حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن يحيى بن سعيد، بهذا الإسناد، نحوه، وفي الباب، عن عوف بن مالك، وخالد بن الوليد، وانس، وسمرة بن جندب، وهذا حديث حسن صحيح، وابو محمد هو نافع مولى ابي قتادة، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول الاوزاعي، والشافعي، واحمد، وقال بعض اهل العلم: للإمام ان يخرج من السلب الخمس، وقال الثوري: النفل، ان يقول الإمام: من اصاب شيئا فهو له، ومن قتل قتيلا فله سلبه، فهو جائز، وليس فيه الخمس، وقال إسحاق: السلب للقاتل، إلا ان يكون شيئا كثيرا، فراى الإمام ان يخرج منه الخمس كما فعل عمر بن الخطاب.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، وَفِي الْبَاب، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَأَنَسٍ، وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ هُوَ نَافِعٌ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لِلْإِمَامِ أَنْ يُخْرِجَ مِنَ السَّلَبِ الْخُمُسَ، وقَالَ الثَّوْرِيُّ: النَّفَلُ، أَنْ يَقُولَ الْإِمَامُ: مَنْ أَصَابَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَلَهُ سَلَبُهُ، فَهُوَ جَائِزٌ، وَلَيْسَ فِيهِ الْخُمُسُ، وقَالَ إِسْحَاق: السَّلَبُ لِلْقَاتِلِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ شَيْئًا كَثِيرًا، فَرَأَى الْإِمَامُ أَنْ يُخْرِجَ مِنْهُ الْخُمُسَ كَمَا فَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
اس سند سے بھی ابوقتادہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عوف بن مالک، خالد بن ولید، انس اور سمرہ بن جندب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام اور دیگر لوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی، شافعی اور احمد کا بھی یہی قول ہے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مقتول کے سامان سے خمس نکالنے کا امام کو اختیار ہے، ثوری کہتے ہیں: «نفل» یہی ہے کہ امام اعلان کر دے کہ جو کافروں کا سامان چھین لے وہ اسی کا ہو گا اور جو کسی کافر کو قتل کرے تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا اور ایسا کرنا جائز ہے، اس میں خمس واجب نہیں ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ مقتول کا مال قاتل کا ہے مگر جب سامان زیادہ ہو اور امام اس میں سے خمس نکالنا چاہے جیسا کہ عمر بن خطاب نے کیا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 52 - 53)، صحيح أبي داود (243)