الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
30. بَابُ : وَضْعِ الْجَوَائِحِ
30. باب: ناگہانی آفت سے ہونے والے خسارے کے معاوضے (بدلے) کا بیان۔
Chapter: Annulling A Transaction In The Event Of Crop Failure
حدیث نمبر: 4531
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا إبراهيم بن الحسن , قال: حدثنا حجاج , قال: قال ابن جريج: اخبرني ابو الزبير , انه سمع جابرا , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بعت من اخيك ثمرا فاصابته جائحة , فلا يحل لك ان تاخذ منه شيئا بم تاخذ مال اخيك بغير حق".
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ , أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ بِعْتَ مِنْ أَخِيكَ ثَمَرًا فَأَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ , فَلَا يَحِلُّ لَكَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا بِمَ تَأْخُذُ مَالَ أَخِيكَ بِغَيْرِ حَقٍّ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے اپنے (مسلمان) بھائی سے پھل بیچے پھر اچانک ان پر کوئی آفت آ گئی تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اس سے کچھ لو، آخر تم کس چیز کے بدلے میں ناحق اپنے (مسلمان) بھائی کا مال لو گے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 3 (البیوع24) (1554)، سنن ابی داود/البیوع 60 (3470)، سنن ابن ماجہ/التجارات 33 (2219)، (تحفة الأشراف: 2798)، سنن الدارمی/البیوع 22 (2598) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس طرح کے حادثہ میں بیچنے والے کے اوپر لازم ہے کہ خریدار کا جتنا نقصان (خسارہ) ہوا ہے اتنے کی وہ بھرپائی کر دے ورنہ وہ مسلمان بھائی کا مال کھا لینے کا مرتکب گردانا جائے گا، اور یہ اس صورت میں ہے جب پھل ابھی پکے نہ ہوئے ہوں، یا بیچنے والے نے ابھی خریدار کو مکمل قبضہ نہ دیا ہو، ورنہ پھل کے پک جانے اور قبضہ دے دینے کے بعد بیچنے والے کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے، اس طرح کا معاملہ ایک آدمی کے ساتھ پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے بھر پائی کرانے کی بجائے عام لوگوں سے خریدار پر صدقہ و خیرات کرنے کی اپیل کی جیسا کہ حدیث نمبر: ۴۵۳۴ میں آ رہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
   صحيح مسلم3975جابر بن عبد اللهلو بعت من أخيك ثمرا فأصابته جائحة فلا يحل لك أن تأخذ منه شيئا بم تأخذ مال أخيك بغير حق
   سنن أبي داود3470جابر بن عبد اللهإن بعت من أخيك تمرا فأصابتها جائحة فلا يحل لك أن تأخذ منه شيئا بم تأخذ مال أخيك بغير حق
   سنن ابن ماجه2219جابر بن عبد اللهمن باع ثمرا فأصابته جائحة فلا يأخذ من مال أخيه شيئا علام يأخذ أحدكم مال أخيه المسلم
   سنن النسائى الصغرى4531جابر بن عبد اللهإن بعت من أخيك ثمرا فأصابته جائحة فلا يحل لك أن تأخذ منه شيئا بم تأخذ مال أخيك بغير حق
   سنن النسائى الصغرى4532جابر بن عبد اللهمن باع ثمرا فأصابته جائحة فلا يأخذ من أخيه وذكر شيئا على ما يأكل أحدكم مال أخيه المسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4531  
´ناگہانی آفت سے ہونے والے خسارے کے معاوضے (بدلے) کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے اپنے (مسلمان) بھائی سے پھل بیچے پھر اچانک ان پر کوئی آفت آ گئی تو تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اس سے کچھ لو، آخر تم کس چیز کے بدلے میں ناحق اپنے (مسلمان) بھائی کا مال لو گے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4531]
اردو حاشہ:
(1) مقصود یہ ہے کہ اگر پھل کسی نا گہانی آسمانی یا زمینی آفت وغیرہ کا شکار ہو جائے تو بیچنے والے کو چاہیے کہ وہ اس آفت کی تلافی کرے۔ بہتر تو یہ ہے کہ ساری رقم ہی واپس کر دے ورنہ حتیٰ المقدور بھرپور تعاون کرے، بصورت دیگر وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال باطل طریقے سے کھانے کا مصداق قرار پائے گا۔
