الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
25. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ
25. باب: جسے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت مل جائے اسے عصر مل گئی۔
حدیث نمبر: 186
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، وعن بسر بن سعيد، وعن الاعرج يحدثونه، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح، ومن ادرك من العصر ركعة قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر ". وفي الباب عن عائشة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حسن صحيح، وبه يقول اصحابنا والشافعي , واحمد , وإسحاق، ومعنى هذا الحديث عندهم لصاحب العذر، مثل الرجل الذي ينام عن الصلاة او ينساها فيستيقظ ويذكر عند طلوع الشمس وعند غروبها.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، وعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنْ الْأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْعَصْرِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهِ يَقُولُ أَصْحَابُنَا وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَهُمْ لِصَاحِبِ الْعُذْرِ، مِثْلُ الرَّجُلِ الَّذِي يَنَامُ عَنِ الصَّلَاةِ أَوْ يَنْسَاهَا فَيَسْتَيْقِظُ وَيَذْكُرُ عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَعِنْدَ غُرُوبِهَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- ہمارے اصحاب، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ حدیث ان کے نزدیک صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً ایسے شخص کے لیے جو نماز سے سو گیا اور سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت بیدار ہوا ہو یا اسے بھول گیا ہو اور وہ سورج نکلنے یا ڈوبنے کے وقت اسے نماز یاد آئی ہو۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 28 (579)، و29 (580)، صحیح مسلم/المساجد 30 (607)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (412)، سنن النسائی/المواقیت 11 (516، 518)، و28 (551)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 11 (1122)، (تحفة الأشراف: 12206، و13646، و14216)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (5)، مسند احمد (2/236، 348، 254، 260، 282، 399، 462، 474، 489، 490، 521)، سنن الدارمی/الصلاة 22 (1258) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضاء نہیں، یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہو گی، اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہو گیا اور وہ نماز اس پر واجب ہو گئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا ہو یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہو گی، لیکن نسائی کی روایت جس میں «فليتم صلاته» کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (699 و 670)
   صحيح البخاري580عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة
   صحيح البخاري556عبد الرحمن بن صخرإذا أدرك أحدكم سجدة من صلاة العصر قبل أن تغرب الشمس فليتم صلاته إذا أدرك سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته
   صحيح البخاري579عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح من أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر
   صحيح مسلم1371عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة
   صحيح مسلم1377عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من العصر ركعة قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك من أدرك من الفجر ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك
   صحيح مسلم1374عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعة من الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح من أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر
   صحيح مسلم1372عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعة من الصلاة مع الإمام فقد أدرك الصلاة
   جامع الترمذي186عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح من أدرك من العصر ركعة قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر
   جامع الترمذي524عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصلاة ركعة فقد أدرك الصلاة
   سنن أبي داود412عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من العصر ركعة قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك من أدرك من الفجر ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك
   سنن أبي داود893عبد الرحمن بن صخرإذا جئتم إلى الصلاة ونحن سجود فاسجدوا ولا تعدوها شيئا من أدرك الركعة فقد أدرك الصلاة
   سنن أبي داود1121عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة
   سنن النسائى الصغرى515عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعتين من صلاة العصر قبل أن تغرب الشمس ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك
   سنن النسائى الصغرى516عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعة من صلاة العصر قبل أن تغيب الشمس أدرك ركعة من الفجر قبل طلوع الشمس فقد أدرك
   سنن النسائى الصغرى517عبد الرحمن بن صخرإذا أدرك أحدكم أول سجدة من صلاة العصر قبل أن تغرب الشمس فليتم صلاته إذا أدرك أول سجدة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فليتم صلاته
   سنن النسائى الصغرى518عبد الرحمن بن صخرمن أدرك ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرك الصبح من أدرك ركعة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدرك العصر
   سنن النسائى الصغرى557عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصلاة ركعة فقد أدركها
   سنن النسائى الصغرى556عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصلاة ركعة فقد أدرك الصلاة
   سنن النسائى الصغرى554عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصلاة ركعة فقد أدرك الصلاة
   سنن النسائى الصغرى551عبد الرحمن بن صخرمن أدرك سجدة من الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدركها من أدرك سجدة من العصر قبل أن تغرب الشمس فقد أدركها
   سنن النسائى الصغرى555عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصلاة ركعة فقد أدركها
   سنن ابن ماجه699عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من العصر ركعة قبل أن تغرب الشمس فقد أدركها من أدرك من الصبح ركعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدركها
   سنن ابن ماجه1122عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من الصلاة ركعة فقد أدرك
   بلوغ المرام135عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح ومن ادرك ركعة من العصر قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم144عبد الرحمن بن صخرمن ادرك الركعة من الصلاة فقد ادرك الصلاة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم200عبد الرحمن بن صخرمن ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح
   مسندالحميدي976عبد الرحمن بن صخرمن أدرك من صلاة ركعة فقد أدرك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 144  
´رکوع میں ملنے والے کی رکعت`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ادرك الركعة من الصلاة فقد ادرك الصلاة . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص نماز کی ایک رکعت پا لے تو اس نے نماز پا لی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 144]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 580، ومسلم 607، من حديث ما لك به۔]

