الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
34. باب مَا جَاءَ فِي إِفْطَارِ الصَّائِمِ الْمُتَطَوِّعِ
34. باب: نفلی روزے کے توڑنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 732
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، قال: كنت اسمع سماك بن حرب، يقول: احد ابني ام هانئ، حدثني فلقيت انا افضلهما، وكانت ام هانئ جدته، فحدثني، عن جدته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها فدعى بشراب فشرب، ثم ناولها فشربت، فقالت: يا رسول الله، اما إني كنت صائمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصائم المتطوع امين نفسه، إن شاء صام وإن شاء افطر ". قال شعبة: فقلت له: اانت سمعت هذا من ام هانئ، قال: لا، اخبرني ابو صالح واهلنا، عن ام هانئ. وروى حماد بن سلمة هذا الحديث، عن سماك بن حرب، فقال: عن هارون بن بنت ام هانئ، عن ام هانئ، ورواية شعبة احسن، هكذا حدثنا محمود بن غيلان، عن ابي داود، فقال: امين نفسه، وحدثنا غير محمود، عن ابي داود، فقال: امير نفسه او امين نفسه على الشك، وهكذا روي من غير وجه عن شعبة امين او امير نفسه على الشك. قال: وحديث ام هانئ في إسناده مقال، والعمل عليه عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الصائم المتطوع إذا افطر فلا قضاء عليه إلا ان يحب ان يقضيه، وهو قول سفيان الثوري، واحمد، وإسحاق، والشافعي.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ سِمَاكَ بْنَ حَرْبٍ، يَقُولُ: أَحَدُ ابْنَيْ أُمِّ هَانِئٍ، حَدَّثَنِي فَلَقِيتُ أَنَا أَفْضَلَهُمَا، وكانت أم هانئ جدته، فَحَدَّثَنِي، عَنْ جَدَّتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَدَعَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَا إِنِّي كُنْتُ صَائِمَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِينُ نَفْسِهِ، إِنْ شَاءَ صَامَ وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ ". قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لَهُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَ: لَا، أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ وَأَهْلُنَا، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، فَقَالَ: عَنْ هَارُونَ بْنِ بِنْتِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَرِوَايَةُ شُعْبَةَ أَحْسَنُ، هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، فَقَالَ: أَمِينُ نَفْسِهِ، وحَدَّثَنَا غَيْرُ مَحْمُودٍ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، فَقَالَ: أَمِيرُ نَفْسِهِ أَوْ أَمِينُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ، وَهَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ شُعْبَةَ أَمِينُ أَوْ أَمِيرُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ. قَالَ: وَحَدِيثُ أُمِّ هَانِئٍ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الصَّائِمَ الْمُتَطَوِّعَ إِذَا أَفْطَرَ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ أَنْ يَقْضِيَهُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَالشَّافِعِيِّ.
شعبہ کہتے ہیں کہ میں سماک بن حرب کو کہتے سنا کہ ام ہانی رضی الله عنہا کے دونوں بیٹوں میں سے ایک نے مجھ سے حدیث بیان کی تو میں ان دونوں میں جو سب سے افضل تھا اس سے ملا، اس کا نام جعدہ تھا، ام ہانی اس کی دادی تھیں، اس نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کی دادی کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں آئے تو آپ نے کوئی پینے کی چیز منگائی اور اسے پیا۔ پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے سماک سے پوچھا: کیا آپ نے اسے ام ہانی سے سنا ہے؟ کہا: نہیں، مجھے ابوصالح نے اور ہمارے گھر والوں نے خبر دی ہے اور ان لوگوں نے ام ہانی سے روایت کی۔ حماد بن سلمہ نے بھی یہ حدیث سماک بن حرب سے روایت کی ہے۔ اس میں ہے ام ہانی کی لڑکی کے بیٹے ہارون سے روایت ہے، انہوں نے ام ہانی سے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- شعبہ کی روایت سب سے بہتر ہے، اسی طرح ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ہے اور محمود نے ابوداؤد سے روایت کی ہے، اس میں «أمين نفسه» ہے، البتہ ابوداؤد سے محمود کے علاوہ دوسرے لوگوں نے جو روایت کی تو ان لوگوں نے «أمير نفسه أو أمين نفسه» شک کے ساتھ کہا۔ اور اسی طرح شعبہ سے متعدد سندوں سے بھی «أمين أو أمير نفسه» شک کے ساتھ وارد ہے۔ ام ہانی کی حدیث کی سند میں کلام ہے۔
۲- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا اگر روزہ توڑ دے تو اس پر کوئی قضاء لازم نہیں الا یہ کہ وہ قضاء کرنا چاہے۔ یہی سفیان ثوری، احمد، اسحاق بن راہویہ اور شافعی کا قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 18001) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: یہی جمہور کا قول ہے، ان کی دلیل ام ہانی کی روایت ہے جس میں ہے «فإن شئت فأقضى وإن شئت فلا تقضى» نیز ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت ہے جس میں ہے «أفطر فصم مكانه إن شئت» یہ دونوں روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نفل روزہ توڑ دینے پر قضاء لازم نہیں، حنفیہ کہتے ہیں کہ قضاء لازم ہے، ان کی دلیل عائشہ و حفصہ رضی الله عنہما کی روایت ہے جو ایک باب کے بعد آ رہی ہے، لیکن وہ ضعیف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج المشكاة (2079)، صحيح أبي داود (2120)

قال الشيخ زبير على زئي: (732) إسناده ضعيف
أبو صالح باذام: ضعيف (د 3236) وانظر الحديث السابق: 731
   جامع الترمذي732فاختة بنت أبي طالبالصائم المتطوع أمين نفسه إن شاء صام وإن شاء أفطر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 732  
´نفلی روزے کے توڑنے کا بیان۔`
شعبہ کہتے ہیں کہ میں سماک بن حرب کو کہتے سنا کہ ام ہانی رضی الله عنہا کے دونوں بیٹوں میں سے ایک نے مجھ سے حدیث بیان کی تو میں ان دونوں میں جو سب سے افضل تھا اس سے ملا، اس کا نام جعدہ تھا، ام ہانی اس کی دادی تھیں، اس نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کی دادی کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں آئے تو آپ نے کوئی پینے کی چیز منگائی اور اسے پیا۔ پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 732]
اردو حاشہ:
1؎:
یہی جمہور کا قول ہے،
ان کی دلیل ام ہانی کی روایت ہے جس میں ہے ((فَإِنْ شِئْتِ فَاقْضِي وَإِنْ شِئْتِ فلا تَقْضِي)) نیز ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں ہے ((أَفْطِرْ فَصُمْ مَكَانَه إِنْ شِئْت)) یہ دونوں روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نفل روزہ توڑ دینے پر قضا لازم نہیں،
حنفیہ کہتے ہیں کہ قضا لازم ہے،
ان کی دلیل عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کی روایت ہے جو ایک باب کے بعد آ رہی ہے،
لیکن وہ ضعیف ہے۔

نوٹ:
(سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 732   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.