الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طلاق اور لعان کے احکام و مسائل
The Book on Divorce and Li'an
17. باب مَا جَاءَ فِي الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا تَضَعُ
17. باب: شوہر کی وفات کے بعد بچہ جننے والی عورت کی عدت کا بیان۔
Chapter: What has been related about the pregnant woman who gives birth after her husband dies
حدیث نمبر: 1193
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا حسين بن محمد، حدثنا شيبان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن ابي السنابل بن بعكك، قال: وضعت سبيعة بعد وفاة زوجها بثلاثة وعشرين، او خمسة وعشرين يوما فلما تعلت، تشوفت للنكاح فانكر عليها، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " إن تفعل فقد حل اجلها ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِي السَّنَابِلِ بْنِ بَعْكَكٍ، قَالَ: وَضَعَتْ سُبَيْعَةُ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِثَلَاثَةٍ وَعِشْرِينَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ يَوْمًا فَلَمَّا تَعَلَّتْ، تَشَوَّفَتْ لِلنِّكَاحِ فَأُنْكِرَ عَلَيْهَا، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنْ تَفْعَلْ فَقَدْ حَلَّ أَجَلُهَا ".
طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا، اور جب وہ نفاس سے پاک ہو گئی تو نکاح کے لیے زینت کرنے لگی، اس پر اعتراض کیا گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ ایسا کرتی ہے (تو حرج کی بات نہیں) اس کی عدت پوری ہو چکی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطلاق 56 (3539)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2027)، مسند احمد (4/305) (تحفة الأشراف: 12053) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ سند میں انقطاع ہے جسے مولف نے بیان کر دیا ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2027)
   جامع الترمذي1193عمرو بن بعككإن تفعل فقد حل أجلها
   سنن ابن ماجه2027عمرو بن بعككإن تفعل فقد مضى أجلها
   سنن النسائى الصغرى3538عمرو بن بعككوضعت سبيعة حملها بعد وفاة زوجها بثلاثة وعشرين أو خمسة وعشرين ليلة فلما تعلت تشوفت للأزواج فعيب ذلك عليها فذكر ذلك لرسول الله فقال ما يمنعها قد انقضى أجلها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2027  
´حاملہ عورت کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت بچہ جننے کے ساتھ ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد اس سے شادی جائز ہے۔`
ابوسنابل کہتے ہیں کہ سبیعہ اسلمیہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات کے بیس سے کچھ زائد دنوں بعد بچہ جنا، جب وہ نفاس سے پاک ہو گئیں تو شادی کی خواہشمند ہوئیں، تو یہ معیوب سمجھا گیا، اور اس کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے کیونکہ اس کی عدت گزر گئی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطلاق/حدیث: 2027]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔
یہ مسئلہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
  ﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ﴾ (الطلاق 65: 4)
اور حاملہ عورتوں کی عدت ان کا وضح حمل ہے۔

(2)
  حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا کے طرز عمل کو صحیح نہ سمجھنے والے خود حضرت ابو سنابل تھے۔
ان کی رائے یہ تھی کہ اگر چار ماہ دس دن کی مدت گزرنے سے پہلے ولادت ہو جائے تو عدت چار ماہ دس دن تک گزارنی چاہیے۔
عدت وضع حمل تک صرف اس صورت میں ہوگی جب وضع حمل کی مدت چار ماہ دس دن سے زائد ہو جیسے کہ اگلی حدیث میں بیان ہے۔

(3)
  پہلے حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا نے بھی یہی محسوس کیا تھا کہ حضرت ابوسنابل کی رائے صحیح ہے لیکن نبئ اکرم ﷺ سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی عدت ختم ہوچکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث: 2028)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2027   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1193  
´شوہر کی وفات کے بعد بچہ جننے والی عورت کی عدت کا بیان۔`
طلق بن علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سبیعہ نے اپنے شوہر کی موت کے تئیس یا پچیس دن بعد بچہ جنا، اور جب وہ نفاس سے پاک ہو گئی تو نکاح کے لیے زینت کرنے لگی، اس پر اعتراض کیا گیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر وہ ایسا کرتی ہے (تو حرج کی بات نہیں) اس کی عدت پوری ہو چکی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطلاق واللعان/حدیث: 1193]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے،
ورنہ سند میں انقطاع ہے جسے مولف نے بیان کر دیا ہے)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1193   

حدیث نمبر: 1193M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا الحسن بن موسى، حدثنا شيبان، عن منصور نحوه. وقال وفي الباب: عن ام سلمة. قال ابو عيسى: حديث ابي السنابل، حديث مشهور غريب من هذا الوجه، ولا نعرف للاسود سماعا من ابي السنابل، وسمعت محمدا، يقول: لا اعرف ان ابا السنابل، عاش بعد النبي صلى الله عليه وسلم، والعمل على هذا الحديث عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الحامل المتوفى عنها زوجها إذا وضعت، فقد حل التزويج لها، وإن لم تكن انقضت عدتها وهو قول: سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم: تعتد آخر الاجلين والقول الاول اصح.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَهُ. وقَالَ وَفِي الْبَاب: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي السَّنَابِلِ، حَدِيثٌ مَشْهُورٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا نَعْرِفُ لِلْأَسْوَدِ سَمَاعًا مِنْ أَبِي السَّنَابِلِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: لَا أَعْرِفُ أَنَّ أَبَا السَّنَابِلِ، عَاشَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْحَامِلَ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا إِذَا وَضَعَتْ، فَقَدْ حَلَّ التَّزْوِيجُ لَهَا، وَإِنْ لَمْ تَكْنِ انْقَضَتْ عِدَّتُهَا وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: تَعْتَدُّ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
‏‏‏‏ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوسنابل کی حدیث مشہور اور اس سند سے غریب ہے،
۲- ہم ابوسنابل سے اسود کا سماع نہیں جانتے ہیں،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ مجھے نہیں معلوم کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوسنابل زندہ رہے یا نہیں،
۴- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی حدیث روایت ہے،
۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاملہ عورت جس کا شوہر فوت ہو چکا ہو جب بچہ جن دے تو اس کے لیے شادی کرنا جائز ہے، اگرچہ اس کی عدت پوری نہ ہوئی ہو۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،
۶- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وضع حمل اور چار ماہ دس دن میں سے جو مدت بعد میں پوری ہو گی اس کے مطابق وہ عدت گزارے گی، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2027)


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.