تفقه:
➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے «إذا فاتتك الركعة فقد فاتتك السجدة» اگر تمہاری رکعت فوت ہو گئی تو تمہارا سجدہ (بھی) فوت گیا۔ [موطا امام مالك10/1 ح15 وسنده صحيح]
➋ رکوع کی رکعت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں سلف صالحیین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ہمارے نزدیک احادیث صحیحہ اور فہم سلف صالحین کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ رکوع میں ملنے والے کی رکعت نہیں ہوتی کیونکہ اس سے نماز کا ایک اہم رکن رہ جاتا ہے یعنی سورۂ فاتحہ جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
◄ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
«لا يجزئك إلا أن تدرك الإمام قائماً قبل أن تركع»
تیری رکعت اس وقت تک کافی نہیں ہوتی جب تک رکوع سے پہلے امام کو حالت قیام میں نہ پا لے۔ [جزٔ القراء للبخاري:132، وسنده حسن،]
◄ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
سورہ فاتحہ پڑھے بغیر تم میں سے کوئی بھی رکوع نہ کرے۔ [جزٔ القراء للبخاري:133، وسنده صحیح]
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَقَدْ أَدْرَكَهَا وَلْيُضِفْ إِلَيْهَا أُخْرَى»
جس نے جمعہ کے دن (جمعہ کی نماز کی ایک رکعت پڑی تو اس نے نماز پائی اور وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے۔ [سنن الدارقطني 323/2ح 1608، وسنده حسن]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو جمعہ کے دن ایک رکعت بھی نہ پائے تو وہ چار رکعتیں پڑھے گا۔ اخبار ایمان لابی نعیم الاصبہانی [2004] کی جس روایت میں آیا ہے کہ جمعہ نہ پانے والا (بھی) دو رکعتیں پڑھے گا یہ روایت محمد بن نوح بن حمد الشیبانی السمسار کے مجہول الحال ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 23   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 200  
´جو شخص سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت صبح کی پڑھ لے`
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح، ومن ادرك من العصر ركعة قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورج کے طلوع ہونے پہلے صبح (کی نماز) میں سے ایک رکعت پائی تو اس نے صبح (کی نماز) پالی اور جس نے سورج غروب ہونے سے پہلے عصر (کی نماز) میں سے ایک رکعت پائی تو اس نے عصر (کی نماز) پا لی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 200]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 579، ومسلم 608، من حديث مالك به]
تفقه:
① دیکھئے حدیث سابق: 96
② اس حدیث سے صاف ثابت ہے کہ جو شخص سورج کے طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت صبح کی پڑھ لے اور پھر سورج طلوع ہو جائے تو اس نے صبح کی نماز پالی ہے لہٰذا وہ اب دوسری رکعت پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیرے گا اور اس کی صبح کی نماز ہو گئی ہے۔ بعض الناس کہتے ہیں کہ ایسی حالت میں صبح کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ ان لوگوں کا یہ قول بلا دلیل اور باطل ہے۔ اس مسئلے پر بے دلیل بحث کرتے ہوئے رشید أحمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا: غرضیکہ یہ مسئلہ ابھی تک تشنۂ تحقیق ہے، معہذا ہمارا فتویٰ اور عمل امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لئے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لئے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلۂ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفۂ مجتہد ہے۔ [ارشاد القاري اليٰ صحيح البخاري ص412]
اس اعتراف سے کئی باتیں معلوم ہوئیں:
اول:
تقلیدی حضرات قرآن، حدیث اور اجماع کو حجت نہیں مانتے بلکہ اپنے امام کی طرف منسوب اپنے مفتیٰ بہ قول کو حجت مانتے ہیں۔
دوم:
آلِ تقلید کے نزدیک ایک ہی حدیث کا آدھا حصہ واجب العمل اور دوسرا آدھا حصہ قابلِ عمل نہیں ہے۔
سوم:
آلِ تقلید کے نزدیک دلیل نہ ہونے کے باوجود بے دلیل بات سے چمٹنے رہنا چاہئے۔
چہارم:
تقلید کا موذی مرض انکار حدیث کی بنیاد ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 169   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 135  
´عین طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز کا آغاز ممنوع ہے`
«. . . ان النبى صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏من ادرك من الصبح ركعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح ومن ادرك ركعة من العصر قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طلوع آفتاب سے پہلے جس نے نماز فجر کی ایک رکعت پا لی اس نے صبح کی نماز پا لی اور جس نے غروب آفتاب سے قبل نماز عصر کی ایک رکعت پا لی اس نے عصر کی نماز پا لی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 135]

لغوی تشریح:
«مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةَ» جس نے ایک رکعت پا لی، یعنی مکمل ایک رکعت، قیام، قرأت فاتحہ اور رکوع و سجود پا لیے۔
«قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ» یعنی آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے، اور دوسری رکعت طلوع شمس کے بعد پڑھ لی۔
«فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحُ» تو اس نے صبح پالی، یعنی اس کی نماز ادا ہو گئی (قضا نہیں ہوئی۔)

