الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
The Book of the Etiquette of Judges
7. بَابُ : إِذَا حَكَّمُوا رَجُلاً فَقَضَى بَيْنَهُمْ
7. باب: جب کسی کو حکم اور ثالث بنائیں اور وہ فیصلہ کرے تو اس کا حکم کیا ہے؟
Chapter: If People Appoint a Man as Judge, and He Passes Judgment Among Them
حدیث نمبر: 5389
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا يزيد وهو ابن المقدام بن شريح , عن شريح بن هانئ، عن ابيه هانئ انه لما وفد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , سمعه وهم يكنون هانئا ابا الحكم، فدعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال له:" إن الله هو الحكم، وإليه الحكم، فلم تكنى ابا الحكم؟"، فقال: إن قومي إذا اختلفوا في شيء اتوني فحكمت بينهم فرضي كلا الفريقين، قال:" ما احسن من هذا , فما لك من الولد؟" , قال لي: شريح , وعبد الله، ومسلم، قال:" فمن اكبرهم؟" قال: شريح، قال:" فانت ابو شريح" , فدعا له ولولده.
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ , عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِيهِ هَانِئٍ أَنَّهُ لَمَّا وَفَدَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , سَمِعَهُ وَهُمْ يَكْنُونَ هَانِئًا أَبَا الْحَكَمِ، فَدَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهُ:" إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَكَمُ، وَإِلَيْهِ الْحُكْمُ، فَلِمَ تُكَنَّى أَبَا الْحَكَمِ؟"، فَقَالَ: إِنَّ قَوْمِي إِذَا اخْتَلَفُوا فِي شَيْءٍ أَتَوْنِي فَحَكَمْتُ بَيْنَهُمْ فَرَضِيَ كِلَا الْفَرِيقَيْنِ، قَالَ:" مَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا , فَمَا لَكَ مِنَ الْوُلْدِ؟" , قَالَ لِي: شُرَيْحٌ , وَعَبْدُ اللَّهِ، وَمُسْلِمٌ، قَالَ:" فَمَنْ أَكْبَرُهُمْ؟" قَالَ: شُرَيْحٌ، قَالَ:" فَأَنْتَ أَبُو شُرَيْحٍ" , فَدَعَا لَهُ وَلِوَلَدِهِ.
ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ ہانی کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا: حکم تو اللہ ہے اور حکم کرنا بھی اسی کا کام ہے، وہ بولے: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس چلے آتے ہیں، میں ان کے درمیان فیصلے کرتا ہوں اور دونوں فریق رضامند ہو جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے، تمہارے کتنے لڑکے ہیں؟ وہ بولے: شریح، عبداللہ اور مسلم، آپ نے فرمایا: ان میں بڑا کون ہے؟ وہ بولے: شریح، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم اب سے ابوشریح ہو، پھر آپ نے ان کے لیے اور ان کے بیٹے کے لیے دعا کی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الٔیدب70(4955) (تحفة الأشراف: 11725) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
   سنن أبي داود4955هانئ بن يزيدالله هو الحكم وإليه الحكم فلم تكنى بابا الحكم فقال إن قومي إذا اختلفوا في شيء أتوني فحكمت بينهم فرضي كلا الفريقين فقال رسول الله ما أحسن هذا فما لك من الولد قال لي شريح ومسلم وعبد الله قال فمن أكبرهم قلت شريح قال فأنت أبو شريح
   سنن النسائى الصغرى5389هانئ بن يزيدمن أكبرهم قال شريح قال فأنت أبو شريح فدعا له ولولده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5389  
´جب کسی کو حکم اور ثالث بنائیں اور وہ فیصلہ کرے تو اس کا حکم کیا ہے؟`
ہانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ نے لوگوں کو سنا کہ وہ ہانی کو ابوالحکم کی کنیت سے پکارتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور ان سے فرمایا: حکم تو اللہ ہے اور حکم کرنا بھی اسی کا کام ہے، وہ بولے: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس چلے آتے ہیں، میں ان کے درمیان فیصلے کرتا ہوں اور دونوں فریق رضامند ہو جاتے ہیں۔ آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5389]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث مبارکہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ثالث کا کیا ہوا صحیح اور درست فیصلہ نافذ ہونا چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ہانی رضی اللہ عنہا کے فعل کی تحسین فرمائی ہے۔
(2) بڑے بیٹے کے نام پر کنیت رکھنا مستحب ہے کیونکہ بڑا ہونے کی وجہ سے یہ اس کا حق بنتا ہے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قبیح اور برے نام کو بدل دینا مستحب اور پسندیدہ شرعی عمل ہے، نیز یہ حدیث مبارکہ اس مسئلے کی طرف راہ نمائی بھی کرتی ہے کہ ابو الحکم کنیت رکھنے سے احتراز کرنا چاہیے، اس لیے کہ عربی میں حکم فیصلہ کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ابو الحکم سے مراد ہے سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا۔ ظاہر ہے اس میں فخر اور تعلی کا اظہار ہے جسے شریعت مناسب نہیں سمجھتی، اس لیے آپ نے اس کنیت کو حقیقی کنیت سے تبدیل فرما دیا۔
(4) یہ بہت اچھی بات ہے۔ عربی جملے کے لفظی معنی ہیں: اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔ مفہوم وہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 5389   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4955  
´برے نام کو بدل دینے کا بیان۔`
ابوشریح ہانی کندی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی قوم کے ساتھ وفد میں آئے، تو آپ نے ان لوگوں کو سنا کہ وہ انہیں ابوالحکم کی کنیت سے پکار رہے تھے، آپ نے انہیں بلایا، اور فرمایا: حکم تو اللہ ہے، اور حکم اسی کا ہے تو تمہاری کنیت ابوالحکم کیوں ہے؟ انہوں نے کہا: میری قوم کے لوگوں کا جب کسی معاملے میں اختلاف ہوتا ہے تو وہ میرے پاس آتے ہیں اور میں ہی ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور دونوں فریق اس پر راضی ہو جاتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ تو اچھی بات ہے، تو کیا تمہارے کچھ لڑکے بھی ہیں؟ انہوں نے کہا: شریح، مسلم ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4955]
فوائد ومسائل:
1) مبالغہ آمیز نام اور کنیتیں رکھنا درست نہیں اور چاہیئے کہ غلط نام بدل دیئے جائیں۔

2) بہتر یہ ہے کہ انسان اپنت بڑے بیٹے کے نام پر اپنی کنیت رکھے۔

3) تُسر ایران میں علاقہ خوزستان میں ایک شہر کا نام ہے، اسے یاشستر بھی کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4955   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.