الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: چور کا ہاتھ کاٹنے سے متعلق احکام و مسائل
The Book of Cutting off the Hand of the Thief
5. بَابُ : مَا يَكُونُ حِرْزًا وَمَا لاَ يَكُونُ
5. باب: کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟
Chapter: Stealing Something that Is Kept In A Protected Place
حدیث نمبر: 4885
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرني هلال بن العلاء، قال: حدثنا حسين، قال: حدثنا زهير، قال: حدثنا عبد الملك هو ابن ابي بشير، قال: حدثني عكرمة، عن صفوان بن امية، انه طاف بالبيت وصلى، ثم لف رداء له من برد , فوضعه تحت راسه فنام، فاتاه لص فاستله من تحت راسه فاخذه، فاتي به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن هذا سرق ردائي، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" اسرقت رداء هذا؟"، قال: نعم، قال:" اذهبا به فاقطعا يده"، قال صفوان: ما كنت اريد ان تقطع يده في ردائي، فقال له:" فلو ما قبل هذا؟". خالفه اشعث بن سوار.
أَخْبَرَنِي هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ هُوَ ابْنُ أَبِي بَشِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّهُ طَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى، ثُمَّ لَفَّ رِدَاءً لَهُ مِنْ بُرْدٍ , فَوَضَعَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ فَنَامَ، فَأَتَاهُ لِصٌّ فَاسْتَلَّهُ مِنْ تَحْتِ رَأْسِهِ فَأَخَذَهُ، فَأَتَي بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا سَرَقَ رِدَائِي، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَسَرَقْتَ رِدَاءَ هَذَا؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" اذْهَبَا بِهِ فَاقْطَعَا يَدَهُ"، قَالَ صَفْوَانُ: مَا كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ فِي رِدَائِي، فَقَالَ لَهُ:" فَلَوْ مَا قَبْلَ هَذَا؟". خَالَفَهُ أَشْعَثُ بْنُ سَوَّارٍ.
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر نماز پڑھی، پھر اپنی چادر لپیٹ کر سر کے نیچے رکھی اور سو گئے، ایک چور آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچی، انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور بولے: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم نے ان کی چادر چرائی ہے؟ وہ بولا: ہاں، آپ نے (دو آدمیوں سے) فرمایا: اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا مقصد یہ نہ تھا کہ میری چادر کے سلسلے میں اس کا ہاتھ کاٹا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ کام پہلے ہی کیوں نہ کر لیا۔ اشعث نے عبدالملک کے برخلاف (ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے) اس کو روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 4882 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
   سنن أبي داود4394صفوان بن أميةكنت نائما في المسجد على خميصة لي ثمن ثلاثين درهما فجاء رجل فاختلسها مني فأخذ الرجل فأتي به رسول الله فأمر به ليقطع قال فأتيته فقلت أتقطعه من أجل ثلاثين درهما أنا أبيعه وأنسئه ثمنها قال فهلا كان هذا قبل أن تأتيني به
   سنن ابن ماجه2595صفوان بن أميةهلا قبل أن تأتيني به
   سنن النسائى الصغرى4882صفوان بن أميةأفلا كان قبل أن تأتينا به فقطعه رسول الله
   سنن النسائى الصغرى4883صفوان بن أميةلولا كان هذا قبل أن تأتيني به يا أبا وهب فقطعه رسول الله
   سنن النسائى الصغرى4885صفوان بن أميةأسرقت رداء هذا قال نعم قال اذهبا به فاقطعا يده قال صفوان ما كنت أريد أن تقطع يده في ردائي فقال له فلو ما قبل هذا
   سنن النسائى الصغرى4888صفوان بن أميةهلا كان هذا قبل أن تأتيني به
   سنن النسائى الصغرى4888صفوان بن أميةهلا قبل أن تأتيني به تركته
   بلوغ المرام1062صفوان بن أمية هلا كان ذلك قبل أن تأتيني به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4885  
´کون سا سامان محفوظ سمجھا جائے اور کون سا نہ سمجھا جائے؟`
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر نماز پڑھی، پھر اپنی چادر لپیٹ کر سر کے نیچے رکھی اور سو گئے، ایک چور آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچی، انہوں نے اسے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اور بولے: اس نے میری چادر چرائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم نے ان کی چادر چرائی ہے؟ وہ بولا: ہاں، آپ نے (دو آدمیوں سے) فرمایا: اسے لے جاؤ اور ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4885]
اردو حاشہ:
(1) عکرمہ سے یہ روایت بیان کرنے والے دو راوی ہیں: ایک عبدالملک بن ابو بشیر اور دوسرے اشعث بن سوار۔ عبدالملک نے جب یہ روایت بیان کی تو کہا: حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ۔ جب یہی روایت اشعث نے بیان کی تو کہا: عن عکرمۃ عن ابن عباس، یعنی اشعث نے اسے صفوان بن امیہ کے بجائے ابن عباس کی مسند بنایا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اشعث کی مخالفت، عبدالملک کی روایت کے لیے مضر نہیں کیونکہ وہ ثقہ راوی ہے جبکہ اشعث ضعیف ہے جیسا کہ امام نسائی رحمہ اللہ  نے بذات خود اس کی صراحت اگلی یعنی اشعث کی بیان کردہ روایت میں کردی ہے۔ واللہ أعلم
(2) باب کا مقصد یہ ہے کہ چور محفوظ چیز اٹھائے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا غیر محفوظ چیز اٹھانے سے وہ چور تو بنے گا لیکن اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ بطور تعزیر کوئی اور سزا دی جا سکتی ہے۔ محفوظ سے مراد مثلا: یا تو مالک کے پاس ہو اور اس نے وہ چیز اپنے پاس سنبھال کر رکھی ہو خواہ وہ سویا ہو یا جاگتا ہو یا وہ چیز بند جگہ میں ہو، مثلا: کمرے کا دروازہ بند ہو۔ لیکن اگر کوئی چیز گھر سے باہر پڑی ہو اور مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ یا ایسے مقام پر ہو جو سب کے لیے کھلا ہے مثلا: مسجد، دفتر، سکول وغیرہ اور دروازہ بھی کھلا ہو، مالک بھی پاس نہ ہو تو اسے بھی غیر محفوظ تصور کیا جا ئے گا۔ مذکورہ واقعے میں حضرت صفوان نے چادر تہہ کرکے سر کے نیچے رکھی ہوئی تھی۔ ظاہر ہے یہ محفوظ تھی۔ اس نے چرا کر اپنے آپ کو ہاتھ کاٹنے کا سزاوار قرار دے لیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4885   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2595  
´حرز (محفوظ جگہ) میں سے چرانے کا بیان۔`
صفوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد میں سو گئے، اور اپنی چادر کو تکیہ بنا لیا، کسی نے ان کے سر کے نیچے سے اسے نکال لیا، وہ چور کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دیا، صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا مقصد یہ نہ تھا، میری چادر اس کے لیے صدقہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے آخر میرے پاس اسے لانے سے پہلے ایسا کیوں نہیں کیا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2595]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
محفوظ جگہ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں عام طور پرانسان کسی چیز کو سنبھال کر رکھتا ہے۔
اور مختلف قسم کے اموال کےلیے محفوظ جگہ بھی مختلف ہوتی ہے مثلاً:
جانوروں کے لیے ان کا باڑ، کپڑوں کے لیے صندوق وغیرہ اور غلے کے لیے اس کے سکھانےکی جگہ حرز(محفوظ جگہ)
ہے۔