فائدہ:
عین طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز کا آغاز ممنوع ہے لیکن اگر کسی نے نماز پہلے شروع کر لی پھر طلوع یا غروب آفتاب ہو گیا تو نمازی کو چاہیے کہ دوسری رکعت یا باقی رکعتیں پوری کر لے، اس کی نماز ہو جائے گی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا یہی مطلب ہے۔ احناف کہتے ہیں کہ عصر کو ناقص وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کر رہا ہے، لہٰذا اس کی نماز ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہوا اسی طرح اس کی ادائیگی کی۔ اس کے برعکس فجر کو کامل وقت میں شروع کر کے ناقص وقت میں ختم کر رہا ہے، لہٰذا اس کی نماز باطل ہو جائے گی کیونکہ جس طرح فریضہ عائد ہوا اسی طرح سے اس کی ادائیگی نہیں کی۔ اس طرح ایک ہی حدیث کے ایک ٹکڑے کو مانتے ہیں اور دوسرے ٹکڑے کا محض اپنے موقف کے خلاف ہونے کی وجہ سے، انکار کر دیتے ہیں اور «أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ» کا مصداق بنتے ہیں۔ یہ ہیں احناف کی فقہی موشگافیاں۔ «فَاعْتَبِرُوْا يٰاُوْلِي الْاَبْصَارِ» ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 135   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 556  
´جب کوئی شخص ایک رکعت نماز عصر یا فجر سورج ڈوبنے یا طلوع ہونے سے قبل پائے تو وہ اپنی باقی نماز کو پورا کر لے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ سَجْدَةً مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْيُتِمَّ صَلَاتَهُا . . .»
. . . ‏‏‏‏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے (اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضاء) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ: 556]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
حدیث اور ترجمۃ الباب میں مناسبت یہ ہے کہ جو حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص ایک رکعت نماز عصر یا فجر سورج ڈوبنے یا طلوع ہونے سے قبل پائے تو وہ اپنی باقی نماز کو پورا کر لے اور یہ اس کی ادا ہے قضاء نہیں ہے۔
مگر ترجمۃ الباب اور حدیث میں ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے «ركعة» کا ذکر فرمایا ہے، مگر حدیث میں «سجدة» کا ذکر ہے رکعت کا نہیں۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«كانه اراد تفسير الحديث، و ان المراد بالسجدة الركعة» [فتح الباري، ج3/33]
گویا کہ آپ نے تفسیر حدیث کا ارادہ فرمایا ہے اور یہ کہ مراد سجدے سے رکعت کے ہیں۔‏‏‏‏

◈ ابن الملقن رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وفي رواية للسراج فى مسنده من ادرك ركعة قبل ان تطلع الشمس، ركعة بعد ما تطلع فقد ادرك، و أخرجه مسلم ايضاً من حديث عائشة، من ادرك من العصر سجدة قبل ان تغرب الشمس او من الصبح قبل ان تطلع الشمس فقد ادركها، والسجدة وانها هي ركعة وهو من افراده ايضاً» [التوضيح، ج6، ص198]
مسند سراج میں ہے کہ جب کسی نے ایک رکعت پائی سورج کے طلوع ہونے سے قبل اور ایک رکعت بعد طلوع پس یقیناًً اس نے اپنی نماز کو پا لیا۔ صحیح مسلم میں بھی ہے کہ جس نے عصر کا سجدہ پا لیا قبل سورج کے غروب کے یا صبح کو قبل طلوع ہونے سے رکعت پا لی اور یہاں سجدے سے مراد رکعت ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد سجدے سے رکعت کے ہیں جس طرح کے پیچھے گزرا اسی پر منطبق ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب جہاں سے انہوں نے رکعت کو ظاہر کیا ہے۔

دوسری حدیث جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کبھی آدمی کو بعض عمل کرنے سے کل کا ثواب مل جاتا ہے جیسے کہ عصر سے شام تک کام کرنے والے کو مکمل دن کی مزدوری دے دی گئی (جیسا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے) پس یہ نظیر ہے اس کی جس کو ایک رکعت پانے سے ساری نماز کا ثواب ملے پس یہی ہے مناسبت ان حدیثوں کی ترجمۃ الباب سے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قال الحافظ: حديث ابن عمرو حديث ابي موسى فى هذه الترجمة ليدل على انه قد يستحق بعمل البعض اجر الكل، مثل الذى اعطي من العصر الى الليل اجر النهار كله، فهو نظير من يعطي اجر الصلاة كلها و لو لم يدرك الا ركعة، و بهذا تظهر مطابقة الحديثين للترجمة .» [انظر فتح الباري لابن حجر ج2 ص49]
غرض امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر اور موسی رضی اللہ عنہما کی ان دونوں حدیثوں کو یہاں لانے سے یہ ہے کہ کبھی آدمی کو بعض عمل کرنے سے کل کا ثواب مل جاتا ہے جیسے کہ عصر سے شام تک کام کرنے والے کو کل دن کی مزدوری دی گئی پس یہ نظیر ہے اس کی جس کو ایک رکعت پانے سے ساری نماز کو ثواب ملے پس یہی وجہ ہے مناسبت ترجمۃ الباب اور حدیث کی۔
حافظ صاحب مزید فرماتے ہیں!
اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ عمل کے جزء پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجر یا عصر کی ایک رکعت پا لے اس کو بھی اللہ تعالیٰ ساری نماز وقت پر پڑھنے کا ثواب عطا کر سکتا ہے۔ (مندرجہ بالا حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ) کام تو کیا صرف مغرب تک لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا اور کام پورا کیا۔ آگے دو گروہ نے اپنا نقصان خود کیا کام کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ گئے اور محنت بھی مفت گئی۔

