الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ہبہ کےمسائل فضیلت اور ترغیب کا بیان
The Book of Gifts and The Superiority of Giving Gifts and The Exhortation for Giving Gifts
8. بَابُ مَنْ أَهْدَى إِلَى صَاحِبِهِ وَتَحَرَّى بَعْضَ نِسَائِهِ دُونَ بَعْضٍ:
8. باب: اپنے کسی دوست کو خاص اس دن تحفہ بھیجنا جب وہ اپنی ایک خاص بیوی کے پاس ہو۔
(8) Chapter. Whosoever gave a gift to his friend and chose (the time) when he was at the home of some of his wives and did not give it to him, while he was in the homes of his other wives.
حدیث نمبر: 2581
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا إسماعيل، قال: حدثني اخي، عن سليمان، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها،" ان نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم كن حزبين، فحزب فيه: عائشة، وحفصة، وصفية، وسودة، والحزب الآخر: ام سلمة، وسائر نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان المسلمون قد علموا حب رسول الله صلى الله عليه وسلم عائشة، فإذا كانت عند احدهم هدية يريد ان يهديها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم اخرها حتى إذا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت عائشة، بعث صاحب الهدية بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت عائشة، فكلم حزب ام سلمة، فقلن لها: كلمي رسول الله صلى الله عليه وسلم يكلم الناس، فيقول: من اراد ان يهدي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم هدية فليهده إليه حيث كان من بيوت نسائه، فكلمته ام سلمة بما قلن، فلم يقل لها شيئا، فسالنها، فقالت: ما قال لي شيئا؟ فقلن لها: فكلميه، قالت: فكلمته حشين دار إليها ايضا، فلم يقل لها شيئا، فسالنها، فقالت: ما قال لي شيئا؟ فقلن لها: كلميه حتى يكلمك، فدار إليها فكلمته، فقال لها: لا تؤذيني في عائشة، فإن الوحي لم ياتني وانا في ثوب امراة إلا عائشة، قالت: فقالت: اتوب إلى الله، من اذاك يا رسول الله؟ ثم إنهن دعون فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، تقول: إن نساءك ينشدنك الله العدل في بنت ابي بكر، فكلمته، فقال: يا بنية، الا تحبين ما احب، قالت: بلى فرجعت إليهن فاخبرتهن، فقلن: ارجعي إليه، فابت ان ترجع، فارسلن زينب بنت جحش، فاتته فاغلظت، وقالت: إن نساءك ينشدنك الله العدل في بنت ابن ابي قحافة، فرفعت صوتها حتى تناولت عائشة وهي قاعدة، فسبتها حتى إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لينظر إلى عائشة، هل تكلم؟ قال: فتكلمت عائشة ترد على زينب حتى اسكتتها، قالت: فنظر النبي صلى الله عليه وسلم إلى عائشة، وقال: إنها بنت ابي بكر". قال البخاري: الكلام الاخير قصة فاطمة، يذكر، عن هشام بن عروة، عن رجل، عن الزهري، عن محمد بن عبد الرحمن، وقال ابو مروان: عن هشام، عن عروة، كان الناس يتحرون بهداياهم يوم عائشة. وعن هشام، عن رجل من قريش، ورجل من الموالي، عن الزهري، عن محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، قالت عائشة: كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم فاستاذنت فاطمة".حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ نِسَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ حِزْبَيْنِ، فَحِزْبٌ فِيهِ: عَائِشَةُ، وَحَفْصَةُ، وَصَفِيَّةُ، وَسَوْدَةُ، وَالْحِزْبُ الْآخَرُ: أُمُّ سَلَمَةَ، وَسَائِرُ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ قَدْ عَلِمُوا حُبَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ، فَإِذَا كَانَتْ عِنْدَ أَحَدِهِمْ هَدِيَّةٌ يُرِيدُ أَنْ يُهْدِيَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَّرَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، بَعَثَ صَاحِبُ الْهَدِيَّةِ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَكَلَّمَ حِزْبُ أُمِّ سَلَمَةَ، فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ النَّاسَ، فَيَقُولُ: مَنْ أَرَادَ أَنْ يُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً فَلْيُهْدِهِ إِلَيْهِ حَيْثُ كَانَ مِنْ بُيُوتِ نِسَائِهِ، فَكَلَّمَتْهُ أُمُّ سَلَمَةَ بِمَا قُلْنَ، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا؟ فَقُلْنَ لَهَا: فَكَلِّمِيهِ، قَالَتْ: فَكَلَّمَتْهُ حِشينَ دَارَ إِلَيْهَا أَيْضًا، فَلَمْ يَقُلْ لَهَا شَيْئًا، فَسَأَلْنَهَا، فَقَالَتْ: مَا قَالَ لِي شَيْئًا؟ فَقُلْنَ لَهَا: كَلِّمِيهِ حَتَّى يُكَلِّمَكِ، فَدَارَ إِلَيْهَا فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَ لَهَا: لَا تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّ الْوَحْيَ لَمْ يَأْتِنِي وَأَنَا فِي ثَوْبِ امْرَأَةٍ إِلَّا عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَالَتْ: أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ، مِنْ أَذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ ثُمَّ إِنَّهُنَّ دَعَوْنَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَتِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَ: يَا بُنَيَّةُ، أَلَا تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ، قَالَتْ: بَلَى فَرَجَعَتْ إِلَيْهِنَّ فَأَخْبَرَتْهُنَّ، فَقُلْنَ: ارْجِعِي إِلَيْهِ، فَأَبَتْ أَنْ تَرْجِعَ، فَأَرْسَلْنَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ، فَأَتَتْهُ فَأَغْلَظَتْ، وَقَالَتْ: إِنَّ نِسَاءَكَ يَنْشُدْنَكَ اللَّهَ الْعَدْلَ فِي بِنْتِ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، فَرَفَعَتْ صَوْتَهَا حَتَّى تَنَاوَلَتْ عَائِشَةَ وَهِيَ قَاعِدَةٌ، فَسَبَّتْهَا حَتَّى إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَنْظُرُ إِلَى عَائِشَةَ، هَلْ تَكَلَّمُ؟ قَالَ: فَتَكَلَّمَتْ عَائِشَةُ تَرُدُّ عَلَى زَيْنَبَ حَتَّى أَسْكَتَتْهَا، قَالَتْ: فَنَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَائِشَةَ، وَقَالَ: إِنَّهَا بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ". قَالَ الْبُخَارِيُّ: الْكَلَامُ الْأَخِيرُ قِصَّةُ فَاطِمَةَ، يُذْكَرُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ أَبُو مَرْوَانَ: عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، كَانَ النَّاسُ يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ. وَعَنْ هِشَامٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَرَجُلٍ مِنَ المَوَالِي، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، قَالَتْ عَائِشَةُ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَتْ فَاطِمَةُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس نے، ان سے سلیمان نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج دو گروہ میں تھیں۔ ایک میں عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ رضوان اللہ علیہن اور دوسری میں ام سلمہ اور بقیہ تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن تھیں۔ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ محبت کا علم تھا اس لیے جب کسی کے پاس کوئی تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تو انتظار کرتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی باری ہوتی تو تحفہ دینے والے صاحب اپنا تحفہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجتے۔ اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی جماعت کی ازواج مطہرات نے آپس میں مشورہ کیا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کریں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے فرما دیں کہ جسے آپ کے یہاں تحفہ بھیجنا ہو وہ جہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں وہیں بھیجا کرے۔ چنانچہ ان ازواج کے مشورہ کے مطابق انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ان خواتین نے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے کہا کہ پھر ایک مرتبہ کہو۔ انہوں نے بیان کیا پھر جب آپ کی باری آئی تو دوبارہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ ازواج نے اس مرتبہ ان سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسئلہ پر بلواؤ تو سہی۔ جب ان کی باری آئی تو انہوں نے پھر کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ فرمایا۔ عائشہ کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو۔ عائشہ کے سوا اپنی بیویوں میں سے کسی کے کپڑے میں بھی مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر انہوں نے عرض کیا، آپ کو ایذا پہنچانے کی وجہ سے میں اللہ کے حضور میں توبہ کرتی ہوں۔ پھر ان ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ کہلوایا کہ آپ کی ازواج ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں اللہ کے لیے آپ سے انصاف چاہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری بیٹی! کیا تم وہ پسند نہیں کرتی جو میں پسند کروں؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں، اس کے بعد وہ واپس آ گئیں اور ازواج کو اطلاع دی۔ انہوں نے ان سے پھر دوبارہ خدمت نبوی میں جانے کے لیے کہا۔ لیکن آپ نے دوبارہ جانے سے انکار کیا تو انہوں نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو بھیجا۔ وہ خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں تو انہوں نے سخت گفتگو کی اور کہا کہ آپ کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے اللہ کے لیے انصاف مانگتی ہیں اور ان کی آواز اونچی ہو گئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا وہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے (ان کے منہ پر) انہیں بھی برا بھلا کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھنے لگے کہ وہ کچھ بولتی ہیں یا نہیں۔ راوی نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بول پڑیں اور زینب رضی اللہ عنہا کی باتوں کا جواب دینے لگیں اور آخر انہیں خاموش کر دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ ابوبکر کی بیٹی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ آخر کلام فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے متعلق ہشام بن عروہ نے ایک اور شخص سے بیان کیا ہے۔ انہوں نے زہری سے روایت کی اور انہوں نے محمد بن عبدالرحمٰن سے اور ابومروان نے بیان کیا کہ ہشام سے اور انہوں نے عروہ سے کہ لوگ تحائف بھیجنے کے لیے عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اور ہشام کی ایک روایت قریش کے ایک صاحب اور ایک دوسرے صاحب سے جو غلاموں میں سے تھے، بھی ہے۔ وہ زہری سے نقل کرتے ہیں اور وہ محمد بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (اندر آنے کی) اجازت چاہی تو میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خدمت میں موجود تھی۔

Narrated `Urwa from `Aisha: The wives of Allah's Apostle were in two groups. One group consisted of `Aisha, Hafsa, Safiyya and Sauda; and the other group consisted of Um Salama and the other wives of Allah's Apostle. The Muslims knew that Allah's Apostle loved `Aisha, so if any of them had a gift and wished to give to Allah's Apostle, he would delay it, till Allah's Apostle had come to `Aisha's home and then he would send his gift to Allah's Apostle in her home. The group of Um Salama discussed the matter together and decided that Um Salama should request Allah's Apostle to tell the people to send their gifts to him in whatever wife's house he was. Um Salama told Allah's Apostle of what they had said, but he did not reply. Then they (those wives) asked Um Salama about it. She said, "He did not say anything to me." They asked her to talk to him again. She talked to him again when she met him on her day, but he gave no reply. When they asked her, she replied that he had given no reply. They said to her, "Talk to him till he gives you a reply." When it was her turn, she talked to him again. He then said to her, "Do not hurt me regarding Aisha, as the Divine Inspirations do not come to me on any of the beds except that of Aisha." On that Um Salama said, "I repent to Allah for hurting you." Then the group of Um Salama called Fatima, the daughter of Allah's Apostle and sent her to Allah's Apostle to say to him, "Your wives request to treat them and the daughter of Abu Bakr on equal terms." Then Fatima conveyed the message to him. The Prophet said, "O my daughter! Don't you love whom I love?" She replied in the affirmative and returned and told them of the situation. They requested her to go to him again but she refused. They then sent Zainab bint Jahsh who went to him and used harsh words saying, "Your wives request you to treat them and the daughter of Ibn Abu Quhafa on equal terms." On that she raised her voice and abused `Aisha to her face so much so that Allah's Apostle looked at `Aisha to see whether she would retort. `Aisha started replying to Zainab till she silenced her. The Prophet then looked at `Aisha and said, "She is really the daughter of Abu Bakr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 47, Number 755