(2)
گھر سے باہر مالک کی موجوگی ہی اس کے استعمال کی چیز کے لیے حرزہے۔

(3)
مالک چور کومعاف کرسکتا ہے۔

(4)
حاکم کے سامنے معاملہ پیش ہونے کو بعد جرم معاف نہیں کیا جا سکتا البتہ قتل کے مجرم کو مقتول کے وارث سزائے موت نافذ ہونے سے تک معاف کر سکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2595   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1062  
´چوری کی حد کا بیان`
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جب انہوں نے اس آدمی کے بارے میں سفارش کی جس نے چادر چرائی تھی اور اس کے قطع ید کا حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے پاس لانے سے پہلے تمہیں اس پر رحم و ترس کیوں نہ آیا۔۔‏‏‏‏ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن جارود اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1062»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الحدود، باب في من سرق من حرز، حديث:4394، والنسائي، قطع السارق، حديث:4882، وابن ماجه، الحدود، حديث:2595، والحاكم:4 /380، والترمذي: لم أجده.»
تشریح:
1. یہ چوری کا واقعہ یوں ہے کہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بطحاء یا مسجد حرام میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچ لی۔
اسے گرفتار کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیااور آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اسے معاف کیا اور درگزر کیا۔
آپ نے فرمایا: یہ تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہیں کیا؟ پھر آپ نے اس شخص کا ہاتھ کاٹ دیا۔
2.اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب مقدمہ عدالت و حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1062   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4394  
´جو شخص کسی چیز کو محفوظ مقام سے چرائے اس کے حکم کا بیان۔`
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سویا ہوا تھا، میرے اوپر میری ایک اونی چادر پڑی تھی جس کی قیمت تیس درہم تھی، اتنے میں ایک شخص آیا اور اسے مجھ سے چھین کر لے کر بھاگا، لیکن وہ پکڑ لیا گیا، اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے، تو میں آپ کے پاس آیا اور عرض کیا: کیا تیس درہم کی وجہ سے آپ اس کا ہاتھ کاٹ ڈالیں گے؟ میں اسے اس کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں، اور اس کی قیمت اس پر ادھار چھوڑ دیتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4394]
فوائد ومسائل:
فائدہ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہرچیز کے لئےاس کا (حرز) یعنی محفوظ مقام اس کی مناسبت سےہوتا ہے اور یہ چیز عرف سے جانی جاتی ہے۔
سوئے ہوئے آدمی کا کپڑا جو اس کے سر کے نیچے ہو اپنی محفوظ جگہ میں ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4394   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.