◈ شاہ ولی اللہ محدث الدہلوی رحمہ اللہ تطویق دیتے ہوئے فرماتے ہیں!
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے باب قائم کرنے پر (کہ یہ اس طرف) اشارہ ہے کہ نمازی اگر غروب سے قبل ایک رکعت کو پا لے گا تو اس کی نماز جائز ہو گی اور اسے قضا کرنے کی حاجت نہ ہو گی۔ [شرح تراجم ابواب البخاري ص188]

◈ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و مقصود الحديث تفضيل هذه الامة و توفير اجرها مع قلة عملها» [كشف المشكل ج1، ص229]
مذکورہ بالا حدیث میں جو مقصود ہے وہ اس امت (امت محمدیہ) کو مکمل اجر دینا ہے، جو کہ کم عمل پر مبنی ہے۔

فائدہ:
مندرجہ بالا احادیث میں جو مثالیں یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کے لئے دی گئی ہیں۔ یہودیوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو مانا اور تورات پر چلے لیکن اس کے بعد انجیل شریف اور قرآن مجید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہو گئے اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے ماننے سے انکار کر دیا تو ان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہو گئی اور آخرت میں اجر سے بھی محروم رہے۔ آخر زمانے میں مسلمان آئے اور انہوں نے تھوڑی مدت ہی محنت کی مگر کام پورا کیا کہ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو مانا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانا اور تمام آسمانی کتابوں پر بھی ایمان لائے لہٰذا سارے ثواب کا بہت بڑا حصہ ان کے حصے میں آگیا۔ «ذَلِكَ فَضْلُ اللَّـهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ وَاللَّـهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ» [الجمعة 4/62] [تيسير الباري شرح صحيح البخاري ج1، ص277]

ایک اشکال:
مندرجہ بالا حدیث سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہود و نصاری کے مقابلے میں مسلمانوں کی موت انتہائی کم معلوم ہوتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہود کی موت زیادہ سے زیادہ دو ہزار سال ہے۔ لہٰذا یہ کوئی اشکال والی بات نہیں۔ مگر نصاریٰ کی مدت زیادہ سے زیادہ چھ سو برس ہے، جب کہ مسلمانوں کو چودہ سو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ اور اس کا بھی علم نہیں کہ قیامت تک کتنے اور سال بڑھیں گے۔ حالانکہ روایت میں یہود و نصاریٰ کی عمر کو طویل تسلیم کیا گیا ہے۔ جبکہ امت محمدیہ کی عمر کو کم قرار دیا گیا ہے۔
الجواب:
مذکورہ بالا حدیث میں امت کا تقابل ہرگز نہیں کروایا جا رہا ہے، بلکہ امت کے افرادوں کی عمر سے تقابل کروایا جا رہا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا حدیث میں احاد و افراد امت کا تقابل آحاد سے کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ لفظ قیراط کو تکرار کے ساتھ قیراطاً، قیراطاً اور قیراطین، قیراطین ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری دلیل یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں آحاد کا آحاد سے تقابل منقول ہے، جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہم لوگ عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہاری عمریں گزری ہوئی امتوں کے عمروں کے مقابلہ میں ایسی ہیں جیسے گزرے ہوئے دن کے مقابلے میں دن کا بقییہ حصہ۔ [مسند أحمد بن حنبل، ج10، رقم الحديث 5966، حديث صحيح لغيره، بتحقيق شعيب الارناوط، رواه الطبراني فى الكبير رقم الحديث 13519]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 172   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 579  
´فجر کی ایک رکعت کا پانے والا`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْعَصْرَ " . . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی، اس نے عصر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الْفَجْرِ رَكْعَةً:: 579]

تشریح:
اب اسے چاہئیے کہ باقی نماز بلا تردد پوری کر لے۔ اس کو نماز وقت ہی میں ادا کرنے کا ثواب حاصل ہو گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 579   
  الشيخ غلام مصطفے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 579  
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من أدرك من الصّبح ركعة قبل أن تطلع الشّمس، فقد أدرك الصّبح، ومن أدرك من العصر ركعة قبل أن تغرب الشّمس، فقد أدرك العصر .»
جس نے طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز ِ صبح کی ایک رکعت پالی، اس نے نماز ِ صبح پالی اورجس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھ لی، اسے نے عصرکی نماز پالی۔
[صحيح بخاري: ١/٨٢، ح: ٥٧٩، صحيح مسلم: ١/٢٢١، ح: ٦٠٧]

