حدثنا قتيبة، حدثنا داود بن عبد الرحمن العطار، عن عمرو بن دينار، عن ابي المنهال، عن إياس بن عبد المزني، قال: " نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع الماء ". قال: وفي الباب، عن جابر، وبهيسة، عن ابيها، وابي هريرة، وعائشة، وانس، وعبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: حديث إياس حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم، انهم كرهوا بيع الماء، وهو قول: ابن المبارك، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقد رخص بعض اهل العلم في بيع الماء منهم: الحسن البصري.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ: " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمَاءِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَبُهَيْسَةَ، عَنْ أَبِيهَا، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ إِيَاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُمْ كَرِهُوا بَيْعَ الْمَاءِ، وَهُوَ قَوْلُ: ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي بَيْعِ الْمَاءِ مِنْهُمْ: الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ.
ایاس بن عبد مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ایاس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، بہیسہ، بہیسہ کے باپ، ابوہریرہ، عائشہ، انس اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے پانی بیچنے کو ناجائز کہا ہے، یہی ابن مبارک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض اہل علم نے پانی بیچنے کی اجازت دی ہے، جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد نہر و چشمے وغیرہ کا پانی ہے جو کسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو اور اگر پانی پر کسی طرح کا خرچ آیا ہو تو ایسے پانی کا بیچنا منع نہیں ہے مثلاً راستوں میں ٹھنڈا پانی یا مینرل واٹر وغیرہ بیچنا جائز ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1271
´ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان۔` ایاس بن عبد مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1271]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: اس سے مراد نہروچشمے وغیرہ کا پانی ہے جوکسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو اوراگرپانی پر کسی طرح کا خرچ آیا ہوتو ایسے پانی کا بیچنا منع نہیں ہے مثلاً راستوں میں ٹھنڈا پانی یا مینرل واٹروغیرہ بیچناجائزہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1271
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3478
´فاضل پانی کے بیچنے کا بیان۔` ایاس بن عبد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاضل (پینے کے) پانی کے بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3478]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ اس سے مراد صحرا اور عام چراگاہوں میں پائے جانے والے تالابوں کنووں یا چشموں کا پانی ہے، نہ کہ کسی کی ذاتی ملکیت والی زمین میں محنت و مشقت سے نکالا جانے والا پانی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3478