(2) اس حدیث سے ہر قسم کے پھلوں کی خرید و فروخت کا جواز ثابت ہو رہا ہے، خواہ  وہ جس مرحلے میں بھی ہوں، حالانکہ گزشتہ احادیث سے کچے، یعنی ایسے پھلوں کی خرید و فروخت ممنوع قرار پائی ہے جو کھانے کے قابل نہ ہوں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث سے بھی وہی پھل مراد ہیں جو کھانے کے قابل ہوں، انہی کی خرید و فروخت جائز ہو گی، ہاں ضرورت کے تحت اگر کچے پھلوں کی ضرورت ہو تو پھر اسی وقت کاٹنے کی شرط لازمی ہے، وگرنہ اس کی اجازت نہیں، جمہور اہل علم کی رائے یہی ہے۔
(3) کسی بھی مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق اور باطل طریقے سے کھانا منع ہے۔ قرآن و حدیث کے دیگر دلائل کے علاوہ یہ حدیث بھی اس کی صریح دلیل ہے۔
(4) انسانیت اور اسلام کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جو پھل آسمانی آفت سے ضائع ہو گیا، اس کی قیمت وصول نہ کی جائے کیونکہ اگر یہ پھل مالک کے ہاں آسمانی آفت سے ضائع ہو جاتا تو پھر بھی تو اسے برداشت کرنا ہی پڑتا۔ اب بھی برداشت کرنا چاہیے۔ اگر وہ خریدار سے اس پھل کی قیمت وصول کر لے گا تو یہ ناحق اور ناجائز ہو گا۔ امام احمد اور محدثین اسی کے قائل ہیں کہ نا گہانی آفافت کا نقصان معاف کرنا ضروری ہے۔ دیگر حضرات نے اسے مستحب قرار دیا ہے کیونکہ طے شدہ سودے سے دستبردار ہونے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ظاہر حدیث اس کے خلاف ہے کیونکہ انسانیت اور اسلامی اخوت کا تقاضا ہر اصول سے مقدم ہے۔ ان اصولی حضرات نے اپنے اصول کو قائم رکھنے کے لیے حدیث کی دوراز کار تاو یلات کی ہیں جو ان کی مجبوری ہے لیکن انسانیت اور اخوت اس حدیث پر عمل کرنے ہی میں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4531   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2219  
´کئی سال کے لیے پھلوں کے بیچنے اور پھلوں کو لاحق ہونے والی آفات کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے پھل بیچا، پھر اس کو کوئی آفت لاحق ہوئی، تو وہ اپنے بھائی (خریدار) کے مال سے کچھ نہ لے، آخر کس چیز کے بدلہ تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کا مال لے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2219]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رقم مال کے بدلے لی جاتی ہے۔
جب باغ کا پھل بیچا گیا، اس وقت قابل استعمال نہیں تھا۔
گویا خریدار نے وصول نہیں کیا بلکہ یہ صرف وعدہ ہے کہ پھل تمہیں ملے گا، پھر جب پھل ضائع ہوگیا تو خریدار کو کچھ نہیں ملا، جب کہ رقم وہ پیشگی ادا کرچکا ہے یا ادا کرنے کا وعدہ کر چکا ہے۔
اس طرح وہ صرف رقم ادا کرے گا اور وصول کچھ نہیں کرے گا۔
، یہ ناجائز ہے۔

(2)
وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال کس وجہ سے لیتا ہے؟ اس میں یہی اشارہ ہے کہ مال لے کر اس کے عوض کیا دیا ہے؟ ظاہر ہے کہ مال کے بدلے خریدار کو کچھ نہیں ملا تو پھر قیمت کس چیز کی لے رہا ہے؟ یعنی اس صورت میں قیمت نہ لی جائے، اگر لے لی ہو تو واپس کر دی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2219   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3470  
´کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے کسی بھائی کے ہاتھ (باغ کا) پھل بیچو پھر اس پھل پر کوئی آفت آ جائے (اور وہ تباہ و برباد ہو جائے) تو تمہارے لیے مشتری سے کچھ لینا جائز نہیں تم ناحق اپنے بھائی کا مال کس وجہ سے لو گے؟ ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3470]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
نبی کریم ﷺ نے درختوں کے پھل کی بیع اس وقت کرنے کا حکم دیا۔
جب وہ پھل آفتوں سے محفوظ ہوچکا ہو۔
اگر بیع میں مسنون شرطوں کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو تو اس قسم کے نقصان کی تلافی واجب ہے۔
اگر بنیادی طور پر بیع صحیح ہو اور آفتوں سے محفوظ ہوجانے کے وقت کے بعد کی جائے۔
تو تلافی کرنا مستحب ہے۔
واجب نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3470   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.