الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
24. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ
24. باب: میت پر (آواز سے) رونے کی کراہت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Cry Over The Deceased
حدیث نمبر: 1002
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، حدثنا ابي، عن صالح بن كيسان، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، عن ابيه، قال: قال عمر بن الخطاب: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الميت يعذب ببكاء اهله عليه ". وفي الباب: عن ابن عمر، وعمران بن حصين. قال ابو عيسى: حديث عمر حديث حسن صحيح، وقد كره قوم من اهل العلم البكاء على الميت، قالوا: الميت يعذب ببكاء اهله عليه، وذهبوا إلى هذا الحديث، وقال ابن المبارك: ارجو إن كان ينهاهم في حياته ان لا يكون عليه من ذلك شيء.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْبُكَاءَ عَلَى الْمَيِّتِ، قَالُوا: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، وَذَهَبُوا إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَرْجُو إِنْ كَانَ يَنْهَاهُمْ فِي حَيَاتِهِ أَنْ لَا يَكُونَ عَلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ (تحریمی) قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،
۴- اور ابن مبارک کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ اگر وہ (میت) اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتا رہا ہو تو اس پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الجنائز 14 (1851) (تحفة الأشراف: 10527) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 32 (1287)، و33 (1290، 1291)، صحیح مسلم/الجنائز 9 (927)، سنن النسائی/الجنائز 14 (1849)، و15 (1854)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 54 (1593)، (تحفة الأشراف: 9031)، مسند احمد (1/26، 36، 47، 50، 51، 54)، من غیر ہذا الوجہ۔و راجع أیضا مسند احمد (6/281)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1593)
   سنن النسائى الصغرى1849عبد الله بن عمرالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   سنن النسائى الصغرى1851عبد الله بن عمريعذب الميت ببكاء أهله عليه
   سنن النسائى الصغرى1854عبد الله بن عمرالميت يعذب في قبره بالنياحة عليه
   سنن النسائى الصغرى1856عبد الله بن عمرصاحب القبر ليعذب وإن أهله يبكون عليه
   صحيح البخاري1292عبد الله بن عمرالميت يعذب في قبره بما نيح عليه
   صحيح البخاري1304عبد الله بن عمرالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   صحيح مسلم2142عبد الله بن عمرالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   صحيح مسلم2143عبد الله بن عمرالميت يعذب في قبره بما نيح عليه
   صحيح مسلم2144عبد الله بن عمرالميت يعذب في قبره بما نيح عليه
   صحيح مسلم2152عبد الله بن عمرالميت يعذب ببكاء الحي
   صحيح مسلم2145عبد الله بن عمرالميت ليعذب ببكاء الحي
   جامع الترمذي1002عبد الله بن عمرالميت يعذب ببكاء أهله عليه
   سنن ابن ماجه1593عبد الله بن عمرالميت يعذب بما نيح عليه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1593  
´میت پر نوحہ خوانی سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے اسے عذاب دیا جاتا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1593]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر مرنے والے نے یہ وصیت کی ہو کہ میرے مرنے پر نوحہ کیا جائے۔
تو وہ نوحہ کرنے والیوں کے گناہ میں شریک ہے۔
اس لئے سزا کا مستحق ہے۔
اسی طرح اگر اس کے خاندان میں بین کرنے، بال نوچنے، گریبان چاک کرنے، اور اس طرح کی حرکات کا رواج ہو۔
اور وہ انہیں منع نہ کرے۔
بلکہ اپنے قول وفعل سے اس کی حوصلہ افزائی کرے۔
تب بھی زندوں کےنوحہ کرنے کی وجہ سے اس مردے کو عذاب ہوگا۔
البتہ اگر فوت ہونے والا شخص ان کاموں کو پسند نہیں کرتا تھا۔
نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔
بلکہ منع کیا کرتا تھا تو اب دوسرے کے اعمال کی ذمہ داری اس پر نہیں اس لئے اسے عذاب نہیں ہوگا۔ 2۔
ممکن ہے حدیث کا یہ مطلب ہو۔
کہ نوحہ کرنے سے میت کو تکلیف ہوتی ہے۔
اسے اس بات پر دکھ ہوتا ہے کہ اس کی وفات پر ناجائز کام کیے جارہے ہیں۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1593   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.