الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: سفر کے احکام و مسائل
The Book on Traveling
69. باب ذِكْرِ مَا يَجُوزُ مِنَ الْمَشْىِ وَالْعَمَلِ فِي صَلاَةِ التَّطَوُّعِ
69. باب: نفل نماز میں کس قدر چلنا اور کتنا کام کرنا جائز ہے؟
حدیث نمبر: 601
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو سلمة يحيى بن خلف، حدثنا بشر بن المفضل، عن برد بن سنان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: " جئت ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في البيت، والباب عليه مغلق، فمشى حتى فتح لي ثم رجع إلى مكانه ". ووصفت الباب في القبلة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " جِئْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْبَيْتِ، وَالْبَاب عَلَيْهِ مُغْلَقٌ، فَمَشَى حَتَّى فَتَحَ لِي ثُمَّ رَجَعَ إِلَى مَكَانِهِ ". وَوَصَفَتِ الْبَاب فِي الْقِبْلَةِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں گھر آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور دروازہ بند تھا، تو آپ چل کر آئے اور میرے لیے دروازہ کھولا۔ پھر اپنی جگہ لوٹ گئے، اور انہوں نے بیان کیا کہ دروازہ قبلے کی طرف تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 169 (922)، سنن النسائی/السہو 14 (1207)، (تحفة الأشراف: 16417)، مسند احمد (6/183، 2340) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: سنت و نفل کے اندر اس طرح سے چلنا کہ قبلہ سے انحراف واقع نہ ہو جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، صحيح أبي داود (855)، المشكاة (1005)، الإرواء (386)

قال الشيخ زبير على زئي: (601) إسناده ضعيف / د 922، ن 1207
   جامع الترمذي601عائشة بنت عبد اللهيصلي في البيت والباب عليه مغلق فمشى حتى فتح لي ثم رجع إلى مكانه
   سنن أبي داود922عائشة بنت عبد اللهيصلي والباب عليه مغلق فجئت فاستفتحت قال أحمد فمشى ففتح لي ثم رجع إلى مصلاه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 922  
´نماز میں کون سا کام جائز اور درست ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، دروازہ بند تھا تو میں آئی اور دروازہ کھلوانا چاہا تو آپ نے (حالت نماز میں) چل کر میرے لیے دروازہ کھولا اور مصلی (نماز کی جگہ) پر واپس لوٹ گئے ۱؎۔ اور عروہ نے ذکر کیا کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلہ کی سمت میں تھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 922]
922۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت سند اً ضعیف ہے، تاہم اگر دروازہ قبلہ رخ ہو اور چند قدم کے فاصلے پر ہو اور گھر میں کوئی جواب دینے والا بھی نہ ہو، تو چند قدم چل کر دروازہ کھول دینے میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا بلکہ ایک تو یہ عمل قلیل ہے۔ دوسرے نمازی قبلے سے منحرف بھی نہیں ہوتا۔ تیسرے اس سے اس کا خشوع فی الصلاۃ بھی زیادہ متاثر نہیں ہو گا۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 922   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 601  
´نفل نماز میں کس قدر چلنا اور کتنا کام کرنا جائز ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں گھر آئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے اور دروازہ بند تھا، تو آپ چل کر آئے اور میرے لیے دروازہ کھولا۔ پھر اپنی جگہ لوٹ گئے، اور انہوں نے بیان کیا کہ دروازہ قبلے کی طرف تھا ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 601]
اردو حاشہ:
1؎:
سنت و نفل کے اندر اس طرح سے چلنا کہ قبلہ سے انحراف واقع نہ ہو جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 601   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.