فوائد و مسائل
یہ روایت صحیح مسلم (٦٠٩) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے۔
یہ حدیث ِ مبارک اپنے مفہوم میں واضح ہے کہ جس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی، باقی رکعات ادا کر لے تو اس کی نماز عصر صحیح ہے، اگر طلوعِ آفتاب سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالی، دوسری رکعت ادا کرنے پر نماز ِ فجر ادا ہو جائے گی۔
◈ اس حدیث کے تحت حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
«هذا دليل صريح فى أن من صلى ركعة من الصبح أو العصر، ثم خرج الوقت قبل سلامه، لا تبطل صلاته، بل يتمها، وهى صحيحة، وهذا مجمع عليه فى العصر، وأما فى الصبح، فقال به مالك والشافعي وأحمد والعلماء كافة الا أبا حنيفة قال: تبطل صلاة الصبح بطلوع الشمس فيها، لأنه وقت النهي من الصلاة بخلاف غروب الشمس والحديث حجة عليه .»
یہ حدیث بین دلیل ہے کہ جس نے صبح یا عصر کی نماز کی ایک رکعت پڑھی، پھر سلام پھیرنے سے پہلے اس نماز کا وقت ختم ہو گیا، اس کی نماز باطل نہیں ہو گی، بلکہ وہ اپنی نماز کو پورا کرے گا اور اس کی نماز صحیح ہے۔ عصر کے بارے میں تو اجماع ہے، فجر کے بارے میں امام ابوحنیفہ کے علاوہ باقی سب ائمہ مثلاً امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہم اسی کے قائل ہیں، مگر امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ اگر نماز ِ فجر کے دوران سورج طلوع ہو گیا تو نماز باطل ہو جائے گی، کیونکہ یہ نماز کا ممنوع وقت ہے، جبکہ غروب ِ آفتاب کا وقت ممنوع نہیں، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔ [شرح صحيح مسلم للنووي: ١/٢٢١۔٢٢٢]

◈ امام ابن المنذر نیسابوری رحمہ اللہ (م ٣١٨ھ) لکھتے ہیں:
«قد جعل النبيّ صلّى اللّٰه عليه وسلّم من أدرك من العصر قبل أن تغرب الشّمس، ومن أدرك ركعة من الصّبح قبل أن تطلع الشّمس مدركا للصّلاتين وجمع بينهما، فلا معنيٰ لتفريق من فرق الشّيئين جمعت السّنّة بينهما، ولو جاز أن تفسد صلاة من جاء الي وقت لا تحلّ الصّلاة فيه ألزم أن تفسد صلاة من ابتدأها فى وقت لا تجوز الصّلاة فيها، وليس فيما ثبت عن رسول اللّٰه صلّى اللّٰه عليه وسلّم الّا التّسليم له وترك أن يحمل على القياس والنّظر ...» نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز پانے والا قرار دیا ہے، جس نے غروب ِ آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی یا طلوعِ آفتاب سے پہلے صبح کی ایک رکعت پالی، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں نماز وں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، چنانچہ سنت نے جن چیزوں کو جمع کیا ہے، انہیں الگ کرنا درست نہیں، اگر ایسے شخص کی نماز فاسد ہو گی، جس نے مکروہ وقت میں نماز ادا کی تو لازم تھا کہ اس کی نماز شروع ہی سے باطل ہو جاتی، حالانکہ جو کچھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اسے تسلیم کرنا اور قیاس پر محمول نہ کرنا ہی واجب ہے۔ [الاوسط لابن المنذر: ٢/٣٤٩]

◈ کرمانی حنفی لکھتے ہیں:
«وفي الحديث أنّ من دخل الصّلاة، فصلّي ركعة وخرج الوقت كان مدركا لجميعها، وتكون أداء، وهو الصّحيح .»
اس حدیث (ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نماز میں داخل ہوا، اس نے ایک رکعت پڑھی تو وقت ختم ہوگیا، وہ ساری کی ساری نماز کو پانے والا ہے، یہی صحیح اور درست ہے۔ [شرح صحيح البخاري: ٤/٢٠١]
------------------

➋ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اذا أدركت ركعة من صلاة الصّبح قبل أن تطلع الشّمس، فصلّ اليها أخري .»
اگر آپ سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالیں تو اس کے ساتھ دوسری رکعت بھی پڑھ لیں (نماز مکمل کر لیں)۔ [مسند الامام احمد: ٢/٢٣٦، ٤٨٩، وسنده، صحيحٌ]
مسند احمد(٢/٤٩٠) میں ہی قتادہ رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
یہ حدیث ِ مبارکہ نصِ صریح ہے کہ جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے نماز ِ فجر کی ایک رکعت پالی، وہ دوسری رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرے گا۔

امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) نے اس پر اجماع نقل کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
«وهذا اجماع من المسلمين، لا يختلفون فى أنّ هذا المصلّي فرض عليه واجب أن يأتي بتمام صلاة الصّبح وتمام صلاة العصر .»
اس پر مسلمانوں کا بلا اختلاف اجماع ہے کہ ایسے نمازی پر نماز ِ صبح اور نماز ِ عصر مکمل کرنا واجب ہے۔ [التمهيد لابن عبد البر: ٣/٢٧٣]
------------------

