الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book on Sacrifices
17. باب الأَذَانِ فِي أُذُنِ الْمَوْلُودِ
17. باب: نومولود کے کان میں اذان کہنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1514
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار , حدثنا يحيى بن سعيد , وعبد الرحمن بن مهدي , قالا: اخبرنا سفيان , عن عاصم بن عبيد الله , عن عبيد الله بن ابي رافع , عن ابيه , قال: " رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم اذن في اذن الحسن بن علي حين ولدته فاطمة بالصلاة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والعمل في العقيقة على ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير وجه , عن الغلام شاتان مكافئتان , وعن الجارية شاة , وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم ايضا: انه عق عن الحسن بن علي بشاة , وقد ذهب بعض اهل العلم إلى هذا الحديث.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ فِي الْعَقِيقَةِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ , عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ , وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ , وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا: أَنَّهُ عَقَّ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ بِشَاةٍ , وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- عقیقہ کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی سندوں سے آئی ہے کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے،
۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے حسن کی طرف سے ایک بکری ذبح کی، بعض اہل علم کا مسلک اسی حدیث کے موافق ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 116 (5105)، (تحفة الأشراف: 12020) و مسند احمد (6/9، 391، 392) (ضعیف) (سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہیں، اور اس معنی کی ابن عباس کی حدیث میں ایک کذاب راوی ہے۔دیکھیے الضعیفة رقم 321 و 6121)»

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (1173)، مختصر " تحفة المودود "

قال الشيخ زبير على زئي: (1514) إسناده ضعيف / د 5105

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1514  
´نومولود کے کان میں اذان کہنے کا بیان۔`
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حسن بن علی جب فاطمۃالزہراء رضی الله عنہم سے پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن کے کان میں نماز کی اذان کی طرح اذان دی۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1514]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں عاصم بن عبیداللہ ضعیف راوی ہیں،
اور اس معنی کی ابن عباس کی حدیث میں ایک کذاب راوی ہے۔
دیکھیے الضعیفۃ رقم: 321 و 6121)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1514   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5105  
´بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان دینا کیسا ہے؟`
ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5105]
فوائد ومسائل:

اس عمل کی حکمت ظاہر ہے کہ اس سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان اور اسلام کے اہم ترین شعار سے تعلق کا اظہار ہے اور ان مبارک کلمات سے تبرک حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے کہ اللہ عزوجل اس نومولود کو کامیابی کی اس راہ پر گامزن فرمائے اور شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے۔
آمین

بچے کے کان میں ازان کہنے والی یہ روایت تو سندا ثابت نہیں ہے۔
تاہم آج تک امت میں اس پر عمل ہوتا آرہا ہے۔
اور امت کا یہ عملی تواتر ہی اس کے جواز کی بنیاد ہے۔
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اذان دینے کی حد تک کچھ نہ کچھ اصل تسلیم کی ہے۔
دوسرے کان میں تکبیرکی نہیں دیکھئے۔
(الضعیفة: 329/1، 331حدیث 312) تاہم اس عمل کے مسنون ہونے کی دلیل ہمارے علم میں نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5105   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.