2)
مسلمانوں کو آپس کے اختلافات افہام و تفہیم سے طے کرنے چاہیئں اسلحہ کے زور پر نہیں۔

(3)
مسلمانوں کا باہمی اتفاق اللہ کا عظیم احسان ہے جیساکہ ارشاد ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾  (آل عمران 3/ 103)
 تم پر اللہ کی جو نعمت ہوئی اسے یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی)
بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تمھیں اس میں گرنے سے بچالیا۔

(4)
مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں محبت پیدا کرنے والی چیزوں کو اختیار کریں مثلاً:
ایک دوسرے کو سلام کرنا، نماز باجماعت میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا اور صفیں سیدھی رکھنا وغیرہ۔
اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو اختلاف اور دشمنی پیدا کرنے والے ہیں مثلاً:
کسی کی بے عزتی کرنا، ظلم زیادتی گالی اور غیبت وغیرہ۔

(5)
قتل وغارت بہت بڑا جرم ہے جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3942   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.