➌ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من صلّى سجدة واحدة من العصر قبل غروب الشّمس، ثمّ صلّى ما بقي بعد غروب الشّمس، فلم تفته العصر، وقال: ومن صلّى سجدة واحدة من الصّبح قبل طلوع الشّمس، ثمّ صلّى ما بقي بعد طلوع الشّمس، فلم تفته صلاة الصّبح .»
جس شخص نے نماز ِ فجر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پڑھ لی، باقی ماندہ نماز سورج غروب ہونے کے بعد پڑھ لی، اس سے عصر کی نماز فوت نہیں ہوئی، فرمایا، اور جس نے نماز ِ فجر کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لی، باقی ماندہ نماز سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھی، اس کی صبح فوت نہیں ہوئی۔ [مسند السراج: ٩٣٦، وسنده، صحيحٌ]
دیگر عمومی روایات بھی اس مسئلہ کی مؤید ہیں۔
«قال عبد اللّٰه: سألت أبى عن رجل صلّى بالغداة، فلمّا صلّى ركعة قام فى الثّانية، طلعت الشّمس، قال: يتمّ الصّلاة، هي جائزة .»
عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا حکم ہے، جس نے نماز ِ فجر پڑھی، جب رکعت ادا کر کے دوسری کے لیے کھڑا ہوا تو سورج طلوع ہو گیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، وہ اپنی نماز مکمل کرے، یہ جائز ہے۔ [مسائل الامام احمد لابنه عبد الله: ٥٤۔٥٥]
------------------

اب ان صحیح احادیث ِ نبویہ اور اجماعِ امت کے خلاف فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:
سوال: اگر صبح کی نماز پڑھتے پڑھتے آفتاب طلوع ہو جائے یا عصر کی نماز پڑھتے پڑھتے غروب ہو جائے تو کیا فجر وعصر کی نماز ادا ہو جائے گی؟
الجواب: عصر کی نماز ہو جائے گی، فجر کی نہیں ہوگی۔
[احسن الفتاوي از رشيد احمد ديوبندي لدهيانوي كراچوي: ٢/١٣١]

سوال: اگر فجر کی نماز میں آفتاب طلوع کرے تو نماز صحیح ہوگی یا نہیں؟
الجواب: عندالحنفیہ نماز اس کی فاسد ہوگی، بعد طلوع وارتفاعِ آفتاب پھر صبح کی نماز اس کو پڑھنا چاہیے۔ [فتاوي دارالعلوم ديوبند: ٤/٤٧]
بعض الناس کے یہ دونوں فتوے احادیث ِ صحیحہ اور اجماعِ امت کے خلاف ہیں، یہ حدیث کے ایک ٹکڑے پر عمل ہے، دوسرے کی مخالفت ہے، قرآنِ کریم میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے۔
«أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ» [البقرة: ٨٥]
کیا تم کتاب کے بعض حصہ پر ایمان لے آتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو؟ «فَاِلَي اللّٰهِ الْمُشْتَكيٰ!»

جناب محمد تقی عثمانی دیوبندی حیاتی صاحب اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حدیث ِ باب حنفیہ کے بالکل خلاف ہے، مختلف مشائخِ حنفیہ نے اس کا جواب دینے میں بڑا زور لگایا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی شافی جواب نہیں دیا جا سکا، یہی وجہ ہے کہ حنفیہ مسلک پر اس کو مشکلات میں شمار کیا گیا ہے۔ [درسِ ترمذي از تقي عثماني: ١/٤٣٤]