   صحيح البخاري2580عائشة بنت عبد اللهيتحرون بهداياهم يومي
   صحيح البخاري2581عائشة بنت عبد اللهكان المسلمون قد علموا حب رسول الله عائشة فإذا كانت عند أحدهم هدية يريد أن يهديها إلى رسول الل
   صحيح البخاري2574عائشة بنت عبد اللهيتحرون بهداياهم يوم عائشة يبتغون بها أو يبتغون بذلك مرضاة رسول الله
   صحيح مسلم6289عائشة بنت عبد اللهالناس كانوا يتحرون بهداياهم يوم عائشة يبتغون بذلك مرضاة رسول الله
   سنن النسائى الصغرى3403عائشة بنت عبد اللهالناس يتحرون بهداياهم يوم عائشة يبتغون بذلك مرضاة رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2581  
2581. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ک بیویوں کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ ؓ، حضرت حفصہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ، حضرت سودہ ؓ تھیں، جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ ؓ کے ساتھ باقی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی (والہانہ) محبت کو جانتے تھے، اس لیے جب کسی کے پاس تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا (تو) اس میں تاخیر کرتا حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تشریف فرماہوتے تو ہدیہ بھیجنے والا رسول اللہ ﷺ کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں ہدیہ بھیجتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ام سلمہ ؓ کے گروپ نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ جس کسی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2581]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی بعض بیویاں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں جمع ہوئیں اور یہ کہا کہ تم آنحضرت ﷺ سے عرض کرو کہ آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ وہ ہدئیے اور تحائف بھیجنے میں یہ راہ نہ دیکھتے رہیں کہ آنحضرت ﷺ فلاں بیوی کے گھر تشریف لے جائیں تو ہم تحائف بھیجیں، بلکہ بلا قید آپ کسی بیوی کے پاس ہوں بھیج دیا کریں۔
چنانچہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کے معروضہ پر کچھ التفات نہیں فرمایا۔
وجہ التفات نہ فرمانے کی یہ تھی کہ ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کی درخواست معقول نہ تھی۔
تحفہ بھیجنے والے کی مرضی جب چاہے بھیجے، اس کو جبراً کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا کہ فلاں وقت بھیجے فلاں وقت نہ بھیجے۔
اس طویل حدیث میں اسی واقعہ کی تفصیل مذکور ہے اور حدیث اور باب میں مطابقت ظاہرہے۔
جہاں تک بیویوں کے حقوق واجبہ کا تعلق تھا آنحضرت ﷺ نے سب کے لیے ایک ایک رات کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی اور اسی کے مطابق عمل درآمد ہورہا تھا۔
چونکہ حضرت عائشہ ؓ کے کچھ خصوصی اوصاف حسنہ تھے اور آپ انہیں کی وجہ سے ان سے زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔
اس لیے تحائف بھیجنے والے بعض صحابہ ؓ نے یہ سوچا کہ جب حضور ﷺ عائشہ ؓ کی باری میں ان کے ہاں آیا کریں اس وقت ہدیہ تحفہ بھیجا کریں گے۔
اس پر دوسری ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کی خدمت میں درخواست کی کہ صحابہ ؓ کو اس خصوصیت سے روک دیں۔
مطالبہ درست نہ تھا لہٰذا آپ ﷺ نے اس پر کوئی توجہ نہ فرمائی حتیٰ کہ حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کو درمیان میں لایاگیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا اے میری پیاری بیٹی! کیا تم ان کو دوست نہیں رکھتی جن کو میں دوست رکھتا ہوں۔
اس پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا ہاں حضور بے شک میں بھی جسے آپ دوست رکھتے ہیں اس کو دوست رکھتی ہوں۔