نیز تقی عثمانی صاحب اس مسئلہ میں اپنے دلائل پر تبصرہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
خود صاحب ِ معارف السنن (محمد یوسف بنوری دیوبندی) نے حضرت شاہ صاحب (انور شاہ کشمیری دیوبندی) کی اس توجیہ کو بہت مفصل اور موجہ کر کے بیان کیا ہے، لیکن آخر میں خود انہوں نے بھی یہ اعتراض کیا ہے شرح صدر اس پر بھی نہیں ہوتا، اس کے علاوہ ان تمام توجیہات پر ایک مشترک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کو اپنے ظاہر سے مؤوّل کرنا کسی نص یا دلیل شرعی کی وجہ سے ہو سکتا ہے اور اس معاملہ میں تفریق بین الفجر والعصر کے بارے میں حنفیہ کے پاس نصِ صریح نہیں، صرف قیاس ہے اور وہ بھی مضبوط نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں حنفیہ کی طرف سے کوئی ایسی توجیہ اب تک احقر (محمد تقی عثمانی)کی نظر سے نہیں گزری، جو کافی اور شافی ہو، اس لیے حدیث کو تروڑ مروڑ کر حنفیہ کے مسلک پر فٹ کرنا کسی طرح مناسب نہیں، یہی وجہ ہے کہ حضرت (رشید احمد) گنگوہی نے فرمایا کہ اس حدیث کے بارے میں حنفیہ کی تمام تاویلات باردہ ہیں اور حدیث (ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) میں کھینچ تان کرنے کے بجائے کھل کر یہ کہنا چاہیے کہ اس بارے میں حنفیہ کے دلائل ہماری سمجھ میں نہیں آ سکے، اور ان اوقات میں نماز پڑھنا ناجائز تو ہے، لیکن اگر کوئی پڑھ لے تو ہو جائے گی۔حضرت گنگوہی کے علاوہ صاحب ِ بحر الرائق (ابنِ نجیم حنفی) اور علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی نے بھی دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ (امام شافعی، امام احمد بن حنبل، امام مالک رحمها اللہ) کے مسلک کو ترجیح دی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امام ابو یوسف سے ایک روایت یہ مروی ہے کہ طلوعِ شمس سے فجر کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔ [درسِ ترمذي از تقي عثماني: ١/٤٣٩۔٤٤٠]
«اللّٰهم أرنا الحقّ حقّا وارزقنا اتباعه، وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه!»
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 15، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 893  
´آدمی جب امام کو سجدہ کی حالت میں پائے تو کیسے کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم نماز میں آؤ اور ہم سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ میں چلے جاؤ اور تم اسے کچھ شمار نہ کرو، اور جس نے رکعت پالی تو اس نے نماز پالی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 893]
893۔ اردو حاشیہ:
➊ مسبوق یعنی امام سے پیچھے رہ جانے والا تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرے اور امام کے ساتھ مل جائے۔ وہ جس حالت میں بھی ہو۔
➋ زیر نظر حدیث میں «الركعة» کا ترجمہ ہم نے رکعت کیا ہے، جب کہ کچھ علماء یہاں اس سے مراد رکوع لیتے ہیں۔ ہمارے مشائخ اور علمائے پاک و ہند کی ایک کثیر تعداد اس سے رکعت ہی مراد لیتی ہے۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی منقو ل ہے۔ جیسے کہ شوکانی نے نیل الاوطار [2/245۔ 244] میں یہ بحث کی ہے۔ وہ تمام حضرات آئمہ کرام جو وجو ب فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں، وہ رکوع کی رکعت کے قائل نہیں ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ، امام ابن خزیمہ، تقی الدین سبکی اور دیگر علمائے شافعیہ اسی طرف گئے ہیں۔ تاہم رکوع میں مل جانے سے رکعت کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے، مگر راحج یہی ہے کہ رکعت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ ایک قیام اور دوسری قرأت اور رکوع میں ملنے والا ان دونوں سے محروم رہتا ہے۔ لہٰذا رکوع میں ملنے سے رکعت کو دہرانا زیادہ راحج ہے۔ «والله اعلم»
اور اس قسم کے مسائل میں عوام الناس کو اپنے ہاں کے قابل اعتماد محقق علماء سے رابطہ کرنا چاہیے۔
➌ مدرک رکوع کے مسئلے کی مذید وضاحت کے لئے ملاحظہ ہو حدیث نمبر [283] کے فوائد۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 893   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 412  
´عصر کے وقت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز عصر پالی، اور جس شخص نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے نماز فجر پالی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 412]
412۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ بالا حدیث صاحب عذر کے لیے ہے مثلاً جب کوئی سوتا رہ گیا ہو یا بھول گیا ہو اور بالکل آخر وقت میں جاگا ہو یا آخر وقت میں نماز یاد آئی ہو تو اس کے لیے یہی وقت ہے۔ مگر جو بغیر کسی عذر کے تاخیر کرے تو اس کے لیے انتہائی مکروہ ہے جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آ رہا ہے۔ نماز عصر کے وقت کے سلسلے میں امام نووی رحمہ اللہ کا درج ذیل بیان جو انہوں نے شرح صحیح مسلم میں ذکر کیا ہے بہت اہم ہے: ہمارے اصحاب (شوافع) کہتے ہیں کہ نماز عصر کے پانچ وقت ہیں: (1) وقت فضیلت۔ (2) وقت اختیار۔ (3) وقت جواز بلاکراہت۔ (4) وقت جواز بالکراہت۔ (5) وقت عذر۔
وقت فضیلت اس کا اول وقت ہے اور وقت اختیار ہر چیز کا سایہ دو مثل ہونے تک ہے اور وقت جواز سورج زرد ہونے تک ہے اور وقت جواز مکروہ سورج غروب ہونے تک ہے اور وقت عذر، ظہر کا وقت ہے یعنی جب کوئی شخص سفر یا بارش وغیرہ کے عذر کی بنا پر ظہر اور عصر کو جمع کر لے۔ اور جب سورج غروب ہو جائے تو یہ نماز قضا ہو گی۔ انتھی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 412   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1121  
´جس نے نماز جمعہ کی ایک رکعت پائی اس نے جمعہ پا لیا۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز کی ایک رکعت پا لی تو اس نے وہ نماز پا لی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1121]
1121۔ اردو حاشیہ:
جس شخص نے جمعہ جماعت اور نماز کے وقت میں ایک رکعت پا لی۔ اس نے نماز کی ادائیگی اور فضیلت پا لی۔ اس طرح جمعہ کی ایک رکعت پائے، تو ایک رکعت اور پڑھے۔ ورنہ چار رکعت مکمل کرے۔ آئمہ کرام سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق یہی بیان کرتے ہیں۔ علامہ محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری صاحب تحفۃ الاحوذی نے مسلک احناف کو ترجیح دی ہے کہ مقتدی امام کے ساتھ نماز کا کچھ حصہ بھی پا لے چاہے تشہد ہی کیوں نہ ہو تو وہ باقی نماز دو کعت ہی جمعہ کی پوری کرے گا اور ظہرکی نماز نہیں پڑھے گا۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1121   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 515  
´(سورج ڈوبنے سے پہلے) عصر کی دو رکعت پا لینے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی دو رکعت ۲؎ یا سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے (نماز کا وقت) پا لیا ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 515]
515 ۔ اردو حاشیہ:
➊حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نما ز کا آغاز معتبر ہے، نہ کہ اختتام، یعنی جس نے نماز وقت میں شروع کرلی اور کم از کم ایک رکعت وقت پر پڑھ لی تو اس کی نماز ادا سمجھی جائے گی، نہ کہ قضا۔ (2)اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو نماز کے دوران میں سورج کے طلوع یا غروب ہونے سے نماز فاسد نہ ہو گی بلکہ نماز جاری رکھے اور مکمل کرے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔ احناف نے فرق کیا ہے کہ فجر کی نماز پڑھتے پڑھتے سورج طلوع ہو جائے تو نماز فاسد ہو جائے گی کیونکہ مکروہ وقت نماز کے اندر شروع ہو گیا، البتہ عصر کی نماز میں سورج غروب ہو جائے تو نماز فاسد نہ ہو گی کیونکہ غروب سے پہلے بھی مکروہ وقت ہی تھا۔ لیکن یہ استدلال اور فرق بہت سی احادیث کے خلاف ہے اور یہ ایک قیاسی بات ہے جو نص کے مقابلے میں معتبر نہیں، اسی لیے اہل علم نے اسے قبول نہیں کیا۔
➌احناف نے اس اعتراض سے بچنے کے لیے اس حدیث کے معنیٰ یہ کیے ہیں کہ جس شخص نے ایک رکعت کا وقت پالیا، اس پر پوری نماز کا پڑھنا فرض ہے۔ مگر بعض روایات میں یہ صراحت ہے: «فلیتم صلاته» وہ اپنی نماز پوری کرے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 556]
حدیث: 517 میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ یہ الفاظ ان کی اس تاویل کو رد کرتے ہیں۔
➍اس حدیث میں عصر کی دو رکعت پانے کا ذکر ہے جب کہ دیگر روایات میں ایک رکعت کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 579، وصحیح مسلم، المساجد، حدیث: 608]
لہٰذا دو رکعت مل جائیں یا ایک، حکم یہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 515   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث699  
´ضرورت اور معذوری کی حالت میں نماز کے وقت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے سورج کے ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی، اس نے عصر کی نماز پا لی، اور جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر کی نماز پا لی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 699]
اردو حاشہ:
(1)
دوسری حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
(وَوَقْتُ الْعَصْرِ مَالَمْ تَصِفَرَّ الشَّمْسُ) (صحيح مسلم، المساجد، باب اوقات الصلوات الخمس، حديث: 612)
جب سورج کی دھوپ کا رنگ تبدیل ہوجائے تو عصر کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر کسی مجبوری یا عذر کی وجہ سے اس وقت کے اندر نماز نہ پڑھی جا سکے تو سورج غروب ہونے تک پڑھی جا سکتی ہے حتی کہ اگر سورج غروب ہونے سے پہلے ایک رکعت بھی پڑھی جائے تو نماز قضاء نہیں ہوتی ادا ہی ہوتی ہے لیکن عصر کی نماز میں سستی کی وجہ سے بلا عذر اس قدر تاخیر کرنا منع ہے۔
ایسی نماز کو رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نماز قرار دیا ہے۔ (صحيح مسلم، المساجد، باب استجاب التبكير بالعصر، حديث: 622)

(2)
فجر کی نماز کا بھی یہی حکم ہے اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت پڑھی جائے تووہ وقت کے اندر ہی ادا شدہ قرار پاتی ہے۔

(3)
بعض علماء نے کچھ فقہی قاعدوں کے ذریعے سے فجر اور عصر کی نماز میں فرق کیا ہے۔
ان کے نزدیک عصر کی نماز میں تو یہ مسئلہ درست ہے جو زیر مطالعہ حدیث میں مذکور ہے البتہ فجر کی نماز میں اگر نماز پڑھتے ہوئے سورج نکل آئے تو ان کی رائے میں نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
حدیث کے واضح حکم کی موجودگی میں قیاس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس لیے فجر اور عصر دونوں نمازوں میں حدیث میں مذکور حکم درست ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 699   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 186  
´جسے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت مل جائے اسے عصر مل گئی۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے سورج نکلنے سے پہلے فجر کی ایک رکعت پالی تو اس نے فجر پالی، اور جس نے سورج ڈوبنے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو اس نے عصر پالی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 186]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اس کی وجہ سے وہ اس قابل ہو گیا کہ اس کے ساتھ باقی اور رکعتیں ملا لے اس کی یہ نماز ادا سمجھی جائے گی قضا نہیں،
یہ مطلب نہیں کہ یہ رکعت پوری نماز کے لیے کافی ہو گی،
اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نماز کے دوران سورج نکلنے سے اس کی نماز فاسد ہو جائے گی وہ اس روایت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ اگر اسے اتنا وقت مل گیا جس میں وہ ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز کا اہل ہو گیا اور وہ نماز اس پر واجب ہوگئی مثلاً بچہ ایسے وقت میں بالغ ہوا ہو یا حائضہ حیض سے پاک ہوئی ہو یا کافر اسلام لایا ہو کہ وہ وقت کے اندر ایک رکعت پڑھ سکتا ہو تو وہ نماز اس پر واجب ہوگی،
لیکن نسائی کی روایت جس میں ((فَلْيُتِمَّ صَلَاتَه)) کے الفاظ وارد ہیں اس تاویل کی نفی کرتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 186   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.