اس کے بعد حضرت فاطمہ ہمیشہ حضرت عائشہ ؓ کو دوست رکھتی رہیں۔
حضرت علی ؓ مناقبت عائشہ ؓ میں فرماتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ دنیا و آخرت میں رسول کریم ﷺ کی بیوی ہیں۔
خدا کی پھٹکار ہو ان بدزبان بے لگام نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شان میں زبان درازی کریں۔
هداهم اﷲ إلیٰ صراط مستقیم، آمین۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ہیں اور جس طرح حضرت صدیق اکبر ؓ صحابہ کرام میں زیادہ علم و فضل رکھتے تھے ویسے ہی ان کی صاحبزادی بھی عورتوں میں عالمہ اور فاضلہ اور مقررہ تھیں۔
ہزاروں اشعار ان کو برزبان یاد تھے۔
فصاحت اور بلاغت میں کوئی ان کا مثیل نہ تھا۔
وذلك فضل اﷲ یؤتیه من یشاء اور سب سے بڑی فضیلت یہ کہ سرکار رسالت نے ان کو بہت سی خصوصیات کی بنا پر اپنی خاص رفیقہ حیات قرار دیا۔
حضرت جبرائیل ؑ نے آپ کا خاص اکرام کیا۔
و کفی به فضلا حضرت امام بخاری ؒ اس طویل حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ باب کا مضمون اس سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحفے تحائف اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کرسکتا ہے۔
الحمد للہ اپریل1970ءکی پانچ تاریخ تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں یہ پارہ اس حدیث تک پڑھاگیا اور احادیث نبویہ کے لفظ لفظ پر غور و فکر کرکے اللہ سے کعبہ میں دعاءکی گئی کہ وہ مجھے اس کے سمجھنے اور تحقیق حق کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ و مختصر جامع شرح لکھنے کی توفیق عطا کرے اور اس باقیات الصالحات کا ثواب عظیم میرے مرحوم بھائی حاجی محمد علی عرف بلاری پیارو قریشی بنگلور کے حق میں بھی قبول کرے جن کی طرف سے حج بدل کرنے کے سلسلے میں مجھ کو زیارت حرمین شریفین کی یہ سعادت نصیب ہوئی۔
ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2581   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2581  
2581. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ک بیویوں کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ ؓ، حضرت حفصہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ، حضرت سودہ ؓ تھیں، جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ ؓ کے ساتھ باقی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی (والہانہ) محبت کو جانتے تھے، اس لیے جب کسی کے پاس تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا (تو) اس میں تاخیر کرتا حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تشریف فرماہوتے تو ہدیہ بھیجنے والا رسول اللہ ﷺ کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں ہدیہ بھیجتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ام سلمہ ؓ کے گروپ نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ جس کسی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2581]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس طویل حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحائف و ہدایا اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کر سکتا ہے۔
یہ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے بھیجے، اس پر زبردستی کوئی حکم نہیں ٹھونسا جا سکتا کہ فلاں وقت بھیجے اور فلاں وقت نہ بھیجے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ ؓ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔
اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو ان نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ ؓ کے متعلق زبان درازی کرتے ہیں۔
(3)
رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا:
آخر یہ حضرت ابوبکر ؓ کی دختر ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ شریف الطبع، زیرک و دانا اور معاملہ فہم ہیں جیسا کہ ان کے والد گرامی نہایت شریف اور عقلمند انسان ہیں۔
(فتح الباري: 256/5)
رسول اللہ ﷺ کا مقصد فتنے کا سدباب تھا۔
اگر فریقین دل کی بھڑاس نہ نکالتے تو قصہ دراز ہو جاتا۔
اچھا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قصہ کوتاہ (مختصر)
ہو گیا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2581   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.